سیاست دیں سے خالی ہو تو ۔۔۔

ملک پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہے ۔ 27رمضان المبارک کو حاصل ہونے والا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تاکہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے جتنی قربانیاں دی گئیں اور جتنی بڑی ہجرت کی گئی اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اپنی جائیدادیں ، گھر بار چھوڑ کے ، اتنا بڑا سیلاب پاکستان کی طرف امڈا چلا آیا جیسے سب کو ان کے خواب کی تعبیر مل گئی ہو۔ سب جانتے تھے کہ اس ملک کو حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے ۔ وہ تاریخی الفاظ تو آپ کو یاد ہوں گے ’’ ہم یہ ملک صرف زمین کے ٹکڑے کو حاصل کرنے کے لیے نہیں بنا رہے ، بلکہ ہم ایک تجربہ گاہ چاہتے ہیں جس میں ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ ‘‘
کبھی پاکستان کا آئین دیکھیں تو اس میں یہ بات لکھی ہوئی بھی آپ کو مل سکتی ہے کہ اس ملک میں چلنے والا سارا نظام قرآن و حدیث کے مطابق ہو گا۔ وطن عزیز تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کی قربانیاں دیکھ کر ہمیں عطا کر دیا لیکن جو ہم نے اسلامی نعرہ لگایا تھا وہ کہیں ہم ماضی میں ہی چھوڑ آئے ہیں ۔ پھر حالات ملک کے کسی سے چھپے ہوئے تو ہیں نہیں ۔ جیسے ہی ملک ہم کو ملا ہم نے اپنی من مانی شروع کر دی اور کچھ اقتدار کے بھوکے لوگ بھی آن ٹپکے ۔ جنھوں نے نہ کبھی بزرگوں کی تاریخ پڑھی اور نہ کبھی کسی سے سنی ۔ کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ اگر اسلام کو سیاست میں رکھیں تو سیاست ہو ہی نہیں سکتی ۔ کئی روشن خیال کہیں سے آن پڑے ۔ ان کے نزدیک تو اسلام ترقی ہی نہیں کرنے دیتا ۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسلام کے مطابق چلے تو ہمارا تو دنیا میں نام ہی نہیں رہے گا ۔ سب سے بڑی بات جو اس ملک کے لیے عذاب بنی وہ یہ تھی کہ سیاست میں تو وہ جائے جو لڑ سکتا ہو، منافقت کر سکتا ہو اور جو دھوکہ دینے میں ماہر ہو۔ اسی سبب ملک کو آج تک اچھی قیادت نصیب نہیں ہو سکی ۔ ہم نے جب سیاست کو دین سے الگ کیا تو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑے مختصر ملاحظہ فرمائیں ۔
سب سے پہلے ہم کشمیر کے ایسے مسئلے میں پھنسے کہ جس میں ابھی تک بھی اٹکے ہوئے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی آزمائش تھی ۔ کشمیر کی سب سے خاص بات یہ کہ ہمارے سارے دریا کشمیر ہی سے نکلتے ہیں جن پہ بھارت بند باندھ چکا ہے ۔ اب ہمیں آئے روز پانی کی کمی کا مسئلہ رہتا ہے ۔ میرے نزدیک اگر ہم اسلام کے قوانین کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالتے تو یہ مسئلہ اب تک مسئلہ نہ ہوتا ۔ دوسری جو سب سے بڑی آزمائش ہم پہ آن پڑی وہ مشرقی پاکستان کا الگ ہو جانا ہے ۔
ہمارے اقتدار کے حاصل کرنے کے طور طریقے اگر اسلام کے مطابق ہوتے تو دشمنوں کو سازشیں کرنے کا موقع نہ ملتا اور پاکستان دو لخت نہ ہوتا ۔ اب بنگلہ دیش میں ہی دیکھ لیجیے آج تک ان راہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں جن کے دل میں تھوڑی سی بھی پاکستان کی محبت کی رمق باقی ہے ۔ تو یہ آزمائش نہیں تو اور کیا ہے ۔ ہمارا بنگال ، وہ بنگال جہاں کے رہنے والے باشندے نے قرار داد پیش کی تھی وہ ہم سے چھن گیا ۔ وہ دشمنوں کے منہ سے نکلے الفاظ کہ دو قومی نظریے کو آج غرق کر دیا گیا ہے مجھ پہ تیغ بے نیام بن کے برستے ہیں ۔ یہ سب کیوں کر ہوا ؟کیوں کہ ہم نے اسلام کا نعرہ تو لگایا لیکن اسلام کو سیاست سے نکال باہر کیا۔
عشق کی تیغ جگر دار اُڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
تیسری آزمائش یہ تھی کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہوگئے ۔ ہمارے گلی محلے روز دھماکوں سے گونج اٹھے۔ ہزاروں معصوم ان دھماکوں کا شکار ہوئے۔ یہ ایسی آزمائش تھی کہ مرنے والا بھی لا الہ الا اللہ کہہ رہا تھا اور مارنے والا بھی محمد رسو ل اللہ کا اپنے آپ کا قائل سمجھ رہا تھا ۔ اس آزمائش کو ہم نے تھوڑا اسلامی انداز سے حل کرنے کی کوشش کی جس کو ہماری فوج نے ضرب عضب کا نام دیا۔ اس ضرب عضب کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا اور ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا ۔ اب جو چھپے بیٹھے ہیں ان کی کون پشت پناہی کر رہا ہے وہ ہم سب اچھی طرح جانتےہیں ، لیکن ہمارے حکمران انھیں موسٹ فیورٹ نیشن قرار دیتے نظر آتے ہیں ۔
چوتھا سب سے بڑا مسئلہ جس کا ہمارے کراچی کو سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا وہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ تھی ۔ اگر ہم اسلام کو سیاست میں شامل رہنے دیتے تو ملک دشمن اور اسلام دشمن کبھی سیاست میں نہ آتے اور نہ وہ حرام خور جو ملک کو گالیاں نکالتے ہیں اور لندن براجمان ہیں۔ بہر حال رینجرز نے کافی حد تک اس پہ کنٹرول کیا۔
اسلام کو ہم نے محدود کر رکھا ہے ۔وزارت برائے مذہبی امور میں ۔ اللہ کے بندو تمہارا ہر قانون اس اسلام کے تحت چلنا تھا اور تم نے تو اسلام کو اپنے مطابق ڈھال لیا ۔ ہونا تو یہ تھا کہ تیری ہر وزارت اسلام کے تحت ہوتی ۔ کاش ہم پڑھتے کہ مدینے والے ﷺ نے مدینے کا دفاع کیسے کیا ۔ کاش ہم یہ بھی جان لیتے کہ مدینے کے دوسری ریاستوں کے ساتھ معاہدات کیسے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو قیامت تک کے لوگوں کے لیے رسول بنایا ہے تویہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام نے قیامت تک آنے والے حالات کا احاطہ نہ کیا ہو۔ اگر ہمارے قانون ،اسلام کے تحت ہوتے تو آج ہم نہ پانامہ میں پھنستے اور نہ دھرنوں میں ۔ ہر طرف سکون ہوتا اگر اسلام اور سیاست ہم آہنگ ہوتے ۔
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply