جمہوریت سے بادشاہت کب ختم ہو گی

جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے۔اور آج تلک ایک ہی تمنا رہی کہ کاش ہمارے ملک میں بھی جمہوریت کامل ترین شکل میں نمو پذیر ہو۔مگر جانے کب تلک یہ انتظار ہمارا مقدر رہے گا۔ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہی جمہوریت ہے۔ویسے تو مسائل کا انبار ہے ۔مگر ان تمام مسائل کے خاتمے کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے۔مسلمانوں کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہےکہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور اس وقت سے آج تک ہمیں جمہوریت نصیب نہیں ہوئی۔انتقال اقتدار کے لیے انسانی خون کو پانی کی طرح بہایا گیا۔عوام کی رائے کو کبھی اہمیت نہ مل سکی۔بادشاہت ہمارا مقدر ٹھہری۔
ماضی کا سفر کرتے ہوئے اپنے خطے برصغیر کو ہی دیکھ لیجئے ۔انگریزوں کی آمد سے قبل مغلیہ بادشاہت قائم تھی،اور مغلوں میں اقتدار کے حصول کے لیے کس قدر خون ریزیاں برپا کی گئیں ۔نیکی اور پارسائی کے پیکر اورنگ زیب عالمگیر نے اقتدار کے حصول کے لیے اپنے حقیقی باپ کو زنداں میں ڈال کر قید تنہائی میں رکھا۔سگے بھائی قتل کیے۔حتیٰ کہ ان کی اولاد تک کو نہ بخشا۔چن چن کر مخالفین کا صفایا کیا۔اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی زندگی میں نہ کوئی نماز چھوڑی نہ بھائی زندہ چھوڑا۔مگر طاقت کے بل بوتے پر حاصل کردہ اقتدار کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ہر عروج کی انتہا زوال کا آغاز ہوتی ہے۔
جب عروج اپنی انتہا پر پہنچ جاتا ہے ۔عین اسی لمحے زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔عوام کے شعور کو بادشاہت پنپنے ہی نہیں دیتی۔بادشاہت میں حکمران مطلق العنان ہوتا ہے۔جوابدہی کے خوف سے بے نیاز ۔لہٰذا عوام کی مشکلات اور مسائل کے ادراک کی ضرورت ہی نہیں ۔نتیجے کے طور پر محرومیوں کا شکار عوام غربت کی چکی میں پس کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے پاک ہو جاتی ہے۔عوام میں سے چند ابن الوقت بادشاہ سلامت کا قرب حاصل کرکے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں جت جاتے ہیں ۔اور باقی عوام خوئے غلامی کی عادی ہو جاتی ہے۔ماضی کے جھروکوں سے حال تک سفر کریں صورتحال جوں کی توں ہے۔صدیوں پہلے بھی یہی حال تھا اب بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے ۔
اب آج کے زمانے میں بادشاہت کی جگہ جمہوریت آ چکی ہے ۔مگر نام کی حد تک۔ جمہوریت کی اصل روح ناپید ہے۔خود کو جمہوری حکمران کہلانے والے حقیقی طور پر بادشاہت کو ہی قائم رکھے ہوئے ہیں ۔پاکستان میں پانامہ کا ہنگامہ ایک سال سے تھا ۔بلاشبہ ایک شخض کی استقامت کی بدولت نام نہاد جمہوریت کے نام لیوا حکمران اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار بری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں ۔پاکستان میں پانامہ لیکس کے بعد بادشاہ سلامت کے وزیربا تدبیر جو کہ خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہتے ہیں ۔انتہائی رعونت آمیز لہجے میں پارلیمنٹ میں گویا ہوئے۔لوگ پانامہ کو بھول جائیں گے۔مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ایک شخض کی ثابت قدمی اور انتھک جدوجہد نے اس ایشو کو بھولنے نہیں دیا۔آغاز میں ہر جمہوری طریقہ استعمال کیا مگر بادشاہت والی جمہوریت نے ہر قدم پر روکاوٹیں ڈالیں ۔
پھر عدالت کے دروازے پر دستک دی گئی۔بادشاہ سلامت نااہل ہوئے۔تو اب بادشاہی جمہوریت کے حامل حواری اور ان کے آقا جمہوریت کے لٹنے کی دہائی دے رہے ہیں ۔جبکہ جمہوریت تھی کہاں جو لٹ گئی۔چند مفاد پرست افراد کا گروہ جو جمہور کی آواز کو سننے سے مکمل عاجز تھا ۔اب جمہوریت کے لٹنے کا واویلا کر رہا ہےوزیر اعظم کی نا اہلی سے بھی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق نافذالعمل تو کرو۔ بادشاہت کو جمہوریت سے نکالو تو سہی ۔جمہوریت کا معیار ملاحظہ ہو عوام کے منتخب کردہ ایک سو پچاس سے زیادہ نمائندوں کے باوجود بادشاہ سلامت نے اپنے بھائی کو نامزد کیا ہے۔پھر کاہے کا رونا دھونا کیا جا رہاہے ۔جس دن جمہوریت بادشاہت سے پاک ہو گئی ۔جمہوریت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گی۔لہٰذا ذہنی بلوغت اختیار کرتے ہوئے ،سب کو اس بادشاہت پر مبنی جمہوریت کو خالص جمہوریت بنانے کی جدوجہد میں شریک ہونا ہو گا۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”جمہوریت سے بادشاہت کب ختم ہو گی

Leave a Reply