• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نئے پاکستان کے پرانے معاشی چیلنجز اور کچھ نئے حل۔۔۔علی اختر/مضمون برائے مقابلہ مضمون نویسی

نئے پاکستان کے پرانے معاشی چیلنجز اور کچھ نئے حل۔۔۔علی اختر/مضمون برائے مقابلہ مضمون نویسی

نئے پاکستان کو بھی کم و بیش وہی پرانے ہی چیلنجز درپیش ہیں مہنگائی  ، بے روزگاری، اینرجی کرائسز، سفید ہاتھی پالنا،بیرونی قرضے وغیرہ

لیکن۔۔۔ نئی بات یہ ہے کہ  نئے پاکستان کی نئی  حکومت ان مسائل سے کیسے نمٹتی ہے یا حل کے لیئے کیا کردار ادا کرتی ہے ۔

تو پہلے ہم ان قومی اداروں کی بات کرتے ہیں جو بجائے منافع دینے کے ہماری معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور یہ سب بھی ہماری اپنی ہی نااہلی اور مفاد پرستی کے سبب ہوا ہے۔
ہم نے زمانہء طالب علمی میں معاشیات کے قانون (law of diminishing marginal return )کے بارے میں پڑھا  تھا کے کس طرح ضرورت سے زیادہ factor of production پیداوار میں اضافہ کے بجائے کمی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اگر اس قانون کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو PIA کو دیکھ لیا جائے جہاں 38 طیاروں پر 14800سے زائد افراد کا عملہ رکھا گیا ہے جو کہ ایک طیارہ پر 390 افراد بنتا ہے اور سیئرین ایئر لائن کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ سب اقربا پروری اور سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ہے۔ دوسری طرف اسٹیل مل کا خسارہ 200 ارب سے تجاوز کر چکا ہے اور تنخواہوں کی مد میں سالانہ اربوں روپیہ الگ سے جا رہا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ  معیشت پر بوجھ ان سفید ہاتھیوں سے فوری طور پر چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ کیونکہ تاریخ نے یہ باور کرا دیا ہے کے ہم وہ مفاد پرست لوگ ہیں جو صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور مجموعی طور پر قوم کو فائدہ دینے میں نااہلی ثابت کر چکے ہیں۔ اب ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کے ہم اداروں کو چلانے کے قابل نہیں سو انہیں پرائیویٹائز کر دیا جائے یہ زیادہ بہتر ہے ناکہ ان کاغذ  کے جہازوں کو سمندر میں چلانے کی ضد پر قوم کے اربوں روپے برباد کئے جائیں۔

اب آتے ہیں دوسرے مسائل کی جانب جو   بے روزگاری ، ٹریڈ ڈیفیسٹ ، قومی پیداوار کی سست رفتار وغیرہ اور ان سمیت اور بہت سے مسائل کی وجہ اینرجی کرائسس ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ حکومتوں نے اس مسئلہ پر بھی کوئی  سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا اور آج وہ دور بھی آگیا کہ  پاکستان سے ٹیکسٹائل ملز بنگلہ دیش منتقل ہونا شروع ہو گئی  ہیں جہاں سستی بجلی و مزدوری کی وجہ سے ماحول زیادہ سازگار ہے۔جہاں دنیا بھر میں انرجی کے سستے ترین ذرائع اختیار کئے جارہے ہیں اور ونڈ انرجی ، یا سولر انرجی پر توجہ دی جارہی ہے۔ وہاں ہم ابھی تک فرنس آئل جیسے مہنگے ترین ذرائع کا انتخاب کر رہے ہیں ۔ وہ تو بعد میں پتا چلتا ہے کہ  رینٹل پاورمیں کس نے کتنا مال بنایا ۔ بڑے ڈیمز پر اتفاق نہ ہونے سے ہم چھوٹے ڈیمز سے بھی گئے۔ اسکے علاوہ بجلی کی ٹڑانسمیشن لائنز پرانی اور غیر معیاری ہونے کی وجہ سے لائن لاسسز بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں جس پر  توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

نئی  حکومت نے بھی بے روزگاری کو مد نظر رکھ کر ایک کروڑ نوکریوں کا نعرہ لگایا ہے جو کہ  اسی صورت میں ممکن ہے جب پرائیویٹ سیکٹر کو پروموٹ کیا جائے ورنہ درج بالا صورت حال کا سامنا ہوگا یعنی آدمی کی جگہ دس کو بھرتی کرکے پھر بٹھا کر پالا جائے گا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ  ایک کروڑ نوکریوں سے پہلے ان لاکھوں ہڈ حراموں کے لیئے کام کا بندوبست کیا جائے جو صرف حاضری لگا کر مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں ۔

یہ سب تو تھیں پرانی باتیں اب میں ان مسائل کی جانب آتا ہوں جو باہر تو نظر نہیں آتے لیکن ان پر کچھ غور وفکر سے بہت سے دیگر مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

پہلا مسئلہ جدت اور تحقیق کا نہ ہونا یا اسکی سر پرستی نہ کرنا ہے۔
اس مسئلہ کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں ۔ ہمارے ملک کی درآمدات میں ایک بہت بڑی مقدار خوردنی تیل کی ہوتی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ 16 kg تیل استعمال کرتا ہے جبکہ سال 2017-2018 کے دوران پام آئل کی درآمدات کا حجم 30 لاکھ ٹن سے زائد تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ایک زرعی ملک ، زرخیز زمین کے ہوتے ہوئے بھی اپنی عوام کی خوراک کا بندوبست کیوں نہیں کر پا رہا۔ پام کا درخت ساحلی علاقوں میں اگتا ہے اور سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سینکڑوں کلومیٹر زمین بنجر پڑی ہے ۔ کبھی حکومتی سطح پر اسے آباد کرنے کا نہیں سوچا گیا۔

کچھ سال پہلے CDA کی جانب سے گھارو کے مقام پر ناریل کے درخت لگانے کا تجربہ کیا گیا اور کامیاب رہا، اسکے علاوہ تھر کے علاقے میں میرا آج سے دس سال پہلے ایک این جی او کے آڈٹ کے لیئے جانا ہوا ، وہاں اس این جی او کی طرف سے ایک تجرباتی کھیت بنایا گیا تھا ۔ جہاں ایک ٹیوب کی مدد سے پودوں کو انکی ضرورت کے مطابق پانی دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ بہت کامیابی سے ہر طرح کی سبزیاں تھر کے بنجر علاقے میں کاشت کر رہے تھے۔جو کہ  میں نے خود اپنی آنکھوں سےدیکھا۔
لیکن افسوس حکومتی سطح پر سر پرستی ناپید ہے ۔اور اگر اس قسم کا کوئی  منصوبہ ہ منظور بھی ہوتا ہے تو فائلوں میں دب جاتا ہے یا کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ آج بیف 500 روپے کلو اور دودھ 100 روپے لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے ۔ جبکہ مویشی پالنے اور دیکھ بھال کے تمام ذرائع بھی موجود ہیں ۔اور تھوڑی سی جدت سے اس غزائی  بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور درآمدات میں اضافے کے چیلنج سے بھی نپٹا جا سکتا ہے۔اور یہ جدت یہ ایڈوانسمنٹ کسی بھی شعبہ میں کی جا سکتی ہے ۔ غزائی  بحران کی مثال بات سمجھانے کے لئے دی گئی  ہے ۔

دوسرا بڑا چیلنج فارن انویسٹمنٹ ہے۔ نئے پاکستان کی حکومت نے فارن انویسٹمنٹ پاکستان لانے کا قبول کیا ہے۔ اللہ کامیابی عطا فرمائے لیکن اس میں بھی چند ایک غور طلب نکات ہیں۔ جنہیں ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں ۔
اب فرض کر لیں کہ  اعلان کیا جاتا ہے کہ  کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں نئ حکومت بنی ہے جو انتہائی ایماندار اور مخلص ارکان پر مشتمل ہے ۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں GDP گروتھریٹ دگنا ہو چکا ہے اور رشوت خوری وغیرہ ختم ہو چکی ہے سو اب ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیفنس و کلفٹن کے مال دار لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کے مچھر کالونی شفٹ ہو جائیں اور سرمایہ کاری کریں۔
کیا ڈیفنس کا کوئی  رہائشی اس اعلان پر کان دھرے گا ۔ یقیناً  نہیں ۔ جناب وہ اپنا صدقہ خیرات تو بخوشی دے دے گا لیکن ڈیفنس چھوڑ کر ندی کنارے کبھی نہیں رہے گا ۔
اس مثال کو مد نظر رکھ کر سوچیں کہ  ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی آپ کو ڈیم بنانے کے لیئے چندہ تو دے سکتے ہیں لیکن یو کے اور یو ایس چھوڑ کر اس وقت تک پاکستان نہیں آئیں گے جب تک آپ ان جیسا نہیں تو اسکا 70 سے 80 فیصد تک معیار زندگی نہیں دے دیتے ۔
ہم ہر سال بجٹ تقریر کے موقع پر وزیر خزانہ صاحب کو بہت  بلند و  بانگ دعوے کرتے سنتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ  لوگ GDP گروتھ دیکھیں نہ دیکھیں، ٹوٹی سڑکیں، سگنل پر بھیک مانگتے بچے، بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے مسافر، ٹارگٹ کلنگ، موبائل اسنیچنگ وغیرہ ضرور دیکھ لیتے ہیں۔ اور پھر والدین سے ملنے  آ نا تو دور کی بات انکے جنازہ میں بھی صرف دو گھنٹے کے لیئے آتے ہیں اور اگلی فلائٹ سے واپس ہو جاتے ہیں۔ تو اگر چاہتے ہیں کہ  ملک میں فارن انویسٹمنٹ آئے تو سب سے پہلے یہاں کے موجودہ شہریوں کا معیار زندگی بلند کریں۔

تیسرا بڑا مسئلہ ٹیکس چوری یا ٹیکس کا بلکل ہی نہ دینا ہے ۔ میرا کچھ عرصہ FBR میں بھی کام کرنے کا اتفاق ہوا جہاں میں نے ٹیکس کلیکشن پر معمور افسران اور دینے والوں کے درمیان چوہے بلی کا رشتہ دیکھا ۔ افسران کی توجہ ٹیکس جمع کرنے سے زیادہ اپنی جیبیں بھرنے سے تھی۔ کچھ تو پرائیویٹ ٹیکس کنسلٹنٹ بھی تھے ۔ اب جب ادارہ کے اپنے لوگ ہی ٹیکس سے بچنے کے راستے بتا رہے ہوں تو آپ سسٹم جتنا چاہیں جدید کر لیں ۔ چوری کی صورتیں نکل آئیں گی۔

دوسری جانب وہ چھوٹے کاروباری ہیں جو ٹیکس نیٹ میں آنا ہی نہیں چاہتے ۔ آپ بھلے WHT (ایڈوانس ٹیکس) کٹواتے رہیں وہ ریٹرن بھرنے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ اور اس  رویہ کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں ۔
سوچیں کہ  اسی ملک میں SIUT جیسا ادارہ بھی ہے جسے لوگ خوشی سے پیسہ دیتے ہیں، ایدھی، چھیپا ، صارم برنی وغیرہ عوام کے چندے سے چل رہے ہیں تو وہی عوام ٹیکس کیوں نہیں دیتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جواب صاف ہے۔ جب ریٹرن میں کوئی  کارکردگی نہ  نظر آئے  تولوگ پیسہ کیوں دیں ۔ آپ کراچی کی مشہور مارکیٹس کی حالت دیکھیں، صفائی کا  مسئلہ ہویا بجلی کا، تالے توڑ کر دکان میں چوری ہو یا بھتے کی پرچی کا آنا ، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی مسئلہ حل کرتے ہیں تو مفت میں ٹیکس کیوں ادا کریں۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply