پانی کی تلاش۔۔خطیب احمد

بیت جانے والا ہر پَل ،ہر لمحہ میرے  ذہن پر نقش ہوجاتا ہے ۔۔پیر کا دن تھا بادل چھاۓ ہوۓ  تھے،سورج کبھی بادلوں میں چھپ جاتا کبھی  پوری آب تو تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا، بارش کی بوندیں زمین پر گرنے کی وجہ سے  ایک دلکش ساز بجا رہی تھیں ،مدھم مدھم۔۔۔زمین سے اک مہک اٹھ رہی تھی جو دل و دماغ کو تسکین بخشتی ہے، ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین پر کسی نے زمرد بکھیر  دیے  ہوں ۔

ہم تمام دوستوں نے سوچا کیوں نہ اس موسم کا لطف اٹھانے کے لیے  کچوریاں  لے  آتے ہیں اور سب ایک ساتھ نوش کریں گے تو مزہ دوبالا ہوجاۓ گا، میں اور میرا ایک دوست کچوریاں لینے بازار کی طرف نکل پڑے ،آہستہ آہستہ چہل قدمی کرتے ہوۓ ہم دکان پر پہنچے! چاچا سے کہا کہ 20 کچوریاں دے دیں، چاچا کچوریاں بنانے میں لگے ہم انتظار کر رہے تھے۔

تیل میں ڈوبی کچوریاں اور اس سے  اٹھنے والی خوشبو سے جی للچانے لگا۔۔ میرے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی، سوچا کہ   بوتل بھر لوں، پیاس محسوس ہوگی، تو  پی لیں گے ۔۔دکان کے بائیں جانب ایک چاۓ کا ہوٹل تھا ، میں وہاں موجود پانی کے جگ سے پانی بھرنے والا ہی تھا کہ خان صاحب نےآواز دی۔۔   پانی نہ بھرو!

میں نےکہا بس ایک بوتل ہی ہے تو انہوں نے جب بھی منع کر دیا، میں نے برابر میں ہوٹل سے متصل ایک دکان  پر موجود انکل سے پوچھا  ،پانی ہوگا پینے کا ؟۔۔انہوں نے کہا آگے سے بھر لو میں، آگے جاکے کُولر سے بھرنے لگا تو وہاں کام کرنے والے لڑکے نے کہا یہاں سے نہیں وہ نَل سے بھر لو، میں نے وہاں سے بوتل میں پانی بھر لیا۔۔ پانی تو بظاہر صاف شفاف لگ رہا تھا ،پھر میں کچوریاں لینے چاچا کے پاس پہنچا۔ پیسے  دیے اور گھر کو  چل پڑے۔

میں نے  اپنے  دوست کو    پانی کی بوتل دی، جسے دیکھ کر وہ کہنے لگا  کہ  اس میں تو کچرا ہے، ۔۔خیر ہم نے وہ پانی نالی میں گرا دیا۔

اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ  بھئی میں نے کون سی کسی دکاندار سے  جائیداد طلب کرلی تھی،ایک صرف پینے کا پانی ہی تو مانگا تھا۔۔۔وہ بھی ایسا۔۔۔؟

معاشرتی بے حسی کا اندازہ لگائیے ۔۔ خلوص ومحبت معاشرے میں ناپید ہوچکی ہے، نہ جانے ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں ،سیدھی بات کرو تو بدتمیز، خوش اخلاقی سےپیش آؤ تو ڈپلومیٹ اور اگر کسی سے اختلاف کرو تو بے ادب اور اگر لحاظ کرو تو منافق !

کتنا بدل گیا ہے انسان۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کی وجہ سے   ایک دوسرے کو پانی دینے سے اجتناب کرنے لگے ہیں، دراصل صفائی، غذا  کا سارا نظام ،پانی ہی سے وابستہ ہے، روز مرہ کی زندگی میں سارے کام کا دارومدار پانی پر ہے۔ پانی کی اسی ناگزیر یت کے سبب ہر دور میں پانی کے لیے  تنازعات  ہوتے  رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماہرین کے مطابق پانی کے لئے تنازعات کی تاریخ پانچ ہزار سال  پرانی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف آبی ذرائع کے حوالے سے عالمی تنازعات   ہیں  ،بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کی بڑی جنگیں پانی کے لیے ہوں گی۔ایک طرف انسانی آبادی کے لیے پانی ناگزیر ہے تو دوسری جانب اس وقت عالمی سطح پر دنیا قلتِ آب کا شکار ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت عالمی آبادی کے  گیارہ فیصد یعنی 783 ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کے دو بلین افراد صاف پانی سے محروم ہیں ۔ قلتِ آب سے دوچار ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پانی کی قلت سے ملک کے سارے طبقات پریشان ہیں۔ بلوچستان کے تقریباً  تمام اضلاع میں قلتِ آب کا  سامنا   ہے، نیز سندھ  کے  بہت  سے علاقوں سے لوگ احتیاطی طورپر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ بالخصوص’’ تھر‘‘ جو ایک  صحرائی علاقہ ہے ۔ کراچی کے بہت سے علاقوں  میں پانی کی شدید کمی ہے ،بڑے بڑے پوش علاقوں میں پانی ٹینکر کے ذریعہ سپلائی کیا  جارہا  ہے ۔ قلتِ آب کی اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے  لیے  فوری  اقدامات  کی  اشد  ضرورت  ہے،تاکہ دنیا کو  مزید تباہی سے بچایا جاسکے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پانی کی تلاش۔۔خطیب احمد

Leave a Reply