ریلی کا بے کیف نقطہ آغاز اور خدشات

ریلی کا بے کیف نقطہ آغاز اور خدشات
طاہر یاسین طاہر
سیاست دان کو مقبولیت اور زاہد کو تقویٰ کا بڑا زعم ہوتا ہے۔لالچ کسی بھی نوع کا ہو، انسان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔عہدے اور بادشاہت کا لالچ تو بالکل بھی چین نہیں دیتا۔عہدے اور حکمرانی کے لیے انسان اپنے ہی والدین، اولاد، بھائیوں اورخونی رشتوں کو اپنے لالچ کی راہ کی سیڑھیاں بنا لیتا ہے۔انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔وہ شخص جو اپنے آپ کو معصوم عن الخطا سمجھنا شروع کر دے اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ انسان گناہ گارہے۔تکبر اسے زیبا نہیں۔اکثر سیاستدان مگر تکبر کے سہارے زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں اور نہیں جانتے کہ دائمی عزت و اقتدار صرف اللہ رب العزت ہی کے لیے ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے والے نواز شریف اسلام آباد سے لاہور کی جانب گامزن ہیں اور ان کا قافلہ مری روڈ راولپنڈی پر محو خرام ہے۔ پنجاب ہائوس اسلام آباد سے بدھ کی صبح نو بجے روانگی کا وقت دیا گیا تھا جو بعد میں دس بجے اور آخر کار گیارہ چالیس تک لٹک گیا۔نواز شریف کی ریلی کے پیش نظر راولپنڈی کے متعدد روٹس کو سیل کردیا گیا ، جبکہ ہوٹل، شاپنگ مالز اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے، پولیس کے مطابق8 سے9 ہزار کے قریب لوگ جبکہ 700 سے 800 حکومتی اور نجی گاڑیاں قافلے میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس کے عقبی دروازے سے صبح 11 بجے کے بعد روانہ ہوئے تھے، جس پر مرکزی دروازے پر انہیں رخصت کرنے کے لیے آنے والے کارکنوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔پنجاب ہاؤس سے روانہ ہونے سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پنجاب کی جان اور پاکستان کی شان ہیں، انہوں نے پنجاب کو دیگر صوبوں کے لیے رول ماڈل بنایاہے۔
سابق وزیر اعظم جو نا اہل ہو چکے ہیں نے کہا کہ ،یہ پاور شو نہیں بلکہ مجھے اپنی سنچری مکمل کرنی ہے، میں کہیں نہیں جارہا۔نواز شریف کے گاڑی میں سوار ہونے سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کو گلے لگا کر الوداع کہا۔اس سے قبل پنجاب ہاؤس میں پاکستان مسلم لیگ نون کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں لیگی قیادت نے ریلی کے روٹ کے حوالے سے مشاورت کی۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لیگی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ریلی کے شرکاء کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے تمام انتظامات کیے گئے ہیں۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ،سیاستدان عوام سے دور نہیں رہ سکتے، عوام ہر اسٹاپ پر نواز شریف کو روک کر ان کا خیر مقدم کررہے ہیں، میرے خیال میں قافلہ 2 سے 3 دن میں لاہور پہنچ جائے گا۔دوسری جانب وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے راولپنڈی کے کمیٹی چوک کا دورہ کیا اور سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔کمیٹی چوک پر عوام کی کم تعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے نواز شریف کا قافلہ نزدیک آئے گا عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوگا۔
یہ بھی یاد رہے کہ حکمران جماعت وفاق اور پنجاب سمیت، گلگت و آزاد کشمیر کے تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود اپنے پاور شو کا نقطہ آغاز پر کیف نہیں کر سکی۔اس ریلی کے لیے جس طرح کے حکومتی سطح پر انتظامات کیے گئے تھے، پنجاب ہائوس اسلام آباد میں جب نا اہل ہونے والے وزیر اعظم نکلنے لگے تھے تو اس وقت کم از کم پچاس مسلم لیگی کارکن موجود ہوتے۔ایسا کیوں نہ ہو سکا؟اور پھر پنجاب ہائوس اسلام آباد سے فیض آباد تک یہ قافلہ جس طرح رک رک کر چلا اور کم وبیش 5 گھنٹوں میں پہنچا ،اپنی جگہ یہ اور بھی حیرت افروز بات ہے۔ریلی جو اسلام آباد سے لاہور کی طرف چل رہی ہے، صبح تاخیر سے روانہ ہوئی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس قدر تعداد ہی موجود نہ تھی جسے کیمروں کے سامنے” جم غفیر “کہا جا سکے۔ اگرچہ اب بھی زعیم قادری صاحب کہتے ہیں کہ ہماری توقعات سے دس گنا زیادہ لوگ اور گاڑیاں موجود ہیں۔عین ممکن ہے جوں جوں قافلہ آگے بڑھے اس کارواں میں لوگ شامل ہوتے جائیں۔ لیکن نقطہ آغاز میں جو دیکھنے کو آیا اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نون لیگ، بالخصوص شریف خاندان اب سٹیک ہولڈرز سے کسی بارگیننگ پوزیشن میں نہیں ہے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں سابق وزیر اعظم جو کہ نا اہل ہو چکے ہیں، ان کی ریلی کو روانہ ہوئے 9 گھنٹے سے زائد کا وقت گذر چکا ہے مگر ابھی تک وہ پنڈی یا اسلام آباد کے کسی ایک نکڑ،کسی ایک موڑ پہ بھی اپنے کارکنوں سے خطاب نہیں کر سکے۔اس کی وجوھات اگرچہ سیکیورٹی ہی بتائی جا رہی ہیں۔ مگر تجزیہ کار اس بات پہ بھی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اپنی مقبولیت کے زعم میں نکلنے والے میاں نواز شریف کس منہ سے 8 سے 9 ہزار افراد،جن میں کہ سرکاری ملازمین بھی ہیں، سے خطاب کریں۔یہ قافلہ اگر سرعت کے ساتھ موٹر وے کے راستےچلا جاتا تو مقبولیت کا بھرم بھی رہ جاتا ہے،اور کہنے کو یہ جملے باقی رہتے کہ،ہم ابھی بھی مقبول ہیں۔لیکن احتجاجی ریلی،جو عدلیہ کے فیصلے اور بوجہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی اس کا نقطہ آغاز نون لیگ کے گمان سے انتہائی کم رہا ۔ممکنہ طور پر نون لیگ قافلے کی رفتار کو نہایت سست رکھے گی تا کہ زیادہ سے زیادہ دن لگا کر لاہور پہنچا جائے اور یہ پروپیگنڈا کیا جا سکے کہ لاکھوں کارکنوں کے ہمراہ چلنا والا قافلہ اس سے کم مدت میں پہنچ ہی نہیں سکتا تھا ۔کیمرے کی آنکھ مگر جھوٹ نہیں بولتی۔ہاں ایک بار پھر سارےسرکاری وسائل استعمال میں لاتے ہوئے بندے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے گی تا کہ گوجرانولہ کے قریب قریب ریلی کا کوئی منہ سر بن جائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply