عالمی طاقتوں کا دوغلا پن

گزشتہ سے پیوستہ ماہ میرا ایک کزن کسی عارضے کے سبب اٹلی کے ایک ہسپتال میں داخل تھا اور تیمار داری کے سلسلے میں مجھے ہسپتال جانا پڑا۔ یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا جب میں اس کے پاس وارڈ میں پہنچا اور رسمی خیر و عافیت پوچھنے کے بعد میری نظر کھانے کی ٹرے پر پڑی جس میں گوشت کے علاوہ سب کچھ کھا لیا گیا تھا۔ میں نے اپنے کزن سے پوچھا کہ گوشت کیوں نہیں کھایا؟ وہ حیرانی و پریشانی کے تاثرات چہرے پر سجائے دھیمے سے لہجے میں گویا ہوا کہ رمیض بھائی یہ “کتے کا گوشت”ہے ۔ اس کا جواب سن کر میں بھی چونکے بنا نہ رہ سکا اور پھر پوچھا کیا واقعی یہ کتے کا گوشت ہے؟ اس نے پھر اثبات میں گردن ہلا دی تو میں نے کہا تمھیں کیسے پتا کہ یہ کتے کا گوشت ہے؟

تو اس نے مجھے بتایا کہ کھانا ملنے کے بعد میں نے نرس کو بلا کر پوچھا تھا کہ یہ کس کا گوشت ہے؟ تو وہ بولی”کانے” (CANE) ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میں تیز قدموں سے چلتا ہوا ڈاکٹرز کے اسٹاف روم میںجا پہنچا، تا کہ وضاحت طلب کی جا سکے اور معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے کہ آخر ایک مسلمان مریض کو ایسے جانور کا گوشت کیوں دیا گیا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اٹالین زبان میں کتے کو”کانے” (CANE) اور کسی بھی گوشت کو “کارنے” (CARNE) کہا جاتا ہے جبکہ میرے کزن کا اس ملک کی زبان میں ہاتھ کافی تنگ تھا۔ خیر تو میں اسٹاف روم میں پہنچا اور سارا واقعہ ڈاکٹر سے بیان کیا جس کے بعد ڈاکٹر بھی چونک کر کھڑا ہو گیا اور مجھے کہنے لگا کہ چلیے اس مریض کے پاس ،تو ڈاکٹر کے ساتھ دو نرسیں اور میں وارڈ میں جا پہنچے جہاں میرا کزن منتظر تھا، ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ آپ سے کس نے کہا کہ یہ کتے کا گوشت ہے ؟ کزن نے ڈاکٹر کے پیچھے کھڑی نرسوں میں سے ایک نرس کی طرف اشارہ کیا جس پر وہ نرس وضاحت دینے کے لیے آگے بڑھی اور بولی کہ میں نے کہا تھا یہ”کارنے” (CARNE) ہے جب کہ آپ کا کزن اس کو “کانے” (CANE) سمجھ بیٹھا۔

نرس کا جواب سن کر مجھے شرمندگی ہوئی لیکن میں نے کزن کو ترجمہ کر کے بتایا کہ یہ بات ایسے نہیں ایسے تھی اور اس کے بعد ڈاکٹر سے معذرت کی لیکن جواب میں ڈاکٹر نے جو بات کہی وہ سن کر میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا اور میرے دماغ میں کشمیر، برما، شام، فلسطین، شہدائے پشاور اور جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم و تشدد ہو رہا ان سب کی صورتیں ایک فلم کی مانند چلنے لگیں۔ خیر ڈاکٹر نے کیا کہا تھا وہ سنیے۔۔۔
ڈاکٹر بولا کہ اپنے کزن سے کہیے کہ یہاں پر”کتے کو مارنے (ہلکی سی ضرب لگانے) کی بھی سزا ہے آپ کو جیل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کتے کے حقوق ہیں تو پھر آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ہم کتا ذبح کر کے اس کا گوشت لوگوں کو کھلائیں گے ؟”۔

یہ واقعہ سنانے کا مقصد آپ احباب کی توجہ دو انتہائی اہم پہلوؤں کی جانب مبذول کروانا ہے۔۔۔
1۔ اسلام مکمل امن و سلامتی کا دین ہے جس کی تعلیمات ہمیں صلح پسندی، ہم آہنگی، اعلی ظرفی، اتحاد و یگانگت، بھائی چارہ، امن و محبت، اخلاقیات اور ہر مذہب کی تعظیم و تکریم کے ساتھ ایک کامیاب و خوشگوار زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھاتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ آپ ﷺ نے نا صرف عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں کے حقوق کی طرف توجہ دی بلکہ دشمنوں اور جانوروں سے بھی صلہ رحمی کا درس دیا جس کی بے شمار مثالیں احادیث کی صورت میں صحاح ستہ میں موجود ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال کر خود کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ اور مغرب کا غیر مسلم معاشرہ ان تعلیمات پر عمل کر کے مہذب و تعلیم یافتہ ہو کر ہمیں اخلاقیات کا درس دے رہا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

2۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کتے کے حقوق صرف اٹلی میں ہی نہیں بلکہ جرمنی، اسپین، فرانس اور یورپ کے دیگر تمام ملکوں کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا، اور کینیڈا جیسے مغربی ممالک ہیں لیکن یہ عالمی طاقتوں کا دوغلا پن کیوں ہے کہ حیوانوں کو تو حقوق دیے جا رہے ہیں مگر انسانوں کو یہی طاقتیں جو نام نہاد حیوانوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہیں۔ ایلان کردی کی اوندھے منہ ساحل پر پڑی نعش عالمی ایوانوں میں طوفان برپا کرتی ہے، لیکن جو آئے روز متعدد بے نام لاشیں برما میں جلائی جا رہی ہیں یا کشمیر میں انسانیت کی تذلیل اور شام میں تاریخی قتل و غارت کرتے وقت ان عالمی طاقتوں کا ضمیر کہاں چلا جاتا ہے؟ یہ دکھاوے کا ڈھونگ رچا کر انسانیت کا لبادہ اوڑھے حیوان نما درندے ہی درحقیقت انسانیت کے دشمن ہیں جو دوغلے پن سے کام لیتے ہوئے سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں ،لیکن افسوس کہ اسلامی حکمران ان درندوں کی چالوں کو بھانپ لینے کے باوجود ذاتی اختلافات کی ریت میں کبوتر کی طرح سر چھپائے ایک خوفناک حملے کے منتظر ہیں۔

Facebook Comments

رمیض اکبر خاں میئو
میرا پیغام محبت، حق، شعور، اور بھائی چارہ ہے جہاں تک پہنچے۔ باطن باوضو نہیں ہوتا جب تک رمیض مومن نہیں گردانتا تجھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply