ڈارک ویب ورلڈ۔۔دوسرا اور آخری حصہ

السلام علیکم
ڈارک سائٹس کے معاملے پر میری تحریر کو سوشل میڈیا پر جتنی پذیرائی ملی اس پر آپ سب کی محبت کا شکر گزار ہوں۔۔وہاں چند احباب نے تنقید بھی کی کہ یہ کیوں بتا رہے ہو۔برائی کے چھپے رہنے میں ہی خیر ہے ۔۔ان احباب سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ میرا مقصد آپ لوگوں کو وہاں تک لے جانا نہیں۔۔کیوں کہ وہاں تک عام یوزر پہنچ بھی نہیں سکتا۔۔۔وہ جرائم کی ایک دنیا ہے۔۔میں بھی وہاں علم یا ریسرچ کی تلاش میں جاتا ہوں ورنہ میرے پاس بٹ کوئنز نہیں ہیں جس سے شبہ ہو کہ میں وہاں خریداری کرتا ہوں۔۔وہاں سے جو بھی علم ، خبر یا نالج ملے وہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔چلیں چند مزید حقائق دکھاتا ہوں۔۔

ڈارک ورلٖڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو” ریڈ رومز “کہا جاتا ہے۔وہاں تک رسائی تقریبا ًناممکن ہے۔۔ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں۔۔۔وہاں تک رسائی بنا پیسوں کے نہیں ہوتی۔۔ان سائٹس پر جانور یا انسانوں پر لائیو تشدد کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں۔۔آپ بٹ کوئن کی شکل میں پیسے ادا کر کے فرمائش کر سکتے ہیں کہ اس جانور یا انسان کا فلاں اعضا نکال دو۔۔حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہیں۔آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر بھی جیل جانا پڑے گا۔

ایسی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یورپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں۔۔عام شخص کا قتل بیس ہزار یورو۔۔صحافی کا قتل ستر ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کا کلیم ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتے ہیں۔”پنک متھ” ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ 2014 میں ٹریس کر کے بین کر دی گئی۔۔وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر بیچتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام ، ہوم ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی۔۔۔اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی۔۔ایف بی آئی نے 2014 میں اس کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور اس کا سرور ٹریس کر کے بند کر دیا،مالکان آج تک فرار ہیں۔(ویب سائٹ چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی ا س لیے نام بتا دیا)۔

ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام”سیڈ ستان(شیطان ) ہے۔۔اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ڈارک ویب ورلڈ کو کہا جاتا ہے۔۔یہاں خواتین کو بیچنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔۔”جوزف کاکس “جو کہ ایک ریسرچرہیں وہ 2015 میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔۔ایسے میں اسی ورلڈ میں ان کا ایک گروپ سے ٹکراؤ ہوا جس کا نام”بلیک ڈیتھ “تھا اور انہوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی آفر کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز مانگ رہا تھا۔

“کینی بال” یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔۔جیسا پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے”کیا کوئی میری ران کا آدھا پاؤنڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں۔۔۔اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی۔”جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس (جہاز کا ایک آلہ) تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل سے بنا ہوتا ہے جو تباہ نہیں ہوتا۔۔۔اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے۔۔اس سے پتا چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہو اتھا ۔۔ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں۔۔وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ فروخت کرتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں۔لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناؤنی دنیا ہے جس کے بارے میں بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔۔اور آخر میں بتانا چاہوں گا لازمی نہیں کہ وہاں ہر چیز بہت بری ہی ہے۔کچھ چیزیں ہلکی سی بری بھی ہیں۔وہاں پر آپ بہت سی اشیاء سستی خرید سکتے ہیں، آئی فون ،میک بکس، لیپ ٹاپ، گولڈ اینڈ ڈائمنڈ جیولری اور انتہائی سستی قیمت پر۔ جیسا کہ ایپل کی نئی میک برو ود ٹچ بار پندرہ انچ ماڈل جو کہ ابھی ستائیس سو ڈالرز کی ہے۔۔مجھے اپنے ستائیس سو ڈالرز پے کرنے کا دکھ ہوا جب میں نے ایک ڈارک مارکیٹ پر دیکھا ایک شخص نئی سیلڈ پیک میک بک ہزار ڈالرز میں بیچ رہا تھا لیکن پے منٹ بٹ کوئنز میں مانگ رہا تھا۔۔اینڈ آف کورس وہ چوری کی تھی!

Facebook Comments

وقار عظیم
میری عمر اکتیس سال ہے، میں ویلا انجینئیر اور مردم بیزار شوقیہ لکھاری ہوں۔۔ویسے انجینیئر جب لکھ ہی دیا تھا تو ویلا لکھنا شاید ضروری نہ تھا۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply