جناب وزیراعظم ہم بتائیں تبدیلی کیا ہے?۔۔۔۔سید شاہد عباس

دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں تبدیلی کے ترانوں پہ کھلاڑی جھومتے نظر آئے۔ اور انتخابات دو ہزار اٹھارہ میں اسی تبدیلی کے نعرے نے اقتدار سونپ دیا۔ (اس بات سے قطع نظر کہ کب، کیسے، کیوں)۔ لیکن اس تبدیلی کے غبارے سے ہوا کا نکلنا ایسا ہی  ہے کہ بھولے عوام جو امید لگا بیٹھے کہ اس دفعہ تو اُن کا حاکم ویسا ہو گا جیسا انہیں چاہیے۔ ویسے تو پچھلے حکمران بھی ہم جیسے ہی تھے کہ لائے جو ہم ہی تھے۔ لیکن وہ بس اقتدار کا ہما سر پہ بیٹھتے ہی پرائے پرائے سے لگنے لگ جاتے تھے۔ آپ سے جناب وزیراعظم شاید امیدیں بھی زیادہ اسی لیے ہیں کہ آپ نے خود عوام کو تبدیلی کا نعرہ دیا ہے۔ اور بات یقیناً سچ ہے کہ کچھ وقت دینا چاہیے لیکن عوام بنا وقت دیے سوال کیوں بلند کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ آپ ہی نے ان کو شعور دیا تھا کہ پہلے دن سے ہی عوام کو سوال کرنے کا حق ہے۔ تبدیلی کے لیے آپ نے اقتصادی مشاورتی کونسل بنا ڈالی جسے شاید بنانے سے پہلے کوئی خاص ہوم ورک آپ نے نہیں کیا کہ نقصان اٹھانا پڑا۔ کابینہ مختصر ہو گی، اعلان کیا، لیکن اب آہستہ آہستہ تبدیلی کابینہ کا حجم بھی بڑھ رہا ہے، آپ کو جناب وزیر اعظم خود سمجھ نہیں آ رہی کہ تبدیلی لائیں کیسے کہ تبدیلی کی ٹھان لیں تو ٹھہرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ آپ نے بڑی بڑی تبدیلیوں پہ توجہ مرکوز کر لی کیوں کہ آپ ٹھہرے جو بڑے لوگ، عام عوام کی تبدیلیوں سے آپ یکسر لا تعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کو تو جس مہینے بجلی کا بل کم آ جائے وہی مہینہ خوشی کا ہو جاتا ہے۔ اور تبدیلی آ جاتی ہے۔ ذکر بجلی کے بل کا ہی کرتے ہیں کہ ہمیں تبدیلی چاہیے کیا۔
آپ تو جناب وزیراعظم بجلی کا بل شاید خود جمع ہی نہیں کرواتے ہوں گے لہذا آپ کو کیا پتا لیکن اگر ایک مہینے کا بجلی کا بل ہی اپنے پی ایس سے منگوا کے دیکھیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ واجبات کے کالم میں پہلا خانہ بھی ٹھیک کے یونٹ اتنے ہم نے پھڑکائے، دوسرا خانہ بھی بہتر کہ قیمت بجلی۔ اس سے آگے کی رام لیلا سنیے کہ کرایہ میٹر، کرایہ سروس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ایف سی سرچارج، ٹی آر سرچارج یہاں تک تو واجبات آئیسکو کے ہیں کیوں کہ ہم بجلی بطور ایک پراڈکٹ خرید رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اگلا کالم شروع ہوتا ہے حکومتی محصولات کا محصول بجلی، ٹیلی ویژن فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فاضل ٹیکس، فردر ٹیکس، نیلم جہلم سرچارج، سیلز ٹیکس، سیلز ٹیکس فیول پرائس ایڈجسمنٹ، انکم ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، محصول بجلی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، فاضل ٹیکس انکم ٹیکس فیول، فردر ٹیکس فیول ایڈجسٹمنٹ ٹوٹل، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر سیلز ٹیکس اور مجموعہ۔ جناب وزاعظم پاکستان، کیا آپ اتنے ٹیکس اتنی روانی میں پڑھ بھی سکتے ہیں جو عوام دے رہی ہے؟ ان میں سے تمام باکسز ہر مہینے کچھ خالی آتے ہیں کچھ بھرے ہوئے، جن کی ترتیب اگلے مہینے تبدیل ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی  شاید اس لیے ہی ہوتی ہو گی کہ آپ کا تبدیلی کا نعرہ اپنا کے؟ نہیں؟
جناب وزیر اعظم! آپ کن تبدیلیوں میں پڑ گئے، ہم آپ کو بتا رہے ہیں نا تبدیلی کیسے لائیں۔ یہ کام تو پہلے دن کے کرنے کا ہے کہ جو نیلم جہلم سابقہ حکومتوں کی اگر نا اہلی سے نہیں بنا تو سرچارج ہم کیوں دیں؟ آپ اگر اس پہ غور نہیں فرما رہے تو ہمیں آپ کی تبدیلی سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ تبدیلی وہ لائیے جو ہم چاہتے ہیں۔ کیا ٹیلی ویژن ایک دفعہ خرید لیا تو جرم کر دیا کہ ہر مہینے فیس بھی بھریں؟ کیا عوام کا تفریحی سامان بھی اب بنا ٹیکس ملنے سے رہا جناب وزیر اعظم؟ ایک بجلی پہ ہی عوام کی جیبوں پہ جب آپ کے علم میں ہوتے ہوئے ٹیکسوں کی مدد سے ڈاکا ڈالا جا رہا ہے تو ہم آپ کی چندہ مہم میں مزید سرمایہ کیوں دیں؟ لیکن جناب وزیر اعظم آپ نے تو شاید بل کبھی جمع کروایا ہی نہیں، بلکہ آپ نے تو بل جلایا ہی تھا آپ کو یاد ہو تو۔ آپ کیسے جان سکیں گے کہ جو شخص مہینے کا دس ہزار ہی کما پاتا ہے وہ کیسے یہ ادائیگیاں کرتا ہو گا۔
جناب وزیر اعظم! چھوڑیے بڑی تبدیلیاں، آپ گاڑی پہ آئیں جائیں یا پھر ہیلی کاپٹر پہ ہمیں قبول ہے۔ آپ اپنا سٹاف دو افراد کا رکھیں یا پھر دو سو کا ہمیں قطعاً کوئی اعتراض نہ ہے۔ آپ دس مرلے کے گھر میں رہیں یا پھر گیارہ سو کنال کے وزیر اعظم ہاوس میں ہم کیوں پریشانی میں گھلیں۔ آپ کی کابینہ بیس رکنی ہو یا پھر چالیس رکنی ہم شکوہ کناں کیوں ہوں۔ آپ کس کو پکڑ کے جیل میں ڈالیں، اور کس کو تھام کے مسند دے دیں یقین مانیے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہمیں بس کہنا اتنا ہے کہ جناب والا! آپ بڑی بڑی تبدیلیوں کے نعرے نہ لگائیے، ہمیں وہ تبدیلی دے دیجیے جو عوامی ہوں۔
عوام کو تو جس دن بل اتنا ادا کرنا پڑی جتنی بجلی استعمال کی ہے بنا ٹیکسوں کے بوجھ کے سمجھیں گے تبدیلی آ گئی۔ عوام کو تو جس دن پتا چلا کہ کل سے تعلیم پرائیویٹ معیار کی مفت کر دی گئی ہے تو لگے گا تبدیلی کے نعرے میں جان آئی۔ جب ایسا سورج طلوع ہوا کہ عوام کو نجی ہسپتالوں کے معیار کی طبی سہولیات سرکاری اسپتالوں میں اور مفت ملنا شروع ہو جائیں تو تبدیلی کا نعرہ ہم بھی لگائیں گے۔ جب لگا کے ناکے پہ پولیس والے نے روک کے مسکرا کے سلام دعا کی ہے اور روکنے کا مدعا مدہم آواز میں پوچھا ہے اور کسی غلطی پہ بھی اوئے کہہ کے پکارا نہیں تو ایسی تبدیلی کے ہم دیوانے ہو جائیں گے۔ جس دن معلوم ہو گیا کہ کسی وزیر کو ایک عام آدمی کی شکایت پہ شکایت درست ہونے پہ ہٹا دیا گیا تو لگے گا ہماری بھی وقعت ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا جناب وزیر اعظم آپ اپنی تبدیلی سنبھالیے، ہم اپنی تبدیلی کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ آپ اپنی تبدیلی لانے پہ مصر رہیں گے اور ہم وہ تبدیلی چاہیں گے جو ہمارے بھلے کی ہو۔ جو آپ سنیں گے نہیں۔ ورنہ ہم آپ کو ضرور کہتے کہ “جناب وزیر اعظم ہم بتائیں تبدیلی کیا ہے؟؟؟

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply