دانتوں سے ٹارٹر کے داغ مٹانا بہت آسان

دانتوں پر جما میل یا ٹارٹر کس کو پسند ہوسکتا ہے بلکہ اس کا نظر آنا خوفزدہ کردیتا ہے۔یہ پلاک کی بدترین قسم ہے اور یہ اس وقت دانتوں پر نظر آتی ہے جب 3 سنہرے اصولوں برش، خلال اور صفائی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔جب آپ اس ٹارٹر کو دانتوں سے ہٹاتے نہیں تو یہ وقت کے ساتھ سخت ہوتا جاتا ہے جبکہ مسوڑوں کے امراض کا باعث بنتا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے داغ منہ کھولنے پر شخصیت کو کتنا بدنما بناتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو ہمارے ارگرد موجود چند عام چیزیں آپ کی مسکراہٹ کو روشن کرسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں دانتوں کو جگمگا سکتی ہیں۔

بیکنگ سوڈا اور نمک
یہ بہت سادہ مگر ٹارٹر کو ہٹانے کا موثر ٹوٹکا ہے، ایک کھانے کے چمچ بیکنگ سوڈا میں ایک چٹکی نمک کو ملائیں اور اس مکسچر کی کچھ مقدار ٹوتھ برش پر چھڑک دیں یا ٹوتھ پیسٹ میں شامل کردیں۔ اس ٹوٹکے کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہ آزمائیں۔

مالٹے کے چھلکے
ترش پھل عام طور پر پلاک سے بننے والے داغوں کی صفائی کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں جس کی وجہ ان میں موجود ایسڈ ہے۔ تو مالٹے کے چھلکوں کو اپنے دانتوں پر 2 سے تین منٹ تک رگڑیں یا اس کا پیسٹ بناکر دانتوں پر لگائیں، اس کے بعد نیم گرم پانی سے کلی کریں، یہ عمل ہفتے میں کئی بار دہرائیں۔

تل
ایک کھانے کے چمچ تلوں کو منہ میں ڈالیں اور اچھی طرح چبائیں، چبا کر اس کا پیسٹ بنانے کی کوشش کریں اور نگلنے سے گریز کریں۔ اس کے بعد دانتوں پر اس پیسٹ سے برش کرلیں، یہ عمل ہفتے میں دو بار دہرائیں۔

لونگ
یہ مصالحہ دانتوں کے درد سے تو نجات دلاتا ہی ہے مگر دانتوں کی صفائی کے لیے بھی فائدہ مند ہے، لونگ کو پیش کر پاﺅڈر بنالیں، اس میں تھوڑا سا زیتون کا تیل شامل کریں اور اس مکسچر کو داغوں سے متاثرہ حصے میں لگائیں۔ اسی طرح لونگوں کو چبانا سانس کی بو سے نجات دلاتا ہے جبکہ بیکٹریا کو مارتا ہے۔

کوئلہ
کوئلہ آسان اور سستے ترین طریقوں سے دانتوں کو قدرتی طور پر سفید کرنے کے ذرائع میں سے ایک ہے۔ کوئلے کو پیس کر سفوف بنالیں اور اسے گیلے ٹوتھ برش پر چھڑک کر دانتوں پر معمول کے مطابق پھیر لیں۔

پاﺅڈر ملک اور ٹوتھ پیسٹ
پاﺅڈر ملک بھی دانتوں کو موتیوں جیسے سفید اور صحت مند رکھنے میں مدد دیتا ہے، تھوڑا سا پیسٹ برش پر لگائیں اور اس پر چٹکی بھر پاﺅڈر ملک اوپر سے چھڑک کر برش کرلیں، اس طریقہ کار کو ہفتے میں ایک سے دو بار سے زیادہ نہ آزمائیں۔

بیکنگ سوڈا اور لیموں کا عرق
چٹکی بھر بیکنگ سوڈا ٹوتھ برش پر چھڑکیں اور اس پر چند قطرے لموں کا عرق ٹپکا دیں اور برش کرلیں۔ واضح رہیں کہ اس طریقہ کار کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ استعمال نہ کریں۔

ہائیڈروجن پرواکسائیڈ
ہائیڈروجن پرواکسائیڈ کو آزمانے سے پہلے یہ جان لیں کہ دانت بہت زیادہ حساس تو نہیں، اگر سب ٹھیک ہو تو تھوڑی سی روئی کو پرواکسائیڈ میں ڈبوئین اور نرمی سے دانتوں پر رگڑیں۔ یہ طریقہ کار بھی ہفتے میں ایک بار سے زیادہ استعمال نہیں کیا جانا چاہئے، ورنہ دانتوں کی سطح کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

بیکنگ پاﺅڈر اور لیموں کا عرق
ایک چائے کا چمچ بیکنگ پاﺅڈر اور ایک چائے کا چمچ لیموں کا عرق دو منٹ میں جادو کرسکتا ہے، اس مکسچر کو دانتوں پر دو منٹ سے زیادہ نہ لگا رہنے دیں، جبکہ اسے بھی ہفتے میں ایک یا دو بار آزمایا جاسکتا ہے۔

سمندری نمک، لیموں کا عرق اور ٹوتھ پیسٹ
آدھا چائے کا چمچ سمندری نمک اور کچھ مقدار میں لیموں کے عرق کو ایک باﺅل میں تھوڑی سی مقدار میں ٹوتھ پیسٹ میں مکس کریں۔ اس مکسچر کو دانتوں پر لگائیں اور ایک منٹ بعد دھولیں۔ یہ طریقہ کار بھی ہفتے میں ایک سے دو بار آزمانے کے لیے بہترین ہے۔

لیموں کا عرق اور پانی
دونوں کی یکساں مقدار کو مکس کرنا دانتوں کی سفیدی کی بحالی میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، اس مکسچر کا استعمال ہفتے میں ایک بار کرنا ہی مناسب ہے۔

سیب کا سرکہ اور پانی
آدھا چائے کا چمچ سیب کا سرکہ ایک گلاس میں پانی میں ملائیں، اس سلوشن سے دانتوں کو روز برش کرنے سے پہلے دھوئیں۔

اسٹرابیری
ایک پکی ہوئی اسٹرابیری لیں اور اسے چمچ سے پیس لیں۔ اب اس پیسٹ سے دانتوں کو کچھ منٹ تک برش کریں تاکہ پیلے دھبوں سے نجات پائی جاسکے۔ یہ ٹوٹکا مہینے میں ایک بار آزمانے کے لیے ٹھیک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹوتھ پیسٹ، نمک، بیکنگ سوڈا اور لیموں کا عرق
ایک چمچ ٹوتھ پیسٹ، چٹکی بھر نمک، تھوڑا سا بیکنگ سوڈا اور چار سے پانچ قطرے لیموں کے عرق کو ایک باﺅل میں مکس کریں۔ اس مکسچر سے چار سے پانچ منٹ تک دانتوں پر برش کریں اور آپ صرف ایک استعمال کے بعد ہی فرق محسوس کرسکیں گے۔ اس طریقہ کار کو دو مہینے میں ایک بار ہی استعمال کریں۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply