پاکستان تمہارے باپ کا تو نہیں!

خدا کی قسم یہ ملک دنگہ فساد پھیلانے کے لئےنہیں، اسے مٹانے کے لئے بنا تھا۔
یہ ملک مخدوموں کے لئے نہیں خادموں کے لئے بنا تھا۔
یہ سیاسی ڈراموں کے لئے نہیں فلاحِ عامہ کے لئے بنا تھا۔
یہ دکھ دینے کے لئے نہیں، دکھ سہنے کے لئے بنا تھا۔
یہ محبتیں پھیلانےوالا ملک تھا۔
یہ وہ ملک تھا جہاں ڈاکیا خط کا متن بدل دیتا تھا کہ کہیں بڑھاپے میں ماں کی آس نہ ٹوٹ جائے۔
یہ وہ گلستاں تھا جہاں بیٹی محبت چھوڑ دیتی تھی کہ کہیں باپ کو بڑھاپے میں طعنہ نہ پڑ جائے۔
یہ ان جوانوں کی سرزمین تھی جو میدانِ کارساز میں نکلنے سے پہلے ماوں سے وعدہ لیتے تھے کہ میرے لاشے کی بے حرمتی نہ کرنا۔
جہاں باپ اپنے بیٹے سے کہتا تھا زخمی پیٹھ کے ساتھ لوٹنے سے بہتر ہے چھاتی چھلنی کروا لینا۔
یہ محبتوں کے سمندر میں ڈوبا وہ خطہ تھا جہاں آپ رات کے آخری پہر دروازہ کھٹ کھٹاتے تو مالکِ مکان گھر والوں سے کہتا ہے دسترخوان لگاؤ ، اللہ کا مہمان آیا ہے۔
جہاں لوگ مہمان کے نہ آنے پر توبہ کرتے تھے کہ کہیں سوہنا رب ناراض تو نہیں ہوگیا۔
جہاں استاد معمولی تنخواہ پر صرف یہ سوچ کر قناعت کرلیتے تھے کہ اگر یہ پڑھ لکھ گئے تو قوم کا مستقبل سنور جائے گا۔
جہاں بچے شادی کے بعد بیوی سے کہتے تھے میرے ماں باپ کا حق مجھ سے پہلے رکھنا۔
جہاں بیویاں خاوند کے ساتھ ساتھ ساس سسر کو راضی رکھنے کی جتن کیا کرتی تھیں۔
جہاں پوتے کہتے تھے دادی آپ کہانی کب سنائیں گی؟
جہاں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی وصیت کرتے تھے وطن کی مٹی میں آسودہ خاک کرنا۔
جہاں لوگ کہتے تھے خدا گواہ ہے اور سودے ہوجاتے تھے۔
جہاں لوگ سیرت کو صورت پر مقدم رکھتے تھے۔
غیر مرد “میری بہن” کہنے کے بعد حقیقی بھائیوں سے زیادہ بہنوں کا مان رکھتا تھا۔
جہاں لڑکے وزن پورا دکھانے کےلئے جیبوں میں پتھر ڈال لیتے کہ کاش ہمارےخون کا قطرہ کسی کی زندگی بچالے۔
یہ وہ پاکستان تھا جس کے کروڑوں باسیوں نے کہا تھا” ہم پتھر باندھیں گے لیکن ایٹم بم بنائے گے”
جس کے وزیرِ اعظم نے اپنی کرسی اس ایٹم بم کی حفاظت کے لئے قربان کردی تھی۔
یہ وہ پاکستان تھا جہاں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کےتحفظ کے لئے تاریخ کی سب سے بڑی مہم چلی۔
جس کے شہریوں نے جیلیں قبول کیں، جانیں نچھاور کیں لیکن آقا کی ناموس پر آنچ برداشت نہ کی۔
آؤ سیاسی اداکارو! میڈیا کے فنکارو!
کبھی اس پاکستان کو بھی ڈھونڈ نکالو!
کبھی اس پاکستان سے بھی ملادو۔
کبھی محبتوں کے وہ سر سنا دو۔
کبھی الفتوں کے دیپ جلادو۔
لو مدھم ہے لیکن بجھی نہیں ہے
آواز پست ہے لیکن بکی نہیں ہے۔
مٹی پڑی ہے اوراق پر
سنو ساتھیو!
ابھی بھی خیر شر پر غالب ہے۔
ابھی بھی یہاں بھائی اپنا حصہ صرف اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ “اس نے تو کل چلی جانا ہے”۔
بہنیں کہتی ہیں بھائی تم فریش ہوکر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔
ابھی بھی بچے جھگڑا ہونے پہ کہتے ہیں”لڑائی جھڑائی معاف کرو، اللہ کا گھر صاف کرو۔”
قبائلی “مہمان ” کا لفظ سن کر بچھڑے ذبح کردیتے ہیں۔
لفظِ”محمد” سن کر زبانیں صلِ علی کے ترانے گنگنانے لگتی ہیں۔
محبتوں کے اس شہر میں آج بھی پاکستانی جرم کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا ہو کر کہتا ہے:
پاکستان تمہارے باپ کا تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

Facebook Comments

احمدحسین بدر
طالبِ علم جو اپنی لکھنے کی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply