پاکستانی خواتین اور جنسی ہراسگی/سالار کوکب

پاکستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے / جنسی تشدد کے واقعات کی تحقیق کا نظام انتہائی کمزور ہے اور اس شعبے کے ماہرین تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں – خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک معمول ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مخالفین سے بدلہ لینے کے لیے اسے ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے – اس سلسلے میں ایک اہم مثال مختاراں مائی کیس ہے – اس کیس میں عدالتی اور غیر سرکاری تحقیق کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مختاراں مائی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تھی لیکن “اجتماعی زیادتی” پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے – کچھ حلقوں کا موقف ہے کہ اجتماعی زیادتی کے الزام کا مقصد زیادہ سے زیادہ مخالفین کو مقدمے میں پھنسانا تھا –

خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملات میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ایسے ہر الزام کو سنجیدگی سے لیا جائے – اس سلسلے میں پیشہ ورانہ معیار انتہائی سخت ہیں – اگر ایک جنسی خدمات بیچنے والی خاتون بھی کسی پر ایسا الزام لگائے تو اس کو اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے جتنی کسی دوسری خاتون کے الزام کو – ایسے واقعات کی کئی مرحلوں میں تحقیق ہوتی ہے – پہلے مرحلے میں تربیت یافتہ افراد کا ایک گروپ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس الزام کو نظر انداز کر دیا جائے یا اگلے مرحلے تک لے کر جایا جائے – پہلے مرحلے کا فیصلہ عموماً اس طرح کا ہو سکتا ہے۔
1- الزام مکمل طور پر غلط فہمی یا بدنیتی کی وجہ سے لگایا گیا
2- الزام کے غلط فہمی یا بدنیتی کی بنا پر لگائے جانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا لیکن الزام کے حق میں ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں کہ اسے اگلے مرحلے تک لے جایا جائے۔
3- یہ ایک ایسا کیس ہے جس میں باقاعدہ تحقیقات کی ضرورت ہے –

اس سے اگلے مرحلے میں صرف پولیس / پروسیکیوشن پر مشتمل ماہرین کا گروپ تحقیقات کرتا ہے یا اس میں یا اس سے پہلے آزاد ماہرین بھی شامل کیے جا سکتے ہیں – اگر دوسرے / تیسرے مرحلے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اس الزام کو عدالت میں ثابت کرنے کے لیے ٹھوس مواد موجود ہے تو باقاعدہ کیس بنایا جاتا ہے – ایسے ہر مرحلے میں اپیل کا اور عموما دوسرے مرحلے سے ذاتی شنوائی کا حق موجود ہوتا ہے –

محترمہ عائشہ گلا لئی نے محترم عمران خان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے – اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ تحریک انصاف میں خواتین کو ہراساں کرنے کا کلچر موجود ہے – ایسا الزام لگانا محترمہ کا حق ہے – اسی طرح اپنا دفاع کرنا اور الزامات کے بدنیتی پر مبنی ثابت ہونے پر محترمہ عائشہ گلا لئی کے خلاف کارروائی کرنا محترم عمران خان کا حق ہے – ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ محترمہ عائشہ گلا لئی کے الزا مات (اور ہر ایسے دوسرے کیس کی ) تحقیقات کرائیں –

Advertisements
julia rana solicitors london

محترمہ عائشہ گلا لئی اور محترم عمران خان اپنی مختلف حیثیتوں میں پاکستانیوں کے لیے رول ماڈل ہیں – اس کے علاوہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں – اگر اس ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات ہوں تو پاکستان میں ایسے معاملات کی تحقیق کا ایک معیار طے ہو جائے گا اسی طرح تحریک انصاف کے تنظیمی کلچر کے متعلق تحقیقات سے پاکستان میں اداروں کے سینئرمنیجرز اور ہیومن ریسورسز منیجرز کو ایک راہِ عمل ملے گی کہ اداروں کو gender sensitive کیسے بنایا جائے –
حکومت پاکستان کو اس مسئلے کی مکمل تحقیق کے لیے محترمہ عائشہ گلا لئی اور محترم عمران خان کی مشاورت سے غیر ملکی ، تجربہ کار ، غیر جانب دار اور پیشہ ور ماہرین پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمشن تشکیل دینا چاہیے جو اس کی مکمل تحقیقات کرے اور مستقبل میں جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلقہ کیسز کی تحقیقات کرنے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے –

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply