یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکولوں میں ملیشیا یونیفارم ہوتا تھا۔بال بھی کالے، جوتے اور کپڑے بھی۔ تپتی دوپہروں میں سکول سے واپسی پرجسم کی ہر وہ چیزتوے کی طرح تپنے لگتی جوکالی ہوتی۔ تالو، ڈبی دار یاسرعرفاتی رومال میں لپٹاہوتا لیکن بندہوجانے والےبھٹہ خشت کی طرح گھنٹوں تپتا رہتا۔ پاؤں بوٹوں کےاندرمونگ پھلی کی طرح گرم ہورہتے۔گھرپہنچتے تواتنےضعیف ہوتے جیسے افطاری سےقبل روزہ دار۔ اماں کےپاس ساری تکلیفوں کاایک ہی تریاق تھا،مہندی۔ تب عام گھروں میں پلنگ کی جگہ منجے ہوتےتھے۔ اماں رات کوادوائن سے اوڑھنی ہٹاکرپیروں پراُتنی مہندی چڑھا دیتی جتنی چاچے جانے کے پیروں پرمٹی لگی ہوتی، جسے وہ کچی دیواریں لیپنے کے لئے پیروں سےگوندھتا تھا۔مہندی راتوں رات خشک سالی کا شکار زمین کی طرح پھٹ جاتی۔ اگلی صبح پاؤں تربوزکی طرح سوئے لال ملتے۔کسی روزیونہی سربھی لال ہو جاتا۔
اماں کاعلم خاصا الہامی تھا، ہمیشہ اکسیر ثابت ہوتا۔ بلکہ کئی بار شادیوں، شودیوں پر اماں ہاتھ پر مہندی لگاتی تو ہم سمجھتے اماں کو لوُ لگ گئی ہے۔ اماںسکھی پھول (دلہن کےسرکا زیور) کی طرح ہتھیلی کے بیچ بڑا سا دائرہ بناتی اور اطراف میں بانسی جھاڑو کی تِیلی سے چھوٹے چھوٹے ٹمکنے بناتی۔ انگلیوں کےناخن والے پور پربھی مہندی سجاتی۔ اخروٹ کی چھال چار پانچ منٹ چبا کر داتن کرتی۔ یوں ہونٹ نارنجی شیڈ دینے لگتے۔لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔
لڑکی:میری سالگرہ کا تحفہ لائے ہو۔؟
لڑکا:وہ سامنے کھڑی سرخ رنگ کی گاڑی دیکھ رہی ہو ۔؟
لڑکی: واہ ۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا۔
لڑکا:اُس رنگ کی نیل پالش لایا ہوں۔
اس نگوڑی سالگرہ نے نیل پالش اتنی مشہور کردی ہے کہ لڑکے سال میں دس بارہ ہدیہ کر ہی دیتے ہیں۔ہم اس عہد میں زندہ ہیں جہاں خواتین ناخن نہیں بال کٹواتی ہیں۔ مہندی، اب دلیر مہندی کی طرح مقبول نہیں رہی۔ نیل پالش میکا سنگھ جیسی نکلی۔ جومرضی کرو۔ فرینچ مینی کیور، نیل آرٹ، تھری ڈی، میگنیٹک ،ویلوٹ آرٹ وغیرہ۔ بیوٹی سیلون پر اب منہ سے زیادہ ٹائم ناخن پر لگنے لگا ہے۔نیل آرٹ کے بعدخواتین کی باڈی لینگوئج بدل رہی ہے۔ پارٹیوں میں ’’حُسن دی کلاشنکوف‘‘ بن کرآنےوالی ماڈلز ’’عدوالمبین‘‘ بن گئی ہیں۔جنہیں نیل آرٹ کیل کی طرح چبھنے لگا ہے۔کیل،لڑائی کےلئے اصیل کُکڑ کے پنجوں پر چڑھائے جانے والےناخن کو بھی کہتے ہیں ۔جوڈیزی کٹر کی طرح چیر ڈالتے ہیں۔ میرا دوست شیخ مریدتو کہتا ہے کہ شادیاں دفاعی سازو سامان کی تین روزہ نمائش کامرکز ہوتی ہیں جہاں دشمن کا اسلحہ چیک کیاجاتا ہے۔ ایسی نمائشیں خواتین میں خانگی جنگی جرائم کوبڑھاوا دیتی ہیں۔
بیٹی:مما، ڈیڈ نے کہا ہے کہ اس بار اگر امتحان پاس نہ ہوا تو میری شادی کردیں گے۔
ماں:تو تم نے کتنی تیاری کی ہے؟۔
بیٹی:بس پارلر کی بکنگ رہ گئی ہے۔
پارلرکی بُکنگ کروانا مشکل بھی ہے اورمہنگا بھی۔ اسی لئےپیپلزپارٹی کے رہنما سیدخورشید شاہ نے بیوٹیشن کورس خودکرنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ تاکہ بیوی کاٹائم بھی بچے اورخرچہ بھی۔ بیوٹیشن میک اپ کرکے لڑکی کوشادی کےلئےقابل قبول بناتی ہیں اورمرد’’بناؤ سنگھار‘‘ کرانے مطب جاتے ہیں۔شادی کی ابتدا مہندی کے ریڈ سگنل سے ہوتی ہے اوراکثر جوڑے سگنل توڑنا براسمجھتے ہیں۔ البتہ شادی کے ابتدائی سالوں میں جوڑے ڈبے والے ٹشو پیپر کی طرح فولڈ ہوتے ہیں اورجلد ہی ٹائلٹ رول کی طرح اُدھڑنےلگتے ہیں۔ شادی کےچندسال بعدہی شوہر ارتقا کی وہ منزل پا لیتا ہےجس کا تذکرہ ڈارون نے (Evolution theory) میں کیا تھا۔ اسی لئے شادی مردکی ہیئت کو بدل ڈالتی ہے۔
شوہر:بیگم اگر میں مرگیا توتم دوسری شادی کرلوگی۔؟
بیوی(جذباتی ہوکر): نہیں میں اپنی بہن کے ساتھ رہ لوں گی۔
بیوی:اوراگر میں مر گئی تو۔۔؟
شوہر:نہیں میں بھی تمہاری بہن کے ساتھ رہ لوں گا۔
ہمارے ہاں ننانوے فیصدشوہرمائنس ون اورسو فیصدپلس ون کےشوقین ہیں۔ اورخورشیدشاہ بھی پلس ون کے قائل نکلے۔ دوسری شادی عموما چوری چھپے ہوتی ہےاور دوسری بیوی آف شورکمپنی کی طرح مخفی رکھی جاتی ہے۔دوسری شادی نہ بھی ہو تو بھی ’’آف شور بیوی‘‘ کی گُنجائش موجود رہتی ہے۔پ اکستان میں آف شورکمپنیوں کا شور مچا تو پی ٹی آئی چیف عمران خان نےخورشید شاہ کو ڈبل شاہ کہہ ڈالا۔ اس لقب پرمیں خاصا پریشان تھا۔ حاجت تب رفع ہوئی جب شاہ جی نے اقبالی بیان دیا کہ’’میں نے دو شادیاں کررکھی ہیں‘‘۔ ملکی سیاست میں یہ عمران خان کی پہلی فتح ہے۔مرید کہتا ہے کہ دوسری شادی، دوسرا ہوائی قلعہ ہے۔۔۔ اورمرد سکاٹ لینڈ کے رابرٹ دی بروس کی طرح قلعے فتح کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ تو کہتا ہے کہ کنوارےجل جل کرمرتے ہیں اورشوہرلڑ لڑ کر۔ اسی لئے سیاسی کنوارے شیخ رشید کی آگ نہیں بجھ رہی۔ البتہ سیاستدان اورشوہرمیں فرق یہ ہے کہ سیاستدان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ غصہ آنا مرد کی نشانی ہے اورغصہ پی جانا شادی شدہ مردکی نشانی۔لیکن ڈبل شاہ غصےمیں ہیں۔بولے’’ میری دو بیگمات ہیں۔ میں نے پوچھا کہ نیل پالش کا کتنا خرچہ آتا ہے توایک بولی۔پانچ ہزار ماہانہ۔ میں نے کہا یہ کام میں سیکھ لیتا ہوں۔ میرے دس ہزاربھی بچیں گے اورسات پشتیں مزے کریں گی‘‘۔ مریدکہتا ہے کہ نیل پالش کی مدمیں شوہرجتنی زیادہ بچت چاہتے ہیں انہیں اتنی ہی زیادہ شادیاں کرلینی چاہیں۔
بیوی شاپنگ کرکے گھر آئی۔
شوہر:نیل پالش خریدلی۔؟
بیوی :بازارمیں اتنی اتنی پیاری نیل پالش تھیں۔ مجھے توہینڈ بیگ بھی اچھے لگے لیکن میں نے سوٹ خریدلیا۔
دنیا کےہر گھرمیں شاپنگ ایسی ہی ہوتی ہے۔ شاہ جی پتہ نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں۔ یقیننا ہرماہ دو۔دو سوٹ خریدے جا رہے ہیں۔کیونکہ خوبصورت دِکھنا خواتین کی ضرورت نہیں، حق ہے اوراس حق کوبعض لڑکےبھی ناحق جتلانے لگے ہیں۔شاہ جی مردانہ بیوٹی سیلون بنا لیں تووہ چل سکتےہیں۔ ویسے بھی مرداپنی وجاہت کے بجائے شباہت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
ناخن اُس لباسِ فاخرہ کی باقیات ہیں جوآدم کےفردوسی جرم کی پاداش میں خُلدمیں اتارلیاگیا تھا۔ اسی لئےناخن آج بڑھ بڑھ کرہمیں ’’نکلناخلد سے آدم کا‘‘ یاد دلا رہے ہیں۔ شاہ جی کی طرح میرا بیوٹیشن کورس کا کوئی ارادہ نہیں البتہ یہ خواہش ہے کہ خواتین گھر پر ہی نیل پالش لگائیں۔ کیونکہ جونہی وہ نیل پالش نکالتی ہیں۔ گھر کے سارے کام انہیں یاد آنے لگتے ہیں۔ انگریزی محاورا ہے کہ مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ معدے سے ہو کرگزرتا ہے۔ شاہ جی کو شاید اچھے کھابےنہیں مل رہے۔ اورنیل پالش پرخرچہ بہت آ رہا ہے۔ گدی نشینوں کی سکیورٹی سخت ہے۔ چڑھاوے کہیں راستے میں ہی چڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے شاہ جی نے میک اپ کےڈبل اخراجات پر کٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہےکہ قومی اسمبلی کا سیشن شروع ہوگیا تو میک اپ کون کرے گا۔ سوکنیں بھی ایک دوسرا کا سنگھارنہیں کرسکتیں۔ شایدمہندی کلچردوبارہ شروع کرنا پڑے۔ سندھ کے ضلع دادوکی مہندی دنیا بھرمیں مشہور ہے۔ اس سےبال بھی رنگ سکتے ہیں۔ شاہ جی کوتوضرورت بھی ہے۔سندھ میں توگرمی میں بہت پڑتی ہے۔اوپر سے وہ ڈبل شاہ ہیں۔ آزمائش شرط ہے ۔ممکن ہے خرچے کی کھپ کھپ میں مہندی کھپے کھپےہونےلگے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں