پاکستان میں تعلیم کا نظام اور اسکے اثرات

گذشتہ چند دن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پرچہ سکینڈل کے حوالے سے بہت گرما گرم مباحثے ہوے ان سب کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ اس سلسلہ میں کچھ میرے پاس بھی کہنے کو موجود ہے، لہٰذا وہی آپ کے سامنے پیش ہے ـ دوستو مملکت خداداد پاکستان میں تعلیم کا نظام حکومت برطانیہ نے ہمیشہ ہی اپنے کنٹرول میں رکھا ہے، بڑی حکمت کے ساتھ تاج برطانیہ نے پاکستان میں پاکستانی مسلمانوں کوکوئی باقاعدہ اور یکساں تعلیمی نظام قائم کرنے سے روکےرکھا،اور اس کام کے لئے ہر طرح کا اثر ورسوخ اور دولت صرف کی، جہاں جو فرد جتنااور جیسے استعمال ہو سکتا تھا اسے استعمال کیا، دینی طبقات کو مدارس کی لائن تک محدود رکھنے کے لئے خود مدارس کی حوصلہ افزائی بھی کی، اور پاکستان کے ہربڑے شہر میں ایک مشنری سکول بھی قائم کروایا،جسکا مکمل نظام کسی عیسائی پاپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور بہت محنت سے مالدار طبقات میں یہ فیشن پھیلایا گیا کہ اپنے بچوں کو تعلیم مشنری سکول سے دلوائی جائے، اور سارے محدود سے سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز میں اپنے لوگ انچارج بنوائے، جن کی ذمہ داری صرف یہ ہوتی تھی کہ لوگوں کو تھوڑا تھوڑا دین کی پابندیوں سے نکلنے کی عادت ڈالی جائے، اسکے لئے مخلوط مشاعروں کا بندوبست کیاجاتا،موسیقی کی محفلیں، اور ایسے ہی دیگرلذت آمیز پروگرام رکھے جاتےـ
پہلے پہل کوئی گورا سرکار خود ان میں شامل ہوتا اور اسے سپانسر بھی کرتا اور بعد میں انکے تربیت یافتہ اور قابل اعتماد سرمایہ دار وڈیرے یہ کام کرتے رہے، ہمارے سادہ لوح دانشور اور اہل تعلیم اسکو گورا سرکار کی علم و ادب دوستی سمجھ کے اسکی راہ پہ گامزن ہوتے رہے ـ پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب ایسے بہت سارے فرد تیار ہو گئے،جو دین کو محض ایک انفرادی عبادت سمجھنے اور بنیادی دینی معاملات کے علاوہ باقی ہرکام میں اپنی من مرضی کرنے والے تھے تو پھر پاکستان میں انکی سربراہی میں مختلف تعلیمی نظام متعارف کروائے گئےـ افواج کے لئے خود سے اپنے تعلیمی نظام بنوا دئیے گئے،خواص کے لئے الگ سے،اور عوام کے لئے الگ سے نظام و نصاب بنائے گئے ـ وقت گزرتا گیا مگر برطانیہ کی پاکستان کے تعلیمی نظاموں میں دلچسپی بلکہ یوں کہیں کہ کنٹرول کم نہ ہوا بلکہ بڑھتا ہی چلا گیااور پاکستان میں بننے والے سارے تعلیمی نظاموں اور نصابوں میں برطانیہ کی دخل اندازی لازمی رہی ـ جنرل ضیا کے آخری دور میں اس سلسلہ میں تھوڑا تعطل بھی ہوا کہ جنرل صاحب کی اس معاملہ میں خود دلچسپی پیدا ہوگئی اور وہ تعلیمی نصاب بدلنے لگے مگر انکو اتنا وقت نہ دیا گیا کہ زیادہ اثر انداز ہو سکتے ۔
اگر آج علامہ اقبال یونیورسٹی والے میٹرک کے طلبہ سے انکی باجیوں اور ایف اے کی لڑکیوں سے انکی سہیلیوں کی جسمانی ساخت کی تفصیلات مانگ رہے ہیں تو یہ کچھ زیادہ عجیب نہیں ہے، بلکہ یہ تو انکا ریگولر جنرل ٹیسٹ تھا اپنے اس مشن کے اثرات جانچنے کے لئے جس پہ ایک مدت سے مغرب محنت کر رہا ہے، اور یقیناً انکو کافی خوشی بھی ہوئی ہوگی کہ اسکا نتیجہ اگر چہ سو فیصد نہ سہی مگر ضرور اچھا مل رہا ہےـ ہمارے بہت سے نام نہاد دانشور بھائی انکے اس اقدام کے درست ہونے کی تاویلین خود سے گھڑ گھڑ کے پیش کر رہے ہیں، نہ صرف یہی بلکہ اپنے اصلی اور حق اسلامی اقدار کو، مشرقیت کو، عزت و غیرت کو، برملا دقیانوسی اور پرانی سوچ بھی فخر سے کہہ رہے ہیں ـ کبھی سنا کرتے تھے کہ کعبہ کو پاسباں مل گئے صنم خانوں سے، تو آج طاغوت کو پاسباں مل گئے ہیں مسلمانوں سے ـ
اللہ ہم پہ اپنا خصوصی رحم نازل فرمائے اور ہمیں نماز،روزہ کی طرح زندگی کے ہر معاملہ میں ہی اللہ کو اپنا رب اور مالک بنائے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے…. آمین
ایڈیٹر نوٹ: مضمون میں حکومتوں،حکومتی اداروں،تعلیمی نصاب کی سنگین تبدیلیوں اور شخصیات پر عائد کیے گئے الزامات عدم ثبوت/حوالہ جات کی بنا پر حذف کر دیے گئے ہیں(ادارہ)

Facebook Comments

مبارک حسین انجم
لاہور میں سکونت ہے، ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہوں، باقی میری تحریریں ہی میرا حقیقی تعارف ہیں-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply