مصر کا اسکندریہ شہر اورقلوپطرہ۔۔۔۔سلمٰی اعوان

”اسکندریہ کیلئے تو ہر گھنٹے بعد گاڑی جاتی ہے۔“
ہم نے تو نو بجے کی ٹرین کیلئے دڑکی لگائی تھی۔پر بکنگ کاؤنٹر پر پہنچ کر پتہ چلا کہ ٹرین تو چلی گئی۔وہی اپنی پرانی عادت کے اظہاریئے نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں ظہور پذیر ہوئے۔آنکھوں میں تفکّر کے عکس اضطراری حالت میں ہاتھ کا سینے پر جانا لہجے میں گھبراہٹ اور پریشانی کہ ”اب کیا ہوگا۔“
اندر بیٹھی صحت مند سُرخ وسفید خاتون نے ان سب علامات کا مشاہدہ کرتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں وہی کہا۔جسکا اوپر ذکر ہوا ہے۔
چلو سانس تو ہموار ہوئی۔آدھ گھنٹے بعد آنے اور ٹکٹ لینے کیلئے کہاگیا۔
انگریزوں کی بنائی ہوئی چیزیں بولتی ہیں۔کتابوں کے سٹال پر انگریزی اخبار دیکھتے ہوئے میری نظریں گردوپیش کا بھی جائزہ لیتی جاتی تھیں۔
چھبیس 26 مصری پاؤنڈ کا ٹکٹ لیکر ہم اُس ریسٹورنٹ میں آکر بیٹھ گئے جہاں ٹی وی پر عربی گانے چلتے تھے لوگ باتیں کرتے اور قہوے کے کسیلے گھونٹوں کو چاہتوں سے حلق سے نیچے اُتارتے تھے۔

کمرے میں ایک انتہائی خوبصورت الٹرا ماڈرن خاتون داخل ہوئی۔میک اپ پہناوا اور حرکتیں سبھی کسی اے کلاس ایکٹریس جیسی۔ چین سموکر تھی۔پہلا سگریٹ بجھنے نہ پاتا کہ نیا جل جاتا۔
گاڑی مزے کی سیٹیں آرام دہ اوروقت کی پابند ساری خوبیوں سے مزین تھی۔قاہرہ اور اسکندریہ کے درمیان پہلی ریلوے کا انجینئر رابرٹ سٹیفنسن STEPHENSON جارج سٹیفنسن (بھاپ کے انجن کا موجد) کا بیٹا تھا۔چلو باپ کے کارناموں کو اولاد نے اور یادگار بنایا۔
راستے میں سنگتروں کے باغ تھے۔نارنجی مالٹے تھے۔ٹرین کی دونوں اطراف سبزے سے نہال تھیں۔پر گند بھی بڑا تھا۔دومنزلہ مکانوں نے کہیں آرائشی نیکلس پہن رکھے تھے کہیں اُنکے ماتھے بندی ٹیکوں سے سجے ہوئے تھے۔تاحد نظر گندم کی فصل اور بھینسوں کا چرنا کھجور کے درختوں کا بانکپن دیکھتے دیکھتے اور اسکے تاریخی اوراق کی ورق گردانی کرتے ہوئے ڈھائی گھنٹے گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔
اسکندریہ مصر کا دوسرا بڑا شہر بحیرہ روم کا موتی جسے سکندراعظم نے تعمیر کیا۔یہ بھی کیسی ستم زدہ بات تھی کہ اپنے نام پر تعمیر اپنے اِس شہرکو اِسے دیکھنے کا موقع کبھی ملاہی نہیں۔اسکندریہ پر کیا موقوف اُس نے اپنی زندگی میں اپنے نام پر ساٹھ سے زیادہ بننے والے شہروں میں سے کتنوں کودیکھا ہوگا۔اور کتنے یونہی اُسکی کی ایک نظر کے عشّاق دیدرہے ہونگے۔

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔اگر اسکی باریک بین نگاہوں نے اِس جگہ کی خوبصورتی اور محل وقوع کی اہمیت کو پل جھپکتے میں محسوس کرتے ہوئے اپنے آرکیٹکٹ ڈینو کریٹس کو شہر پلان کرنے کیلئے کہا۔تو وہیں فاتح مصر کے ساتھیوں نے اسکندریہ کو فتح کرنے کے بعد اسے دارالحکومت بنانے پر زور دیا پر مدینے میں بیٹھے ہوئے خلیفہ عمرؓ کی زمانہ شناس آنکھ نے بھی بطورکیپٹل سٹی کے اسکی موزونیت کو فوراً ردّ کر دیا۔
سکندر اعظم کی وفات کے بعد پٹولومی (سکندراعظم کا ایک سپہ سالار)خاندان نے تقریباً 300قبل مسیح تک یہاں حکومت کی۔انہوں نے فلاسفروں سائنس دانوں آرٹسٹو ں اور لکھنے والوں کو دوسری جگہوں سے لاکر یہاں بسا کر شہر کی اہمیت اُس کے حُسن اور اُس کی قدروقیمت کو دو چند کر دیا۔دوسو قبل مسیح تک اِسے دنیا میں ایک بڑے امیر ترین الٹراماڈرن شہر کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔اسکی خوبصورت عمارات یونیورسٹی لائبریری اور حیران کرنے والا لائٹ ہاؤس PHAROS جسکا شمار دنیا کے سات عجائبات میں سے تھا سب دنیا کیلئے باعث رشک تھے۔
پٹولومیز نے جزیرے PHAROS اور شہر کے درمیان ایک پُل بھی بنایا جس سے دو بندر گاہیں وجود میں آئیں جو آج کل مشرقی اور مغربی بندر گاہیں کہلاتی ہیں۔

دنیا کی شہرہ آفاق شخصیت قلو پطرہ پٹولومی اولے طیس کی بیٹی تھی جس کی شادی اسکے بھائی سے سترہ سال کی عمر میں اُسکی خواہش کے برعکس ہوئی۔ دس سال کا لڑکا اُس جیسی اقتدار کی ہوس میں ڈوبی بجلیاں گرانے والے حسن کی مالک اور زندگی کی رنگینیوں سے ہر لحظہ لطف کشید کرنے کی خواہشمند عورت کی ناک تلے آتا۔ہمسایہ مُلک کے رومن شہنشاہ جولیس سیزرکو حملے کی دعوت دے دی۔ نوٹ (جولیس کے بارے میں ایک غلط بات کا ازالہ ضروری ہے کہ وہ دنیا کا پہلا سیزیرین بچہ تھا۔ وہ خود نہیں بلکہ یہ اسکا قانون LEX CAESAREO یعنی LION OF CAESAREO تھا۔ صحت مند بچے کو ماں کا پیٹ چاک کر کے نکال لیا جائے۔اِس عمل میں ماں مرتی ہے مرجائے۔بچہ زندہ رہنا چاہیے۔ایسے تمام بچے سیزیرین برتھ سیکشن میں رکھے جاتے اور انکی بہترین تربیت ہوتی۔کیونکہ جولیس کو بہادر اور دلیر جنگجوؤں کی ضرورت تھی۔)
حملہ ہوا۔اسکا شوہر (بھائی بھی)مارا گیا۔ مصر رومن سلطنت کا ایک صوبہ بنا۔اِس حملے میں علم وآگہی کا گھر مشہور لائبریری جل گئی۔اور یہ بھی ہوا کہ قلوپطرہ جولیس کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔جولیس نے اُسے مصر کی ملکہ بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی بھی ملکہ بنایا روم لیکر گیا۔
چوالیس 44 قبل مسیح میں ایک رومن جرنیل مارک انتھونی نے مصر پر حملہ کر کے سیزر کو قتل کر دیا۔انتھونی بھی اُسکے بے مثل حُسن کا دیوانہ ہوا اور وہ بھی گھائل ہوئی۔شادی ہوئی انتھونی اُسکے ساتھ اسکندریہ آگیا۔پر رومنوں نے اِس عمل کو ناپسندہی نہیں کیا بلکہ اسکے خلاف صف آرا بھی ہوئے۔باقاعدہ فوج اور بحری جہازوں سے مقابلہ ہوا۔یہ بڑی خون ریز قسم کی لڑائی تھی جو یونان کے قریب لڑی گئی۔ دونوں کو شکست ہوئی۔ انکی موت کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں۔دونوں مارے گئے۔انتھونی لڑائی میں مرا اور قلوپطرہ نے واپس آکر خود کو سانپ سے ڈسوالیا۔دونوں واپس ا سکندریہ آئے اور خود کشی کر لی۔

پھر ایرانی شہنشاہ CHOSROS II نے اس پر حملہ کیا اور رومنوں کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کرلیا۔لیکن گوایرانی زیادہ عرصے تک شہر پر قابض نہیں رہے۔اور یہ ایک بار پھر رومنوں کے پاس تھا۔
643ء میں اسے مسلمانوں نے سپہ سالار حضرت عمروبن العاص کی زیر قیادت فتح کیا۔قاہرہ کے کیپٹل سٹی بننے سے یہ نظر انداز ہو کررُوبہ زوال ہوا۔نپولین ماڈرن خیالات رکھنے والے عالم لوگوں اور محمد علی پاشا کی آمد نے اِس شہر کو دوبارہ نئی زندگی دی۔نہر سویز کے کھلنے اور 1950ء کے مصری انقلاب نے اسکی گزشتہ شان وشوکت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔
تو وقت کے ہاتھوں اتنے چرکے کھانے۔بن بن کر بگڑنے اور بگڑ بگڑ کر بننے والایہ شہر بس کو ئی دم میں آیا چاہتا تھا۔کمپارٹمنٹ میں کھلبلی سی تھی۔ایک ہلچل مچی تھی۔

میں نے باتھ روم جانے کا سوچا کہ اُتر کر تو معلوم نہیں کتنی دیر لگے کوئی ٹھور ٹھکانہ ڈھونڈنے میں باتھ روم جانا بھی تو کسی عذاب سے کم نہیں۔بیگ میں رکھے ٹشو پیپروں سے پہلے کموڈ  کی صفائی کرو پھر فراغت کے مرحلوں سے گزرو۔جب اِس مشکل کام سے فارغ ہو کر آئی تو کمپارٹمنٹ میں ایک جوڑے کے سوا وہ دونوں بیگ شانوں پر لٹکائے دروازے کے پاس منہ اٹھائے میرے انتظار میں کھڑی تھیں۔مہرالنساء نے چلاتے ہوئے کہا۔
”گھر بنا لیتی ہوباتھ روم میں۔“
اور جیسے بھونچال آجائے۔ٹرین چل پڑی تھی۔
”میرے اللہ“ شیطان کی آنت جیسے لمبے کمپارٹمنٹ کے ایک سرے پرمیں اور دوسری انتہا پر وہ، دونوں  بھاگی قریب پہنچی۔گاڑی لمحہ لمحہ رفتار پکڑ رہی تھی۔
میں زور سے چلائی۔
”چھلانگ لگاؤ۔“
اور ثنا جو بیگ کندھے پر لٹکائے دروازے کی راڈیں پکڑے کھڑی تھی اسوقت ٹینی سن کے ان اشعار کی عملی تفسیربنتے ہوئے پلیٹ فارم پر پلک جھپکتے میں کود گئی۔
Their’s not to reason why Their’s but to do and die.
”میرے اللہ!“
اِن آنکھوں نے جو دیکھا وہ کلیجہ پیٹ لینے والا تھا اور وہ میں نے پیٹ لیا۔ ثنا پلیٹ فارم پر اپنے بیگ گاگلز ہیٹ اور جوتوں کے ساتھ بکھری پڑی تھی۔
کیا کروں کود جاؤں۔
رفتار میں تیزی آگئی تھی۔یوں لگا جسے کودی تو گٹے گوڈے ٹوٹ جائیں گے۔سٹیشن پر لوگ کھڑے دیکھتے تھے۔پر کسی نے کچھ نہیں کیا۔
جلے پاؤں کی بلی کی طرح پورے ڈبے میں ایمرجنسی زنجیر کی تلاش میں بھاگتی پھر رہی تھی لگتا تھا ہارٹ فیل ہوجائے گا۔پردیس جوان لڑکی۔پتہ نہیں کہاں کہاں چوٹیں آئیں۔نہ کوئی واقف نہ جاننے والا۔میرے معبود کیا غلطی ہوگئی ہم سے۔
پھر جیسے دو بازؤوں نے مجھے تھام لیا۔مجھے سینے سے لگا لیا۔
گھبرایئے نہیں یہ SIDI سٹیشن تھا۔آگے Mahatta Misr Stationہے۔مرکزی سٹیشن۔وہاں سے ٹیکسی مل سکتی ہے۔ٹرین میں ہی بیٹھ کر یہاں آسکتی ہیں۔
یہ وہ خاتون تھی جو ڈبے میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی تھیں۔بُرقع پہنے ہوئے۔جس نے بھل بھل بہتے میرے آنسوؤں کو صاف کیا۔
دونوں میاں بیوی تسلّی اور دلجوئی کے شیریں لفظوں سے میری پریشانی کے ازالے میں مصروف تھے پر میرا دل اُڑا اُڑا جاتا تھا۔بڑی خوفناک اور بھیانک تصویریں میرے سامنے آکر مجھے ڈرائے اورہولائے جارہی تھیں۔
گاڑی رکی تو جیسے میرے قدموں کو پہیے لگ گئے پر خاتون نے میرا ہاتھ تھام کر میری رفتار کو کم کر دیا۔
”حوصلہ رکھو۔“
مہرالنساء سامان اٹھائے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہتی جاتی تھی۔
”خداپر توکل رکھو۔“
باہر آئے۔ٹیکسی سٹینڈ کیطرف جانے والے تھے کہ عقب سے آوازیں آئیں۔ ”آنٹی آنٹی“ گھوم کر دیکھا۔ثنا بھاگی آرہی تھی۔
تشکر کے آنسوؤں نے اُسکی صورت دُھند لا دی۔بانہوں کے دائروں میں سمیٹ کر اُسکا منہ ماتھا چومتے ہوئے اُسکی خیریت دریافت کی۔اُسکی سمجھ داری اور ذہانت کو بھی سراہا کہ وہ کپڑے جھاڑ کر اُٹھی۔ فی الفور انکوائری آفس سے تفصیل جان کر ٹیکسی اُڑاتی ہوئی ہمارے پاس پہنچ گئی۔
اُس جوڑے کا شکریہ تہہ دل سے ادا کیا۔نکھری چمکتی دھوپ میں نیلے آسمان والے کابھی کہ جس نے ہماری تفریح کا پٹڑہ ہونے سے ہمیں بال بال بچا لیا۔

اب ذرا گردوپیش پر نگاہ ڈالی۔تو لاہور ریلوے سٹیشن سے ملتاجلتا پر صفائی ستھرائی میں ذرا اُس سے بہتر ماحول نظر آیا۔
بیگ کی سٹرپ ٹوٹ گئی تھی۔کسی موچی کی تلاش تھی۔کچھ کھانا مقصودتھا۔آنکھیں کسی طعام خانے کی کھوج میں تھیں۔ذرا اور آگے بڑھے تو چھوٹی پٹڑی پرٹرام چلتی نظر آئی۔جی چاہا اُچک کر اس میں بیٹھ جاؤں موچی نظر آگیا تھا۔منظر بالکل نو لکھا بازار جیسا لگا تھا۔ بیگ کو ثنا کی ہدایت پر مکمل خالی کر کے موچی کے حوالے کیا اور خود ایک قہوے کی دوکان میں آ بیٹھے تھے۔ ماحول میں قہوے کی چسکیاں تھیں دیوار پر آویزاں ٹی وی کی تیز گونج دار آوازیں اور شیشہ پیتے لوگوں کی باتیں۔
بیگ میں چیزیں واپس رکھتے ہوئے دفعتاً اندورنی زپ والی جیب پر نظر پڑی۔ یونہی کھول لیا اندر سو ڈالر کا نوٹ تھا جسے بدلوانے کے لیے صبح نکالا تھا۔
موچی نے کھینچ کر طمانچہ منہ پر ماراتھا۔ چھوٹے انسان بھی ایمان رکھتے ہیں۔
کھسیا کر میں نے بھی خود کا دفاع کیا۔ احتیاط اور حفاظت ضروری ہے۔ بعد کا پچھتاوا بے کار ہے۔
ذرا آگے ڈھیروں لوگ کُشری کھانے میں جتے ہوئے تھے۔ہم بھی جا شامل ہوئے۔کسی سے ہوٹل کا پوچھا۔اُس نے سیسل ہوٹل کی ڈھیروں خوبیاں گنوادیں۔سب سے بڑی بات اسکا سستا ہوناتھا۔

ٹیکسی میں مطلوبہ جگہ پہنچے تو اپنے سامنے سڑک پار تاحد نظر پھیلا سیاہی مائل نیلاسمندر دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔بے حس وحرکت کھڑے فطرت کے اس پُرہیبت اور جاہ وجلال سے بھرے منظر کو دیر تک تکتے رہے۔جب حواسوں میں آئے تو سیسل ہوٹل کی پُر شکوہ عمارت کو دیکھا۔عمارت کے بانکپن وجاہت اور محل وقوع کے ساتھ ”سستا بھی“ کچھ لگاّ نہیں کھاتا تھا پر جب ہمیشہ سے مدرسہ فکرمُلّا سبق نہ دیوے گاتے کَرنوں (گھر) وی نہ آن دیوے گا (یعنی ملّا اگر سبق نہیں دے گاتو کیا گھر بھی نہ آنے دے گا) جیسا ہوتو پھر منہ اٹھا کر دروازہ کھولنے اور پوچھ پڑتال میں کیا امر مانع تھا۔

بڑے طمطراق سے اندر گئی پر دو سو ڈالر کاسن کر منہ لٹکانے کی بجائے کہ جسکے کارن ہوئے بیمار اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں کے مصداق اب معقول ریٹ والوں کے اتے پتے کی دریافت بھی اُن ہی سے ہونے لگی۔
پیشانی پر ناگواریت کی ہلکی سی کوئی لکیر ڈالے بغیر رہنمائی کی گئی اب میرا شکریہ ادا کرنا تو واجب تھا۔پر یونانی حُسن سے مالامال دونوں لڑکے بھی کسی نسلی ماں باپ کے تخم تاثیر تھے خوبصورت انگریزی والے لب ولہجے میں احترام اور ادب کارچاؤ گھولتے ہوئے انہوں نے معذرت کی کہ سیسل ہوٹل اسکندریہ کا لینڈ مارک ہے۔1930ء میں بننے والے اس ہوٹل کے مہمان سمر سٹ ماہم SMERSET MAUGHAM اور ونسٹن چرچل رہے ہیں۔چرچل نے تو ملٹری آپریشنز کی نگرانی کیلئے اِسی ہوٹل میں لمبا قیام بھی کیا تھا۔
”ارے واقعی“ اس انکشاف پر میں نے مسرت بھرے لہجے میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
تب تو میں بڑی تاریخی جگہ پر کھڑی ہوں۔ ذرا سا پیچھے کیپری ہوٹل والوں سے لمبی چوڑی بحث کے بعد سو مصری پاؤنڈ پر کمرے کا حصول گویا میدان مارلینے کے مترادف تھا۔ہوٹل ابھی زیر تعمیر تھا چھٹے فلور پر کمرہ۔صبح کا ناشتہ گول۔ پر کمرے کی کھڑکی اور عقبی ٹیرس نے جو منظر دکھائے اُسکے پیش نظر ایسے ہزار ناشتے اُس پر قربان۔
کم خرچ بالانشین پر عمل ہوا۔سعد زغلول سکوائر سے ٹرام میں سوار ہوئے کہ شہر سے تھوڑا سا تعارف ہوجائے۔
بیٹھتے ہی لگا جیسے شہد کی مکھیوں کے نرغے میں آگئے ہوں۔پانچ خوبصورت تیزطرار لڑکیاں انگریزی سے نابلد پر سارے ماڈرن لوازمات سے لیس ثنا سے خصوصی اور ہم دونوں سے عموعی انداز میں یوں ملیں کہ جیسے زمانوں کی شناساہوں۔زبان کی دشواری کوجس چر سے حل کیاگیا اپنے منگیتروں کے احوال بڑی خوبی سے بیان کر گئیں۔پتے اور فون بھی ثنا کو تھما دیئے۔کل شام گھر آنے کی پر زور دعوت پر بھی اصرار ہوا۔
عجیب سی بات تھی۔جب ہم ابوعباس سکوائر پر اُترے ہمیں محسوس ہواتھا جیسے اپنے ہی لوگوں سے ملے ہیں۔
عمارتوں کے حسن ودلکشی کو ایک طائرانہ نگاہ نے بھی جان لیا تھا۔کچھ کا طرز تعمیر انفرادیت کے رنگ لئے ہوئے تھا۔صاف ستھری سڑکیں لوگوں اور سیاحوں کے پُروں سے بھری ہوئیں۔ سہ پہر کی دھوپ خوشگوارتھی اور سمندر کا کنارہ تھا ہم کشادہ سی پست قامت دیوار پر بیٹھے اپنے سامنے بکھرے سمندر کو دیکھتے تھے۔مشرقی بندرگاہ کے شمالی سرے پر سلطان قطبی کا قلعہ سکندریہ کے ایک امتیازی نشان کے طورپر دکھائی دیتا تھا۔عمارت کی چوٹی پر نصب مصر کا قومی جھنڈا ہواؤں سے پھڑ پھڑا رہا تھا۔مشرقی ساحلی حصہ چھوٹی بڑی کشتیو ں لانچوں اور اُن میں سوار لوگوں کے ہجوم سے سجا ہواتھا۔ایک چہل پہل زندگی سے پرُ نظارے بصارت کو تحیر آمیز سی مسرت سے آشنا کرتے تھے۔


جہاں آج قلعہ ہے وہاں کبھی دنیا کا ساتواں عجوبہ لائٹ ہاؤس تھا۔پٹولومی II کا تعمیر کردہ جسکے ایک سو اسّی180 فٹ بلند میناروں میں ہمہ وقت آگ جلتی اور بڑے بڑے شیشوں میں سے منعکس ہوکر پچاس کلومیٹر دوری پر سفر کرتے جہازوں کو راستہ دکھاتی۔1303ء اور 1362ء کے زلزلوں میں اُسکا بہت سا حصہ تباہ ہوا اور پھر اسی پر مصر کے حکمران نے قلعہ تعمیر کروایا۔
ثنا تصویر کشی میں مصروف تھی۔مہرالنساء کسی لڑکی سے باتیں کر رہی تھی۔اور میں سمندر کی وسعتوں میں اُن کرداروں کو جو اسکی سرکش لہروں کا سینہ چیرتے مختلف وقتوں میں اسکے ساحلوں پر اُترے اور تاریخ میں درج ہوئے۔اپنے سامنے خیالی پیکروں میں دیکھتی تھی۔
اور جب ہواؤں میں تیزی اور خنکی بڑھی۔دھوپ نے رخصت چاہی ہم تینوں کھڑی ہوگئیں میں مسجد ابوعباس میں مغرب کی نماز چاہتی تھی۔دونوں نے بتایا کہ وہ دوکانیں دیکھیں گی اور پھر مسجد کے سامنے کھلے میدان میں آجائیں گی۔
بڑاخوبصورت چوک تھا۔سبزہ کھجور کے درخت۔اطراف میں شاندار دوکانیں میں مسجد کے سامنے کھلے میدان میں آگئی۔خیرالنساء میدان۔سامنے قوالی ہورہی تھی۔مردوں سے بھرا ہوا پنڈال۔اوہو مجھے یاد آیا تھا۔ربیع الاول نبی پاک کی ولادت سعید کا مہینہ۔یہ اہتمام اسی سلسلے کی کڑی تھی۔مائیک پر پڑھی جانے والی نعت عربی کے باوجود میری سمجھ میں آ رہی تھی۔
مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر سے بڑی منفردلگی۔کتابچہ کھولا اور پڑھا۔
1219ء اانڈولوسیہ ANDALUSIA سپین کے ایک قصبے میں اِس عالم دین کی پیدائش ہوئی۔حج کرنے گئے تو جہازتنسیہ Tunsia کے قریب غرق ہو گیا۔خدا نے انہیں بچا لیا۔تیونس میں اسلام کی تعلیمات کا آغاز کیا۔یہیں انکی ملاقات ابوالحسن شازی سے ہوئی 1248ء میں ابوالحسن نے اسکندریہ کو اسلامی تعلیمات کیلئے منتخب کیا۔ابوعباس بھی انکے پاس آگئے۔انکی بیٹی سے شادی بھی کی۔
1767ء میں الجریا کے لوگوں نے ابوعباس کو خراج پیش کرنے کیلئے ایک مسجد بنائی۔1940ء میں بننے والی اسکندریہ کی یہ مسجد اُسی کے نمونے پر تعمیر کی گئی۔
خواتین والے حصے میں داخل ہوئی تو عورتیں بھری پڑی تھیں۔اس اجنبی چہرے کوجو ایک عجیب سے لباس میں ملبوس تھا کو سبھوں نے ایک پل کیلئے حیرت سے دیکھا۔پر میری زوردار آوازمیں اسلام وعلیکم کچھ بے تکلفی اور مانوسیت پیدا کرنے کا باعث ہوئی۔


قالین پر بیٹھ کر میں نے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں۔مسجد ستونوں پر کھڑی تھی جو اوپر جا کر چوڑی محرابیں بناتے تھے یہ اُبھری ہوئی کندہ کاری سے مزین تھیں۔فانوسوں کا سٹائل ترکی کی مسجدوں جیسا اور چھت کا درمیانی حصہ ہشت پہلو تھا۔جب میں میدان میں کھڑی اسکا جائزہ لیتی تھی۔مجھے اسکے چار گنبدوں کی ساخت بڑی منفرد سی لگی تھی اور مینار صرف ایک نظر آیا تھا۔ ڈیوٹی پر بیٹھا پولیس والا انگریزی سے خاصی شناسائی رکھتا تھا۔میں پاکستان سے ہوں۔اسکی خوشی قابل دید تھی۔اور یہ مجھے اسی سے پتہ چلا تھا کہ مسجد انڈو لوسین Andalusianسٹائل کی ہے۔ مسجد کے کنگورے دروازوں کے اوپر جالی دار ڈیزائن اور رنگ وروپ سب زبردست تھے۔
مغرب کی نماز کیلئے سرجھکایا تو میرے آنسونکل آئے۔پتہ نہیں آنکھیں بھیگتی ہی جارہی تھیں۔بہت دیر بعد مسجد سے نکلی۔میدان النساء میں جیسے میلا لگا ہوا تھا۔ایک شادی شدہ جوڑا سلام کیلئے آرہا تھا۔ساتھ ہی بازار تھا ابو عباس بازار۔انڈیا انڈیا کی پکار ہوئی۔پر پاکستان کا سن کر فوراًخوشی کا اظہار ہوا۔اسلام کا نعرہ لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو ابھی اتنی سی رمق باقی ہے۔اور خدا کیلئے کیا مشکل ہے اِس خاکستر کو چنگاریوں میں بدلنا۔
بازار میں ہی اُن دونوں سے ٹکراؤ ہوگیا۔الّم غلّم کی خریداری میں ہلکان ہوتی پھر رہی تھیں۔

 

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply