مسلمانوں میں آخرت کا غیر اسلامی تصور

کچھ دن ہوئے، ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے ثبات و ہوئیت کے بارے میں ان کے ارشادات سنے۔ جس کے پاس چار پیسے یا گھر در ہے یا دنیا میں کوئی حیثیت ہے اس سے انھیں سخت تکلیف تھی کہ قیامت کے دن اس کا کیا بنے گا اور حساب کیسے دے گا، اور جو ان کی طرح کا کھال مست تھا وہ ان کی نگاہ میں دنیا آخرت کی عزتوں کا حق دار تھا۔ کئی خوشحال حیثیت دار لوگوں کو منہ بھر بھر کے برا کہہ چکنے کے بعد آپ نے ریاست بہاول پور کے ریاستی حکمرانوں کے آبائی شاہی قبرستان کا نقشہ کھینچا کہ وہاں حسرت برس رہی تھی اور کئی قبروں کے بارے میں کوئی بتانے والا بھی نہ تھا کہ ان میں کون دفن ہے۔ دیر تلک ماضی کے مزاروں کا ذکر فرماتے رہے اور اپنے کچھ اسفار میں فلاں فلاں صاحبِ علم و فضل کی قبور کی زیارت اور وہاں سے ملنے والے فیض کے بارے میں مسحور کن خطاب فرمایا۔ میں نے پوچھ لیا کہ اس فیض سے دنیا میں کوئی آنہ ٹکہ ملا سوائے اس کے کہ کوئی آپ کو کھانا کھلا دے یا جیب میں چند روپے ڈال دے؟ یہ بھی پوچھا کہ اگر بادشاہوں کی قبروں کے نشان مٹ گئے ہیں تو آپ کے خاندانی بزرگوں کی قبروں کے نشان کہاں باقی ہیں؟ اور اگر باقی ہیں بھی تو ان سے سوائے اس کے کیا فائدہ ہے کہ آپ کسی کا مزار بنوا کر اس پر مجاوری فرمائیں اور اپنی نسلوں کی روٹیاں سیدھی کرلیں۔ حضرت کی سٹی گم ہوگئی اور آج تک گم ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں اپنے ہاتھوں خود خدا کی ملاقات کا موقع نہ نکال لیں۔

مسلمانوں میں اسلام کا تصور جہاں کئی اور چیزوں میں غلط ہے وہاں اسلام کی تعلیم کردہ آخرت کا تصور بھی بری طرح خراب ہو چکا ہے۔ آخرت کے اس غلط تصور نے مسلمانوں کی نسلیں برباد کر دی ہیں کہ دنیا خواہ جیسی بھی ہو، آخرت درست ہو جائے گی۔ یومِ آخرت پر ایمان بنیادی اسلامی ایمانیات میں شامل ہے۔ اس ایمان کی مقدار اور کیفیت کیا ہے، اسے جانچنے کے لیے ہر مسلمان اپنے اندر جھانک کر دیکھ لے کہ آخرت کے دن اللہ کے سامنے کھڑے ہونے اور اپنی دنیاوی کارگزاری کا حساب دینے کے بارے میں اس کا کتنا یقین ہے۔ نیز اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آخرت کا تصور بیشتر مذاہب میں موجود ہے اور اس کی تفصیلات میں بس انیس بیس کا فرق ہے۔ یہ سب غیب کا سودا ہے جسے بیچنے کے لیے ہر مذہب والا اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ سناتا ہے۔ ہم بحیثیتِ مسلمان قرآنِ مجید میں خدا پاک کے ارشاد فرمودہ آخرت کے تعارف پر ایمان لاتے ہیں۔

ہمارا تصورِ آخرت اس حقیقت کی غلط تفہیم سے خراب ہوا ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے اور آخرت ہمیشہ رہے گی۔ ہم چونکہ دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں اس لیے ہر کام چلاؤ ڈنگ ٹپاؤ انداز میں بالکل ویسے کرتے ہیں جیسے عارضی طور پر کہیں رکنے والا کرتا ہے۔ اس چیز نے ہم مسلمانوں میں، الا ماشاء اللہ، ایک خاص مرض پیدا کر دیا ہے جسے سہولت کے لیے، اور برائے گفتگو، ایڈہاک ازم کہہ لیجیے۔ ایڈہاک ازم میں دو خرابیاں ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم دنیا میں کوئی طویل المیعاد منصوبہ بنانے کی اہلیت سے خالی ہوگئے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا من حیث القوم کوئی منصوبہ ہے ہی نہیں، اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ بیشتر دوسروں ہی کا منصوبہ ہوتا ہے جس پر ہمیں جوت لیا جاتا ہے۔ جتنے مسلمان ہیں اور جتنے مسلم ممالک ہیں وہ سب کے سب بھیڑ چال چل رہے ہیں۔ آج ایک کے پیچھے چل پڑے تو کل دوسرے کے۔ یا آج کسی نے ایک جگہ سے اٹھا بھگایا تو کہیں اور جا بیٹھے اور خیالات و تقاریر کا سلسلہ وہیں سے شروع فرما دیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ دنیا اور اہلِ دنیا کی ترقی اور بہترائی کے لیے کوئی بڑا منصوبہ ہم نے نہ بنایا اور نہ چلایا۔ بلکہ جو لوگ اس قسم کے منصوبوں میں لگے ہوئے ہیں ان کے ساتھ ہمارا تعلق دوستانہ سے زیادہ معاندانہ ہے۔ ساری دنیا کے غیر مسلم اور کفار بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور ہم بگاڑنے میں۔ ہماری کارکردگی کا اشاریہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کچھ گرایا، خواہ حکومتیں ہوں یا سلطنتیں، کاروبار ہوں یا شخصیات۔ عطاء الحق قاسمی نے کتنا چبھتا ہوا نقشہ کھینچا ہے کہ ہمارا عطائی مجمع باز دس منٹ کی تقریر میں افلاطون و ارسطو سے لے کر کارل مارکس اور فرائیڈ تک سب کو جاہل ثابت کر دیتا ہے۔ آخرت کے اس غلط تصور اور ایڈہاک ازم والے رویے کی ہی وجہ سے ہم مسلمانوں میں ایک بھی ایسا مفکر (کم سے کم آج) موجود نہیں ہے جس کے افکار نے دنیا کے بڑے حصے پر کوئی اہم تعمیری اثر ڈالا ہو۔ المختصر اس ایڈہاک ازم نے ہم میں سے دنیا کے مستقبل کو سوچنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے اور ہم اس ضمن میں اپنی اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہمارا بڑے سے بڑا سرمایہ دار بھی اسی کوتاہ بینی کا شکار ہے۔

آخرت کے اس غلط تصور اور ایڈہاک ازم والے رویے سے دوسری خرابی یہ پیدا ہوئی کہ ہم میں احساسِ جواب دِہی اور دیے گئے کام کی کوالٹی کے بارے میں غلط روی پیدا ہوئی اور ہم کام چوری اور جھوٹ موٹ پراگریس دکھانے کے فن میں طاق ہوگئے۔ من حیث القوم ہم میں سے یہ احساس ہی ختم ہوگیا کہ کسی نے یہاں ہمارے کام کو دیکھنا ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ دنیا میں کوالٹی کام کرکے دینے کا احساس رکھتے ہیں وہ خالص دنیا دارانہ وجوہات سے رکھتے ہیں، جیسے نوکری چلی جانے کا یا گاہک خراب ہونے کا خوف۔ ہماری مصنوعات کی کوالٹی دنیا بھر میں خراب ترین ہونے کی اصل وجہ یہی غلط تصورِ آخرت ہے۔ اس بیماری کا بڑھتے بڑھتے سرطان بن جانا پوری امت میں یوں جاری ہے کہ غریب سے غریب آدمی سے لے کر بڑے بڑے دیندار تاجروں اور سرمایہ داروں میں ہر قسم کی دو نمبری اور ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ وغیرہ جیسے وہ سب امراض عام ہیں جن سے رکنے کا حکم نبیِ آخر الزماں علیہ السلام نے بطورِ خاص دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخرت کے پیچھے دنیا کو برباد کر دینا کوئی عقل مندی نہیں ہے اور نہ اس کا حکم ہے۔ یہ کام وہ عقل سے پیدل لوگ کرتے ہیں جن کا نہ آخرت کا نظریہ درست ہے نہ دنیا کا۔ نبی کریم علیہ السلام تو فرما گئے ہیں کہ آدمی جس حال پر مرے گا اسی حال پر اٹھے گا، اور یہ کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ کیا اس بات کو سمجھانے کے لیے کسی نئے نبی کا انتظار ہے کہ جس کی دنیا کی کھیتی بنجر بے آباد ہے اس کی آخرت بھی ایسی ہی بے سُری ہوگی، اور جو دنیا میں سڑک چھاپ رہا ہے وہ آخرت میں بھی جوتے اگر کھائے گا نہیں تو کم سے کم جوتیاں چٹخاتا ضرور پھرے گا؟ نبی کریم علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بہترین باپ وہ ہے جو اولاد کی اچھی تربیت کرے اور اچھا ترکہ چھوڑے۔ یہ سب نصیحتیں جہاں لکھی ہیں وہاں ہم نے پڑھنی نہیں۔ ڈھونڈ کر اس ترٹی پونجیک کے پیچھے چلتے ہیں جس کا کوئی حال نہ ہو۔ خوب یاد رکھنے کی بات ہے کہ بے زری خدا کے ہاں کوئی پسندیدہ حالت نہیں ہے جس کی خواہش کی جائے یا جس پر کسی اجر کا وعدہ ہو۔ آخرت میں اعمال کا بدلہ ملے گا نہ کہ چتھارے پن کا۔ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے پر آمادہ نہ ہو۔ خدا کو خوشحال مومن پسند ہے۔ بدحال بے زر کو یہاں کوئی نہیں پوچھتا، خدا کیوں پوچھنے لگا؟ آسودہ حال، مالدار، نرم بستروں میں آرام کرنے والے مومنوں کے لیے بھی خدا نے بڑی بشارتیں دی ہیں. خدا ہی ہمیں سمجھ دے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply