بھول بھلیوں کا حسن اور گلگت۔۔۔رابعہ احسن

بولنے سے بہت سے موسم ہم پہ وا ہوتے ہیں جو خاموش رہنے سے پس منظر میں چھپنے لگتے ہیں اس لئے بولنا ضروری ہے اور بولتےمنظر ہمیشہ سے توجہ کا مرکز بننے لگتے ہیں جب کوئی تصورات اور حقیقت کو آپس میں یکجان کرکے سفر نامہ لکھیں  یا پھر اسی سفر کو کسی خاص جگہ کا کوئی مقامی باشندہ اپنے جذبات اور تجربات میں سنائے۔ مجھے لگتا ہے کہ   کسی خاص مقام کے رہائشی سے اس جگہ کی داستاں سننا خود کو اس جگہ پہ موجود پانے کے مترادف ہے جیسا کہ ہم بچپن سے اپنی امی سے کوہاٹ کے حسن اور خوبصورتی کے بارے میں سنتے آئے کہ وہاں کے شفاف پانی کے نالے، لوکاٹ کے درخت اور خوبصورت پہاڑ اس جگہ کی اپنی انفرادیت ہے اسی طرح ہر جگہ کی اپنی خاصیت ہوتی ہے۔

ہنزہ داستاں پڑھتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ جس طرح ہمیں سنگلاخ پہاڑوں، اونچی نیچی سڑکوں، میدانوں اور خطرناک راستوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے بند ہوتے ہوئے راستوں پر سے گزارتے  ہوئے    گلگت کی خاموشیوں میں اتارتے ہیں  تو مجھے اپنے اردگرد کھردرے سرمئی اور بھورے پہاڑ محسوس ہونے لگتے ہیں جن کے اندر سب سے الگ تھلگ ایک تہذیب خاموشی اور سکون سے آباد ہے ایک ایسی تہذیب جو چہار جانب پہاڑوں سے گھری ہوئی ارد گرد کے علاقوں سے بہت مختلف ہے صنعتی ترقی کے اثرات نے یہاں کی تنہائی اور خاموشی پر کوئی فرق نہیں ڈالا ،دریائے گلگت اور باغوں میں چلنے والی ہواؤں کی سرسراہٹ صرف اس خاموشی کو توڑتی ہے بقول سیاح کے یہاں اداسی وہ ہے جو انسان روز ازل سے اپنے اندر لئے پھرتا ہے اور یہاں آکر وہ ظاہر ہو جاتی ہے۔
یہاں کے مقامی لوگوں سے بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انھیں ان پہاڑوں سے باہر رہنے والوں سے بہت سے شکوے ہیں یہ شکوے پاکستانیوں کے گلگت کے بارے میں معلومات کی کمی سے شروع ہوکر گورنمنٹ کی لاپرواہیوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لوگ گلگت بلتستان کی تاریخ کو نہیں جانتے انھیں یہاں کے کلچر، رسومات اور خاص کر یہاں کے لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ ان کو پٹھانوں سے ملادیا جاتا ہے حالانکہ یہاں کے لوگوں کو تو پشتو آتی بھی نہیں ،یہاں کی مقامی زبان شینا، بلتی، برششکی دوماکی ، گجاری، خوار، لداخی، لداخی بلتی، پرگی، وخی ہیں
ان کا اپنا خاص کلچر ہے اپنی تہذیب اور رسومات ہیں اور ایک طلسماتی تاریخ بھی۔ اس کے باوجود یہ جگہ اپنے اندر مختلف تہذیبوں کے لوگوں کو سموئے ہوئے ہے پٹھان، چینی، کرغیز، کوہستانی، بلتی، لداخی، تبتی اور جانے کتنی اور رنگوں نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔

کبھی اس خطے کو خیبر پختونخواہ سے ملادیا جاتا ہے اور کبھی تحریک آزادی ء  کشمیر والے اس الگ ریاست کو اپنی تحریک میں شامل کرنے لگتے ہیں اور جیسا کہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ ان کے علاقے کو اس کی اصل پہچان سے نوازا جائے اس کی اپنی خاص پہچان کو مقامی لوگوں کی خواہشات کے مطابق قبول کیا جانا چاہیے ۔
آزاد کشمیر کی طرح اسے بھی ایک آزاد ریاست تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ متنازعہ علاقہ ہونے کے باعث اسے الگ صوبہ بنانا شاید ممکن نہیں مگر اس کی الگ پہچان کو مستحکم بنایا جائے۔باقی ساری حقیقتیں اپنی جگہ ،مجھے تو اس جگہ کی خوبصورتی، تنہائی اور خاموشی مسمرائز کرنے لگتی ہے۔ ایک دوست نے اپنے گھر کی تصویریں بھیجیں تو گھر کے پیچھے سرمئی پہاڑ ایسے لگ رہا تھا جیسے گھر کی دیوار ہو۔ اور گھر کا خوبصورت سبزہ  کسی ریسٹ ہاؤس کا منظر پیش کررہا تھا۔

لینڈ سلائیڈنگ سے اکثر یہاں کے راستے بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار زندگی میں بھی حرج ہوتا ہے اور ہنزہ داستاں پڑھتے ہوئے میں یہ سوچتی ہی رہ گئی کہ جنت نظیر وادئ ہنزہ میں  کیسے پہنچوں گی اگر راستے واقعی اتنے خطرناک اور ڈراؤنے ہیں مگر پھر جنگلوٹ سے نظر آنے والی نانگا پربت، وادئ سائی اور اس سے سولہ ہزار میٹر اوپر سارا سال تیز اور برفیلی ہواؤں والا علاقہ، کے ٹو یا شاہ گوری، دوبانے ، راکاپوشی، ہمالیہ اور ان میں شان سے کھڑی نانگا پربت کیسے دیکھ سکوں گی۔ یہ سارے پہاڑی سلسلے اس جگہ کا حسن ہیں جس کی تاریخ اور تہذیب کا فراموش ہوجانا وہاں کے مقامی لوگوں کیلئے تکلیف کا باعث ہے کہ ان پہاڑوں کے بیچوں بیچ بسنے والے مہمان نواز لوگ ہماری توجہ اور محبت کےطلبگار ہیں۔
تتا پانی کے بھربھرے پہاڑوں میں سے اتنا گرم پانی پھوٹتا ہے کہ اس میں سے بھاپ نکلتی ہے ۔جنگلوٹ کے مقام پر شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ گہرائی میں چلتا ہوا دریائے سندھ سکردو بلتستان کی طرف مڑنے لگتا ہے ۔ ترابزان بحیرہ اسود کے کنارے ایک قدیم قصبہ ہے جہاں یونانی دیومالائی داستانوں کا ہیرو جیسن اپنی بادبانی کشتی آرگو میں سوار آیا تھا مارکوپولو نے بھی چین جانے کیلئے اپنے سفر کا آغاز یہیں سے کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنی خوبصورت داستاں کو لکھتے چلے جانے کو جی چاہ رہا ہے مگر کالم میں جگہ کی کمی کی وجہ سے آج شاید اس جگہ کے حسن اور یہاں کی روایات کو پوری طرح نہ لکھ سکوں۔
گلگت ایک جزیرہ ہے جو سخت، سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان مکمل خاموشی سے بہہ رہا ہے پہاڑ اتنے قریب ہیں کہ گھروں ، بازاروں کی دیواروں کی مانند لگتے ہیں یہاں کے کھیت، کھلیان اور بازار انہی پہاڑوں کے درمیان میں قید۔شاید اس جگہ کی تنہائی میں ایک خوف بھی ہے کہ پہاڑ اسے ساری دنیا سے الگ کردیتے ہیں نانگا پربت پہ چھائے ہوئے بادل ہوائی جہاز کی پرواز کو مشکل کر دیتے ہیں
گلگت اور ہنزہ سے گزرتی ہوئی شاہراہ کے آس پاس بدھ ثقافت کے آثار بھی باقی ہیں ڈھائی سو قبل ازمسیح میں بدھ مت ان قبیلوں میں پھیلایا اور قبول کیا گیا۔ اس خطے کا حسن، تنہائی اور پہاڑی سلسلے ذہن پہ اتنے حاوی ہیں کہ میں اس کی تاریخ میں بھٹکنے لگ جاتی ہوں۔
اس علاقے نے بہت سے دوسرے علاقے کے لوگوں کو اپنے اندر بسالیا، آباد کیا۔سیم تھور والی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے کیلئے جب کشمیر سے لوگ یہاں آکر بسے تو پھر وہ بھی یہیں کےہوکر رہ گئے ان کا اپنا علاقہ ہے کشروٹ۔ جن کے دل اند سے کشمیری ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ خوبصورت پہاڑی سلسلوں کی اس سرزمین کو کشمیر سے ملادیا جائے جبکہ کشمیر کی طرح یہاں کے لوگ بھی اپنی اصل پہچان ، اپنی تہذیب کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں
حکومت کو یہاں کے لوگوں کے جذبات اور خواہشات کے مطابق اس خطے کی انفرادیت کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نئے زیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں وہ گلگت بلتستان کا نام لینا بھول گئے جو یہاں کےلوگوں کے لئے دل آزاری کا باعث بنا ۔ہمیں اپنی رواداری، محبت اور ان کے ساتھ حقوق کی مساوی تقسیم سے یقین دلانا ہوگا کہ وہ بھی ہماری ہی ذات کا حصہ ہیں جو شاید فراموش ہوتے چلے جارہے ہیں

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply