کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال اور وزیراعظم کی جی حضوری

گزشتہ برس 21جولائی2017 کو آزاد کشمیر میں عام انتخابات منعقد ہوئے جن کے ذریعے راجہ فاروق حیدر خان بھاری اکثریت سے وزیر اعظم آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر منتخب ہوئے۔ راجہ فاروق حیدر خان نے الیکشن مہم کے دوران ہر سٹیج پر انتہائی جوشیلے انداز میں گڈگورننس اور میرٹ کا بول بالا کرنے کا اعلان کیا مگر افسوس بلند و بانگ دعوے اعلانات اور بیانات محض خواب ہی نکلے، میرٹ کا بول بالا کرنے والوں نے خزانے پر بوجھ سابقہ حکومتوں کے سفارشی ملازموں کو ہٹانے کی بجائے تعلیمی پیکج کو ہی سرے سے ختم کرنا چاہا اور تمام اداروں سے سٹاف کے تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیلی فونک کالز کے ذریعے ایک ہی رات تبادلے کر دیے حالانکہ تبادلے کے لیے باقاعدہ ایک نظام کے تحت خط(حکم) لکھا جاتا ہے مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی نظر آئی حکومت نے ہزاروں طلبہ و طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا کر حکم جاری کیا کہ قریب ترین کالجز میں داخلے لیے جائیں مگر طلبہ و طالبات کے پاس بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پہلے مرحلے میں ہی 40فیصد طلبہ و طالبات نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ۔

اپوزیشن جماعت کی طرف سے موجودہ حکومت کے خلاف تعلیمی پیکج کے سلسلہ میں کیس بھی کیا گیا جو موجودہ حکومت ہار گئی مگر تاحال عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے جرم میں توہین عدالت کا کیس بھی زیر سماعت ہے ،پھر گڈگورننس کے دعوے عوام کو ووٹرز اور سپورٹرز کی گلیاں پکی ہونے کی صورت پورے ہوتے نظر آئے۔ راجہ فاروق حیدر خان صاحب جلد بازی میں بغیر کچھ سوچے سمجھے فیصلے کر جاتے ہیں جو بعد میں ان کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں، راجہ صاحب گزشتہ ضمنی الیکشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اکثر بلدیاتی الیکشن کروانے کے دعوے کرتے دکھائی دیے مگر اس میں بھی تاریخ پر تاریخ دی گئی، شاید راجہ صاحب اور ان کی کابینہ اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کو برداشت کرنے کے لیے ہی تیار نہیں جس کی وجہ سے ایک سال سے حیل و حجت سے کام لیا جا رہا ہے اور جب دیکھا کہ پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے تو راجہ صاحب نے ریاست بھر کے پٹواریوں کو حکم جاری کر دیا کہ حلقہ بندیاں مرتب کر کے عوام کو تقسیم کر دو تا کہ مزید ایک سال تک عوام انہیں دیکھتے اور درست کرواتے رہیں ۔

بلدیاتی الیکشن کا بوجھ حلقہ بندیوں اور پٹواریوں پر ڈال کر گزشتہ دِنوں دبنگ وزیراعظم نے وزیراعلی گلگت بلتستان کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اپنے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی فرمانبرداری میں ایک بیان دیا، شاید اُن کا خیال تھا کہ ایسا بیان جاری کرنے سے مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات جن میں سے ایک بڑی مشکل تحریک عدم اعتماد کا خوف تھا ،سے وہ چھٹکارہ پانے میں کامیاب ہوں گے مگر موصوف کے لیے ایک مشکل اور پیدا ہو گئی ۔جب پاکستانی سیاسی قائدین اور میڈیا نے اس بیان پر واویلا مچانا شروع کر دیا اور اس طرح کے جملے پاکستانی سیاستدانوں کی طرف سے سننے کو ملے جس سے پوری کشمیری قوم کو تذلیل محسوس ہوئی مگر شاید راجہ صاحب کو نہیں۔بیان کے ردِ عمل میں کشمیری عوام نے جب پاکستانی سیاستدانوں کے خلاف سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی اس کے کافی مثبت نتائج دیکھنے کو ملے، جس سے معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔

جس بیان پر واویلا مچا اس بیان کو اگر سیاق و سباق کے ساتھ جوڑا جائے تو کچھ یوں تھا کہ” ہمیں وہ پاکستان چاہیے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا،جہاں انصاف کا بول بالا ہو، جہاں اسلامی قانون ہو، جہاں خواتین کو تحفظ ملتا ہو، جہاں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہ ہوتا ہو، اور جہاں آئین کی بالا دستی ہو، جہاں ہر وزیراعظم اپنی مدت پوری کرتا ہو،اور اگر ایسا پاکستان نہیں ہے یہاں تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کس سے الحاق کریں یعنی کہاں سے وہ پاکستان لائیں جہاں قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کو تعبیر ملتی ہو”۔۔۔ مگر چند اخبارات نے جب بیان کو سیاق و سباق کاٹ کر پیش کیا تو چاروں طرف سے راجہ صاحب پر لعن طعن شروع ہوئی اور پھر موصوف نے دوبارہ پریس کانفرنس کی اور خوب گِڑ گڑا کر بیان کی تردید کر دی مگر پھر بھی دو تین دن پاکستانی میڈیا چینلز کے لیے وہ موضوع بنے رہے ،جس پر ہر کسی نے تبصرہ کیا اور ایک اینکر نے تو غداری کا مقدمہ درج کرنے کا مشورہ دے دیا اور دوسرے دن کراچی کے کسی تھانے میں وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف غداری کی درخواست بھی کسی نے درج کروا کر سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی۔

سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب کی نا اہلی اپنی جگہ، وزیراعظم آزاد کشمیر کی کم ظرفی اپنی جگہ کہ انہوں نے صادق و امین نہ ہونے کے جرم میں نا اہل وزیراعظم کی محبت میں یہ سب کچھ بولا مگر جو کچھ انہوں نے بولا کیا یہ سب غداری ہے؟سیاق و سباق سمیت بھی اور سیاق و سباق کاٹ کر بھی سب الفاظ غداری کے زمرے میں آتے ہیں؟وزیراعظم آزادکشمیر ایک ایسی ریاست کے وزیراعظم ہیں جس کی تکمیلِ پاکستان کے لیے بے شمار ناقابلِ فراموش قربانیاں ہیں ،جو تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی، ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان سے محبت کی مثال وہ 80 ہزار کشمیری مجاہدین بٹالین ہے جو سیاچین کے بارڈر پر ہوں یا لائن آف کنٹرول پر ،گرمی، سردی، بھوک ،پیاس کی پروا کیے بغیر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہیں۔ان 80 ہزار مجاہدین نے کبھی دشمن کو پاک سر زمین پر ایک انچ تک آگے نہ بڑھنے دیا اور جب کبھی دشمن نے ارادہ بھی کیا ہو تو اسے خاک میں ملا دیا ہے اور ہمیشہ اپنے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر کا الحاق عارضی ہے جو ایک سیاسی جماعت نے قرارداد منظور کر کے کیا تھا اور اقوام متحدہ کے مطابق کشمیریوں کو رائے حقِ خوداداریت کا حق دیا جائے اور باقائدہ ایک نظام کے تحت کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کریں کہ انہیں کسی ریاست کے ساتھ الحاق کرنا ہے یا خودمختار رہنا ہے۔اگر رائے شماری ہوتی ہے تو ذرا سوچیے کتنے کشمیریوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج ہوں گے اگر انہوں نے خودمختاری کے لیے ووٹ درج کیے.میری ان تمام شر پسند عناصر سے گزارش ہے کے خدا را کشمیریوں کے دلوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے نفرت مت پیدا کرو، شاید تم بھول گئے ہو کہ تمہارے جیسے ہی کچھ شر پسند عناصر تھے جنہوں نے بنگال کو پاکستان سے الگ کیا تھا اور ان کاحال کیا ہوا تھا۔۔ اب تم کشمیر اور پاکستان کی عوام کے دِلوں میں جو نفرت کا بیج بو رہے ہو وہ کہیں تمہارے ہی گلے نہ پڑ جائے ،لہذا کچھ خیال کرو اور دیکھو کہ ملک کس حالت میں ہے۔ ہر طرف سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے پاکستان کے سارے دشمن طاق میں ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ کوئی کارروائی کر ڈالیں اور تم اپنے اپنے مفادات کے پیچھے لگے ہوئے ہو ۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply