• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بشار الاسد کا استقبال کرتے محمد بن سلمان/ڈاکٹر ندیم عباس

بشار الاسد کا استقبال کرتے محمد بن سلمان/ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا ممکنات کی جگہ ہے اور یہاں کوئی بھی بات کرتے ہوئے الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری سو فیصد یقین کے ساتھ کی گئی بات کچھ ہی عرصے بعد حالات تبدیل ہوں اور وہ سو فیصد غلط ثابت ہو جائے۔ پچھلے بارہ سالوں میں کوئی تین امریکی صدور، وزرائے خارجہ، سعودی وزرائے خارجہ، محمد بن سلمان سمیت بڑے بڑے عہدیداران، قطر اور ترکی کے رہنماء بار بار یہ گردان کرتے رہے کہ شامی صدر کو جانا ہوگا اور اب شام کے مستقبل میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ان بڑے بڑے رہنماوں میں بہت سے جا چکے اور اب تاریخ کا حصہ بن گئے، مگر بشار الاسد اب بھی اپنی جگہ پر کھڑا ہے اور وہیں دمشق میں اپنی عوام کے درمیان موجود ہے۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ وہی سعودی عرب جس نے بڑے تحکمانہ انداز میں اپنی پوری سفارتی مشینری لگا کر شام کو عرب لیگ سے نکلوایا تھا، اب وہ پوری مشینری لگا کر شام کو واپس عرب لیگ میں لایا ہے اور قاہرہ اجلاس سعودی عرب کی وجہ سے کامیاب رہا۔ جس طرح محمد بن سلمان نے بشار الاسد کا استقبال کیا ہے، حیران کن لگتا ہے۔

اس استقبال کی گرمی یہاں بھی محسوس کی گئی، کچھ فرقہ پرستوں کو یہ لگتا تھا کہ شام کی جنگ شائد کسی فرقہ کے خلاف یا حمایت میں ہے، اس لیے وہ پچھلے گیار سال سے بشار کو گالیاں نکال رہے تھے اور اب استقبال دیکھ کر ان کی حالت خراب ہوگئی ہے۔ ہم نے مسلسل اس موضوع پر لکھا کہ شام کا مسئلہ کسی بھی طرح سے فرقہ ورانہ نہیں ہے، شامی عوام کی دشمن قوتیں اسے صرف بھرتیوں کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ اب عربوں اور بالخصوص سعودی عرب کو لگا کہ اس کی خارجہ پالیسی فیل ہوچکی ہے تو اس نے امن کے نعرے کے ساتھ نئی پالیسی اختیار کی ہے، جس کا آغاز ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے ہوا ہے۔ اندر کی بات یہ بھی کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ ہم شام میں مکمل شکست کھا چکے ہیں، اس سے پہلے کہ شام کی عوام ہمیں ایک مستقل دشمن کے طور پر دیکھے اور وہاں مکمل طور پر ایران کا اثر و رسوخ قائم ہو جائے، شام سے صلح کر لینی چاہیئے۔ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے، ہم بھی بطور پاکستانی ہر مسئلے کو جذبات کی نذر کر دیتے ہیں، ہمیں اس حوالے سے اپنے مفادات کو جاننا ہوگا اور اہمیت دینا ہوگی۔

ویسے یہ عرب لیگ کا جدہ میں بتیسواں اجلاس تھا، جس میں بشار الاسد شریک ہوئے ہیں۔ 2011ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شام عرب لیگ میں شامل ہوا ہے۔ بشار الاسد نے اس موقع پر بڑی اہم باتیں کیں، کہا کہ شام ہمیشہ عرب دنیا کا رہے گا، عرب ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر ملک کے اندرونی معاملات کو ملک کے عوام پر چھوڑنا ضروری ہے، کیونکہ وہ اپنے معاملات خود سنبھالنے کے قابل ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شامی باغیوں کی حمایت کی اور ترک افواج کو شمالی شام میں بھیج دیا ہے، بشار الاسد نے اسے توسیع پسند عثمانی فکر کے خطرے سے تعبیر کیا اور اسے اخوان المسلمون سے متاثر قرار دیا۔ شامی صدر نے کہا کہ عرب دنیا میں موجود دراڑیں تنازعات کی اصل وجہ ہے۔ عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو روکنا ناگزیر ہے۔

تجزیہ کار یہ درست کہہ رہے ہیں 22 رکنی عرب لیگ میں شام کی دوبارہ شمولیت اس بات کا مضبوط اشارہ ہے کہ بشار الاسد کی تنہائی ختم ہو رہی ہے، علاقائی ممالک یہ جان چکے ہیں کہ بشار الاسد ابھی کہیں جانے والے نہیں ہیں۔ یہی بات مغرب کے ساتھ متصادم ہے، کیونکہ مغرب ہر صورت میں بشار الاسد کو نکالنا چاہتا ہے۔ ایم بی ایس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ شام کی عرب لیگ میں واپسی اس کے بحران کے خاتمے کی طرف لے جائے گی۔ اسلامی جمہوری ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے عرب لیگ میں شام کی کامیابی اور نشست دوبارہ حاصل کرنے پر شامی حکومت اور عوام کو مبارکباد دی۔ مشہور صحافی احلبارا نے کہا یہ ایک دور کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز ہے، مزید کہا کہ جب بہت سے عرب ممالک نے شامی اپوزیشن کا ساتھ دیا، اپوزیشن کو اہم فوجی اور سیاسی مدد فراہم کی، اب اس کے برعکس ہوگا، یہ ممالک بشار الاسد کے ساتھ ہوں گے۔

الجزائر کے وزیراعظم ایمن بن الرحمٰن نے سربراہی اجلاس کی افتتاحی تقریر میں کہا کہ میں شام کو اس کے بھائیوں کے درمیان اس کی نشست پر واپس آنے پر خوش آمدید کہنا چاہوں گا۔ متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے ٹویٹ کیا کہ شام کی دوبارہ شمولیت ایک مثبت قدم ہے اور متحدہ عرب امارات علاقائی خوشحالی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مثبت کردار اور شراکت داری پر یقین رکھتا ہے۔ کچھ ممالک نے شام کی اس سفارتی کامیابی کی مخالفت کی، ان میں امریکہ، قطر اور کویت شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے شام کی عرب لیگ میں واپسی کی مخالفت کی۔ کہا کہ ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ شام کو اس وقت عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا حق حاصل ہے اور یہ ایک نکتہ ہم نے اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ واضح کر دیا ہے۔ قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی اپنے ملک کے وفد کی قیادت کرنے کے بعد جدہ سے روانہ ہوئے، قطر کے امیر دیوان کا بیان جب بشار الاسد خطاب کر رہے تھے، میڈیا کو تقسیم کیا اور انہوں نے عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب نہیں کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قطر اور ترکی کی بڑی انویسٹمنٹ ضائع ہوئی ہے اور انہی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کا اثرا زائل ہونے میں کچھ وقت تو بہرحال لگے گا اور امریکہ تو ہر اس عمل کے خلاف ہے، جس میں مسلمان ممالک سے جنگ و جدال ختم ہو اور وہ پرامن انداز میں باہمی روابط کو بڑھائیں۔ جس تیزی سے خطے کی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، لگ یوں رہا ہے کہ ہر کسی کو جلدی ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز داخلی سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے، اس گیمر چینجر زمانے میں بڑی حکمت اور دانش کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اردگرد بہت سے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور بہت سے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں۔ اگر عقلمندی کا مظاہرہ نہ کیا اور درست فیصلے نہ کیے تو شائد اگلا پالیسی شفٹ آنے میں چالیس سال ہمیں انتظار کرنا پڑے، جس کے لیے ایک نسل اسی طرح ملک کو ڈیفالٹ سے بچاتے بچاتے گزر جائے گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply