ذلیل

گرمیوں کا ایسا ہی موسم تھا جب ہم تینوں مظفرآباد اترے۔ آگے کیسے جانا تھا، یہ ابھی معلوم نا تھا کیونکہ بارہ سال سے آگے کوئی گیا ہی نا تھا۔
لاہور میں گرمی پڑتی ہے تو باپ کی کمائی پر عیش کرتے ہر نوجوان کو سیاحت کا شوق چراتا ہے۔ اب اگر آپ نے تارڑ کو نہیں پڑھا تو مری جائیے اور اگر شومئی قسمت سے پڑھ چکے تو ان مقامات کو جائیے جہاں کوئی نہیں جاتا۔ ایسی ہی کسی تپتی دوپہر واصف نے کہا، “لو بھئی نیلم کھل گئی ہے”۔ میں نے فورا دماغ میں وہ نیلم لانے کی کوشش کی جو کھل گئی تھی مگر کچھ یاد نا آیا۔ سمیع نے حسب معمول اسے گالی دیتے ہوئے کہا “کہڑی تیری ۔۔ نیلم” اور واصف نے حسب عادت دھیمے سے کہا “وادی نیلم”۔ واصف ہمارا “انکشافی” تھا۔ ہر دو چار ہفتے بعد کوئی ایسا انکشاف کرتا تھا جو اکثر غلط ہوتا تھا اور سمیع اور مجھ سے سخت سنتا۔ مگر اس بار وہ صحیح تھا۔ مشرف کی کشمیر ڈپلومیسی کے نتیجے میں ایل او سی پر حالات بہتر ہوے تھے اور بارہ سال بعد وادی نیلم کو امن نصیب ہوا تھا، سیاحت کھول دی گئی تھی۔ چنانچہ ایک ہفتے بعد پیٹھوں پر رک سیک ڈالے ہم مظفرآباد تھے۔
مظفرآباد میں پوچھنے پچھانے پر معلوم ہوا کہ اگر “اصلی کشمیر” کی جھلک دیکھنی ہے تو “تاؤ بٹ” جائیے وگرنہ باقی تو بس روڑا کوڑا ہے کشمیر کا۔ جائیں کیسے؟ اسکے جواب میں ایک سابقہ جہادی حال پرچون فروش نے اک پرچی پر ہم کو نقشہ سا بنا دیا۔ صاحبو یا تو نوجوانی ہوتی خوبصورت ہے یا وادی نیلم ہے ہی جنت نظیر۔ کیرن، کیل، شاردا اور پھر تاؤ بٹ؛ یوں لگتا تھا جیسے ہم فان خاخ کی کسی پینٹنگ کا حصہ ہیں۔ رات سوتے تھے تو دریائے نیلم کانوں میں گنگناتا تھا، جاگتے تھے تو سبز پہاڑ بانہوں میں بھر لیتے تھے۔ بہت برسوں بعد جولیا نے اک دن مجھ سے پوچھا کہ تم نے اپنی زندگی کی سب سے خوبصورت لڑکی کون دیکھی۔ بلاتامل میں نے کہا کہ وادی نیلم میں “شاردا ودیا مندر” کو جاتی پگڈنڈی پر ملی اک لڑکی جو لکڑیاں کاٹ رہی تھی اور اجنبیوں کو دیکھ کر اک لمحے کو رکی اور مسکرائی۔ میرا تمام تر تصور حسن پسینے میں بھیگی اس محنت کش لڑکی کی مسکراہٹ میں آج تک قید ہے۔

مگر یہ سفر فقط فطرت اور انسان کے حسن کا ہی شاہد نہیں بنا۔ اسی سفر میں ہم نے غربت اور لاچاری کی وہ شکل دیکھی جو کسی پاکستانی کمیونسٹ کی کتاب میں بھی نا تھی۔ گھر تھے جو لاہور کی نہر سے ارض والے نیلم کے پار سے آئی بھارتی گولیوں سے چھلنی تھے۔ اک ٹوٹی ہوئی سڑک تھی جس پر بس چلتی کم اور کنکروں پر پھسلتی زیادہ تھی۔ مکین بتاتے تھے کہ بارہ سال وہ اس سڑک پر رات میں ٹارچ کی روشنی میں بس چلا کر سفر کرتے تھے کہ دن میں سامنے بیٹھے کسی منچلے بھارتی فوجی کی فائرنگ موت کا پیغام بن سکتی تھی۔ جگہ جگہ ایجنسیوں کی تفتیش بھگتے ہم کیل پہنچے تو اس سے آگے کوئی بس نہیں جاتی تھی۔ نتیجتا تاؤ بٹ تک کا سفر ہم نے پیدل کیا۔ آخری دوکان کیل سے کچھ آگے اک چھپڑ تلے تھی اور اس میں موجود سامان شاید ہم تینوں کے بیگز میں آ جاتا۔ مہمان نواز لوگ گھر ٹھہرانے کی دعوت دیتے تھے تو دل تشکر سے بھر جاتا تھا مگر اس خوف سے نہیں رکتے تھے کہ ناجانے یہ مہمان کی روٹی کا بندوبست کیسے کر پائیں گے۔ کاش میں وہ شکوے اور وہ داستانیں بیان کر سکتا جو وہاں کے کشمیریوں سے سنیں مگر بہت سی باتیں اپنی تمام تر بہادری کے باوجود کہنا میرے لئیے ممکن نہیں ہے کہ میرے وطن کے لوگوں کی حسّںِ حب وطن بہت نازک ہے۔ بس اتنی عرض ہے کہ اِس پار کے کشمیری کم سہی مگر مظلوم اور مجبور اُس پار والوں کی طرح ہی ہیں۔ مگر اسکے باوجود وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور تمام سختیاں اس آزادی کے خواب کی خاطر برداشت کر رہے ہیں جسکی تعبیر کئی نسلوں سے پریشاں ہے۔
راجا فاروق حیدر نے پریس کانفرنس میں جو کہا قابل مذمت ہے۔ مگر ان سے منسوب کشمیر کے مستقبل کے متعلق بیان کی وہ تردید کر چکے تھے اور عمران کے جلسے سے قبل یہ تردید ہر چینل پر چل چکی تھی۔ جنگ گروپ نے حسب عادت اک فتنہ انگیزی کی جس کا وہ بروقت جواب دے چکے تھے۔ ایسے میں جلسے میں ایک بڑی برادری اور قابل احترام خاندان کے عوامی نمائندے کو ذلیل کہنا اسکی پوری برادری اور اسکے ووٹروں کی تذلیل تھی اور نہایت غیرضروری۔ آپ نے شاید ادلے کا بدلہ حب وطن کے پردے میں دیا مگر بھول گئے کہ “قومی لیڈر” کی برداشت اس قوم کے عام شخص سے زیادہ ہونی چاہیے۔ کشمیر کی نئی نسل میں بے چینیاں بھی ہیں، بدظنی بھی اور اپنے مستقبل کے خواب وہ اسلام آباد کے کسی کلرک بابو کی دی عینک سے دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ پاکستان سے محبت انکے خون میں ہے مگر غلامی کی قیمت پر وہ پاکستان بھی برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ سوشل میڈیا نے جہاں پاکستان کے نوجوان کی سوچ بدلی ہے وہاں کشمیر کا نوجوان بھی اپنے بزرگوں سے بہت مختلف سوچتا ہے۔ ایسے میں کوئی غیر محتاط قدم یا لفظ انکو پاکستان سے دور کر دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محترم عمران خان، میں آپکا ووٹر ہوں۔ مگر میں، آصف محمود، محسن حدید یا وقار قریشی، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے سیاسی کارکن نہیں ہیں جو لیڈر کو بھگوان مان کر پوجا کریں۔ ہم آپکے غلط کو غلط ہی کہیں گے۔ ہمیں کپتان پیارا ہے، مگر کشمیر اور پاکستان سے زیادہ نہیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ذلیل

  1. شکریہ انعام رانا صاحب. ہمیں پاکستانیوں سے محبت ہے اور ایسی ہی محبت کی توقع بھی ہے. شعور سے عاری گالیاں دینے والے فاشسٹ صرف نفرتیں پھیلا سکتے ہیں. آپ جیسے لوگوں نے ہی نفرت کے ان بیوپاریوں کے منہ بند کرنے ہیں ، اگر آپ نے یہ فریضہ ادا نہ کیا تو شاید بہت دیر ہو جائے.

  2. بصد احترام اختلاف ھے، کشمیریوں یا ان کے حامیوں کی دل آزاری مقصود نہیں بلکہ اپنے اور بہت سے دوسرے پاکستانیوں کے خیالات کے تحفظات کا اظہار ھے کہ بس بہت ھو گیا کشمیر کشمیریوں کا ھے اور پاکستان پاکستانیوں کا۔یہ مسئلہ پاکستان کے ساتھ جونک کی طرح چمٹا ھوا ھے جس سے ھمیشہ سوائے نقصان کے ملک نے کچھ حاصل نہیں کیا یہ معاملہ اب ھمارا نہیں رھا، کشمیر کی موجودہ نسل جس طرح سوچتی ھے انھیں اس سوچ پر چلنے دیا جائے وہ آزادی حاصل کریں خود مختیار ھو جائیں پاکستان انھیں سب سے پہلے تسلیم کرنے کو تیار ھے لیکن ھمارا ملک کشمیر سے علیحدہ ھے اور ھمیں صرف اس کی ھی بہتری کے لئے سوچنا اور عمل کرنا چاھئے، آزاد کشمیر کو بھی اب اپنے پیروں پر کھڑے ھوجانا چاھئےورنہ اسے پاکستان میں ضم کر کے صوبے کا درجہ دینا چاھئے۔ جس طرح ریاست جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن ھمارا نہیں ھے اسی طرح جموں کشمیر بھی ھمارا نہیں ھے ھم یہ بات جتنی جلد سمجھ جائیں اتنا اچھا ھے ورنہ مرغے کی ایک ٹانگ۔:)

  3. ایک انتہائی خوبصورت، دل سے نکلی ہوئی اور حسبِ حال تحریر۔
    واللہ سارا کشمیر جنت نظیر آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔
    اللہ سوہنا ان پیارے کشمیریوں کو ہمت، طاقت اور استقامت دے اور ان نکمے سیاست دانوں کو عقل دے۔

  4. واقعی پچهلے ایک سال میں 3بار نیلم جانا ہوا، ایک بار تائوبٹ تک بهی گیا، سبحان للہ کیا خوب نظارے تهے، اڑنگ کیل کا تو جواب ہی نہیں

Leave a Reply