ٹارگِٹ، ٹارگِٹ ، ٹارگِٹ ۔قسط7

ہیبت ناک پروموشن!

فوجی افسر پاس آؤٹ تو کندھے پر ایک پھول لے کر ہوتے ہیں تاہم اس پھول کو کھلانے کے لیے برابردو سال تک ایبٹ آباد کی پہاڑیوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح بعد کے پھولوں کے لیے بھی ایسے بہت سے کٹھن پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر میجر تک ہر رینک کے لیے  علیحدہ سے ایک پروموشن ایگزام پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سروس کی مقررہ حد عبور کرنا بھی لازم ہے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن جس چیز سے یار لوگوں کی جان جاتی ہے وہ کمانڈر اور جی او سی کا انٹرویو ہوتا ہے۔ ہمارے ایک سینئر ایسے ہی ایک انٹرویو کے لیے کمانڈر کے دفتر میں حاضر ہوئے ۔ کمانڈر نے ان سے پوچھا

’’آذر بائیجان کہاں ہے‘‘ (ان دنوں وہاں جنگ چھڑی ہوئی تھی اور اکثر خبروں میں اس خطے کا ذکر ہوا کرتا تھا۔) موصوف جھٹ سے بولے ’’سر! اظہر بھائی جان تو زیادہ تر دبئی میں ہوتے ہیں ۔چند دنوں کے لیے  پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ابھی کل ہی واپس گئے ہیں۔ آپ ان کو کیسے جانتے ہیں؟۔‘‘ کمانڈر نے یہ سن کر سر پیٹ لیا اور موصوف کو تیاری کر کے دو ماہ بعد دوبارہ تشریف لانے کاحکم دیا۔ برما کی جنگ کے بارے میں ہمارے ایک کورس میٹ سے جی او سی نے سوال کیا’’برما کی جنگ کے دوران کون سے مشہور دریا کے آس پاس فوجوں نے پڑاؤ کیا تھا؟‘‘ انہوں نے فٹ سے جواب دیا ’’دریائے اروندا۔‘‘ موصوف دریائے “ایراودی” کو مشہورسری لنکن کرکٹر “اروندا ڈی سلوا” سے ملا بیٹھے اور یوں جی او سی سے خوب ڈانٹ کھائی۔جیسے تیسے کر کے یہ خطرناک مرحلہ طے ہوجاتا تھا تو شانوں پر پھول لگانے کی باری آتی تھی۔ ڈیو اور بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی طرف سے یونٹ کو لیٹر بھیج دیا جاتا تھا کہ افسر ہماری طرف سے کلیئر ہے اوراس کو مطلوبہ رینک لگادیے جائیں۔

وہ ہمارا لفٹینی کا زمانہ تھا۔ ہم ان دنوں پشاور میں تعینات تھے اور کندھوں پر کپتانی کے تین پھول کھلانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ہمارے کمانڈر اور جی او سی سے انٹرویو ہو چکے تھے لیکن نتیجہ ہمارے علم میں نہ تھا۔ دن جیسے تیسے گزر رہے تھے۔ ایک دن ہماری ٹھہری ہوئی زندگی میں بھونچال آ گیا۔ خبر ملی کہ ہماری یونٹ کے ایک سپاہی نے یونٹ سے چھٹی لینے کے بعد شہر کا رخ کیا اور وہاں سے ایک عدد رائفل خرید کر اپنے گھر لے جاتا ہوا پکڑا گیا۔ پولیس والوں نے مذکورہ سپاہی کو یونٹ کے حوالے کر دیا جہاں اس کو کوارٹر گارڈ کی حوالات میں بند کر دیا گیا۔

صبح ہوئی تو ایڈجوٹنٹ نے ہمیں اپنے دفتر میں طلب کیا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ یونٹ کے تمام افسر موجود ہیں اور وہی معاملہ زیر بحث تھا۔ ہم بھی ایک کونے میں کرسی سِرکا کر بیٹھ گئے۔ ہمارے بیٹری کمانڈر میجر وحید نے بات کا آغاز کیا۔ کہنے لگے ’’یار ہم تو تمہیں انتہائی شریف انسان سمجھتے تھے اور ہمیں تم سے ایسی گھٹیا حرکت کی ہرگز توقع نہ تھی‘‘ ہم نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے ’’برخوردار، یہ جو سپاہی حوالات میں بند ہے اس نے بیان دیا ہے کہ تم نے اسے رائفل خریدنے کے لیے پیسے دیے تھے اور یہ اسلحہ اس نے تمہارے ساتھ مل کر ڈاکہ زنی کے لیے استعمال کرنا تھا۔

‘‘ اس قدر سنگین الزام سن کر تو گویا ہمارے پاؤں  تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ ہم نے کچھ بولنا چاہا لیکن حلق سے آواز برآمد نہ ہوئی۔ ہم نے اس الزام کی صحت سے انکار کیا تو بتایا گیا کہ آپ کے کورٹ مارشل کی تیاری مکمل ہے، سپاہی مذکورہ نے سی او کے روبرو آپ کے خلاف شہادت دے دی ہے اور اس کے بعد آپ فوج سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ دو تین سال کے لیے جیل بھی جائیں گے۔ ہم نے رندھی ہوئی آواز میں رحم کی اپیل کی جو سنی ان سنی کر دی گئی۔

کچھ ہی دیر بعد ہمیں کورٹ مارشل کے لیے سی او کے سامنے پیش کیا گیا۔ ایڈجوٹنٹ اور بیٹری کمانڈر سی او کی ٹیبل کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔ ’’جلدی چل‘‘ کا کاشن سن کر ہم تیزی سے پریڈ کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ اونچی آواز سے سی او کو سلیوٹ کیا اور اٹن شن کھڑے ہو گئے۔ سی او نے چارج شیٹ پڑھ کر سنائی اور ہم سے مذکورہ الزام کی وضاحت طلب کی۔ ہم نے الزام کی صحت سے انکار کیا لیکن انہوں نے ہماری صفائی کو فی الفور مسترد کردیا ۔ آخر میں انہوں نے ہمیں با آواز بلند فوج سے برخواستگی اور ایک سال قید سخت کی سزا سناتے ہوئے آفس چھوڑنے کا حکم دیا۔

یہ سننا تھا کہ ہمیں سی او کے آفس کی ہر چیز گردش کرتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ قریب تھا کہ ہم چکرا کر گر جاتے کہ ایڈجوٹنٹ نے لپک کر ہمیں سنبھال لیا۔ اسی دوران باقی یونٹ افسر بھی سی او کے آفس میں داخل ہوچکے تھے۔سب سے آخر میں ویٹر نذیر ایک سجی سجائی پلیٹ کے ہمراہ اندر داخل ہوا جس میں سٹار چمک رہے تھے ۔ سی او اور کمپنی کمانڈر نے مل کر ہمارے کندھوں پر کپتانی کے سٹار لگائے اور مبارکباد دی۔ اسی اتری ہوئی شکل کے ساتھ ہماری تصویریں بھی بنائی گئیں۔ اس کے بعد چائے پی گئی اور مٹھائی کا دور چلا۔ ہمارے لیے بہرحال یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ خوشی کس چیز کی منائیں ،پروموشن کی یا کورٹ مارشل سے جان بچنے کی ۔

اُٹھ اوئے!

فوجی افسرکی زندگی میں ٹریننگ کورسز کا ایک کلیدی کردار ہوتا ہے۔ یہ کورسز مختلف ٹریننگ انسٹیٹیوشنز میں کروائے جاتے ہیں۔ ہر کورس کی اپنی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ کچھ تو لازمی ہوتے ہیں اور کچھ اختیاری جبکہ چند ایک کے لیے مقابلے کا امتحان بھی پاس کرنا پڑتا ہے۔ کورس چاہے کوئی بھی ہو، سٹوڈنٹس کا رویہ ایک ہی طرح کا ہوتا ہے اور اس میں رینک وغیرہ کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہوتی ۔ کورس کا آغاز تو ہر افسر ٹاپ کرنے کے ارادے سے ہی کرتا ہے لیکن چند دنوں تک (عموماً پہلے پیپرکے بعد) خوامخواہ کا یہ شک کافی حد تک دُور ہو جاتا ہے۔ مزیددو تین پیپروں کے بعد تو اکثر لوگ عزت سادات بچ جانے کی دعائیں کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کورس کے اختتام کے قریب تمام سٹوڈنٹس رنگ برنگی ٹوپیاں اوڑھ کر مسجد کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔

تاہم کچھ ولی اللہ قسم کے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پڑھائی وغیرہ کو زیادہ سر پر سوار نہیں کرتے اور شروع سے ہی میس ، کلب، جم ، سپورٹس، سینما وغیرہ کو پورا پورا وقت دینا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں، البتہ کلاسز کے دوران ان پر اکثر مراقبے کی سی حالت طاری رہتی ہے۔ اس قسم کے سٹوڈنٹ کورس کے اختتام پر ’اُٹھتے‘ہیں جب ساتھ والے ان کو کہنی مار کر جگاتے ہیں کہ کورس ختم ہو گیا ہے برائے مہربانی اب آپ اٹھ جائیں۔ ایسے ہی ایک مردِ قلندر ایک روز فرمانے لگے کہ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں وہ اللہ کی رضاکے لیے کرتا ہوں، انسٹرکٹر زکی خوشنودی کے لیے نہیں ۔ ہم نے ان کو سمجھایا کہ بھلے آدمی اگر اللہ اور انسٹرکٹر دونوں ہی تم سے راضی ہو جائیں تو اس میں کیا برائی ہے۔ بہرحال اس بات کے اندر جو ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے، وہ ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ان کو سمجھ نہیں آسکا۔

کورس شروع ہونے سے قبل ایک سوال ہر افسر سے پوچھا جاتا ہے کہ کورس کی تیاری کر لی ہے یا نہیں۔اکثر اوقات سینئر حضرات بس اتنا پوچھ کرہی اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ البتہ سی او، ٹو آئی سی سے کہیں ملاقات ہو جائے تو وہ کورس کی اہمیت اجاگر کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور افسر کو موٹیویٹ کرنے کے لیے اس کے آئندہ کیرئیر پر اس کورس کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یونٹ میں ہر کورس کے لیے ایک علیحدہ ’بوری‘ نسل در نسل چلی آتی ہے جس میں اس کورس پر جانے والا افسر اپنے نوٹس وغیرہ جمع کرتا جاتا ہے۔ کورس کے بعد یہ بوری ایڈجوٹنٹ کے پاس جمع کروا دی جاتی ہے۔ جونہی کوئی نیا افسر اس کورس پر جانے لگتا ہے تو ایڈجوٹنٹ نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ وہ بوری بھی اس پر لاد دیتا ہے۔ یونٹ جتنی پرانی ہوتی ہے بوری کا حجم بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ عمروعیار کی اس زنبیل سے کام کی کوئی چیز شاذ و نادر ہی برآمد ہوتی ہے البتہ سرد علاقوں میں اکثر سٹوڈنٹس گیس کی لوڈ شیڈنگ کے دوران ان نادرمخطوطوں کو جلا کر ہاتھ تاپتے نظر آتے ہیں۔

کورس کے پہلے ہی روز ہرافسر کو ٹریننگ لائبریری سے ستر، اسی کے قریب مختلف النوع کتابیں بھی ایشو کر دی جاتی ہیں جن کا مقصد آج تک نہ کسی نے بتایا نہ ہمیں خود سے سمجھ آیا۔ یہ کتابیں ایشو کروا کر کمرے میں لانا بھی ایک علیحدہ مسئلہ بن جاتا ہے ۔ ان کی ایک بڑی سی گٹھڑی بنا کر بیٹ مین کے سر پر لادی جاتی ہے جو بیچارہ بمشکل اسے منزل تک پہنچاتا ہے۔ سمجھ دار لوگ تو ان تمام کتابوں کو صندوق میں بند کر کے تالا لگا دیتے ہیں اور بے فکر ہو کر سو جاتے ہیں۔ پھر بھی کورس کے اختتام پر جب یہ کتابیں واپس جمع کروانے کا وقت آتا ہے تو ان میں سے آٹھ دس کتابیں پڑے پڑے ہی کم ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ بھی آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ ہمارے ایک دوست نے اس جھنجھٹ سے بچنے کے لیے ایک کورس کے دوران کتابیں ہی ایشو نہیں کروائیں۔ گریڈ تو ان کا ’سی‘ آیا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کورس کے آخری دن جب حشر کا عالم تھا اور سب لوگ اپنی گم ہوجانے والی کتابوں کے بارے میں پریشان تھے، تواس وقت وہ واحد شخص تھے جن کو ذرہ برابر بھی پریشانی لاحق نہ تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے کلیئرنس کروانے کے بعد موومنٹ آرڈر لیا اور گھر کی راہ لی۔

کورس کے دوران چائے کا وقفہ یعنی ٹی بریک اکٹھے ہوا کرتی ہے اور اس کے ساتھ پی ایم سے لے کر سٹاف کورس تک ہم نے وہ سلوک ہوتے دیکھا جو کہ قدیم جنگوں کے دوران دشمن پر فتح حاصل کرنے کے بعد مال غنیمت کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ یہ وہ واحد جگہ ہوتی ہے جہاں افسر وں کی جانب سے حربی صلاحیتوں کا بہترین استعمال دیکھنے میں آتا ہے۔فوجوں کے دستے چاروں طرف سے حملہ آور ہوتے ہیں اور آن واحد میں کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں میدان جنگ میں ٹوٹی پرچ پیالیوں اور اوندھی میز کرسیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ان معرکوں میں اکثر اوقات وہ جنگجو پیش پیش ہوتے ہیں جن کو کلاس روم میں سونے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہوتا اور وہ اپنی تمام تر توانائیاں اس آدھے گھنٹے کی ایکٹیوٹی کے لیے بچا کر رکھتے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ اگر ٹی بریک کی پرفارمنس کو بھی فائنل گریڈنگ میں شامل کیا جائے توانتہائی حیران کن نتائج سامنے آئیں گے۔

سٹاف کورس کے دوران ہمارا سِنڈیکیٹ دس افسروں پر مشتمل تھا جس میں ایک عربی افسر بھی شامل تھے۔ موصوف نیوی کے کمانڈر تھے اور انگریزی میں بھی تھوڑی بہت شُد بُد رکھتے تھے۔ پورے کورس کے دوران انہوں نے سونے اور ٹی بریک کرنے کے علاوہ ایک دھیلے کا کام نہیں کیا۔ ایک دن فرمانے لگے کہ مجھے سٹاف کورس کے لیے آسٹریلیا، ملائیشیا اور کینیڈا سے بھی آفر آئی تھی لیکن میں نے سب کو چھوڑ کر پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ ان کے اس مومنانہ انکشاف پر ہم کئی روز تک بہت شاداں و فرحاں رہے اور دل ہی دل میں ان کی عظمت کو سلام پیش کرتے رہے۔ ایک دن ذرا یونہی مزید اطمینان قلب کے لیے ہم نے اس اجمال کی تفصیل دریافت فرمائی تو بولے ’’مجھے اونٹ پالنے کا بے حد شوق ہے۔ بلوچستان کے اونٹ بہت اعلیٰ نسل کے ہوتے ہیں۔ میں پاکستان سے وطن واپسی پر ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک عدد اونٹ بھی اپنے ہمراہ لے کر جاؤں گا۔‘‘

سینٹرل کلاس یا لیکچر کے دوران نیند کا آنا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔لیکچر سے پہلے سٹوڈنٹس کو سخت وارننگز دی جاتی ہیں کہ سونے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا لیکن نہ جانے کیوں لیکچر شروع ہوتے ہی ہال میں موجود تمام بتیاں گل کرکے انتظامیہ کی جانب سے بذاتِ خودسونے کا بہترین ماحول فراہم کردیا جاتا ہے۔ فیکلٹی کے لوگ عموماً سب سے آگے والی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور خدا جھوٹ نہ بلوائے ہم نے انہیں بھی اکثر خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے ہی پایا۔ ایک ایسے ہی لیکچر کے بعد ٹریننگ ایڈجوٹنٹ نے سٹوڈنٹس کی ایک قطار کو کھڑا کر کے خوب بے عزتی فرمائی۔
ایک افسر بولا ’’سر! ہم نے کیا قصور کیاہے، سو تو پورا کورس ر ہا تھا۔‘‘ جواب آیا ’’ایک تو تم لوگ ایک دوسرے کے کاندھوں پر سر رکھ کر سو رہے تھے اور دوسرا تمہارے خراٹوں کی آواز سپیکر سے بھی زیادہ بلند تھی جس کے باعث باقی لوگوں کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا۔‘‘

خچر کی ایس او پی!

ایس او پی، سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے کام کرنے کا عمومی طریقہ کار۔تین حروف پر مبنی یہ لفظ فوج میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں سے ایک ہے۔ فوج میں ہر کام قرینے سے کرنے کا رواج ہے۔مطلب یہ کہ ہر کام کے بارے میں کوئی نہ کوئی قاعدہ قانون پہلے سے موجود ہوتا ہے جس پر عمل کرنا فوجی معمول کا حصہ ہوتا ہے۔ کچھ قواعد و ضوابط تو کتابوں میں درج ہوتے ہیں اور کچھ سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔بہرحال کوشش کی جاتی ہے کہ ہر کام کی ایک ایس او پی ضرور لکھی جائے جس میں اس سے متعلق تمام ذیلی امور اور ان کو سر انجام دینے کے لیے مختلف ذمہ داریوں اور اوقات کار کا تعین کیا جاتا ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ 1996 میں ہماری یونٹ میں جب پہلی مرتبہ پی ون کمپیوٹر خریدا گیا تو اس کی ایس او پی بنانے کے لیے پورے ایک ماہ تک سوچ بچار کی گئی کہ اس کو کہاں رکھا جائے اور کون ، کب اور کیسے استعمال کرے گا۔ جب ڈرافٹ ایس او پی ٹائپ ہو کر سی او کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بہت نازک مشین ہے اورآپ لوگوں نے اس کے آرام کا بہت خیال رکھنا ہے۔ ایس او پی میں درج کریں کہ ہر ایک گھنٹہ کام کے بعد اسے ایک گھنٹہ ریسٹ دیا جائے تاکہ اسے مناسب آرام مل سکے ۔ اسی طرح اس پر مختلف قسم کے وائرسز کے حملے کا بھی اندیشہ ہے جس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ اسے گرد وغبار سے دور رکھا جائے۔مزید برآں کمپیوٹر روم میں باقاعدگی سے فینائل کا سپرے کیا جائے اوراسے استعمال کرنے والے تمام افراد کا میڈیکل ٹیسٹ بھی ہر ماہ پابندی سے کروایا جائے تاکہ ان سے کوئی وائرس اس کمپیوٹر کو منتقل نہ ہو سکے۔ ہم نے ان تمام ہدایات پر مشتمل ایک جامع قسم کی ایس او پی تشکیل دی جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت بابرکت ثابت ہوئی ۔ نہ صرف دور و نزدیک کی اور بہت سی یونٹیں بھی اس سے مستفید ہوئیں بلکہ ان ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے ہمارا کمپیوٹر جملہ قسم کے وائرسز وغیرہ کے حملوں سے بھی بچا رہا اور اسے ہسپتال داخل کروانے کی نوبت نہیں آئی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم کشمیر کی ایک پوسٹ پر بحیثیت آبزرور تعینات تھے، ہمارے کمپنی کمانڈر میجر حمید ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے تاہم ایس او پیز پر عمل درآمد کے معاملے میں بہت سخت واقع ہوئے تھے۔ ان دنوں ہمارے پاس پوسٹ پر پانی لانے کے لیے  ایک عدد خچر ہوا کرتا تھا۔ ایک پارٹی روزانہ پوسٹ سے نیچے جا کر چشمے سے خچر پر پانی لاتی جو ہم سب استعمال کیا کرتے۔ یہ خچر معمول کے مطابق عسکری خدمات سر انجام دے رہا تھا کہ اچانک ایک دن اس کا پاؤں پھسلا او روہ پہاڑی سے گر کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔کمپنی ہیڈکوارٹر میں اس اندوہناک سانحے کی اطلاع دی گئی۔ میجر حمید نے ہم سے تعزیت کرنے کے بجائے نیا دفتر کھول لیا اور دریافت کیا کہ خچر کی ایس او پی موجود تھی یا نہیں۔ اب اس بات کا ہم نفی کے علاوہ کیا جواب دیتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سن کر انہوں نے فوراً ہمیں خچر کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا دیا کہ بغیر ایس او پی کے ہم اس سے کام لیتے رہے۔ اس بات پر انکوائری ہوئی اور ہمیں ایک ہلکی پھلکی وارننگ دے کرآئندہ کے لیے  محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ ہمیں بٹالین کی جانب سے نیا خچر فراہم کیا گیا تو ہم نے سب سے پہلے خچر کی ایس اوپی لکھ کر کمپنی کمانڈر اور سی او کو دستخط کے لیے بھجوا دی۔شومئی قسمت سے وہ دوسرا خچر بھی چند ماہ کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا، لیکن اس مرتبہ ہم سے کسی قسم کی بازپرس نہیں کی گئی کیونکہ خچر ایس او پی کے عین مطابق اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔
(جاری ہے

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply