ٹارگٹ، ٹارگٹ، ٹارگٹ، /قسط5

دیکھا جو کھا کے تیر!
اکتوبر1998کی ایک کڑی دوپہر کو ہمیں گلگت کا مشکل سفر درپیش تھا۔وجہ اس کی یہ تھی کہ ہمیں اگلے چار ماہ کے لیے فورس کمانڈ ناردرن ایریاز یعنی ایف سی این اے کے ساتھ اٹیچ کر دیا گیا تھا۔سیاچن کی خطرناک داستانیں تو آج تک اپنے سینئرز سے سنتے آئے تھے لیکن اب وہ مرحلہ آن پہنچا تھا جس میں ہم خود اس الف لیلیٰ کا ایک کردار بننے جا رہے تھے اور امیدوبیم کے کئی جلتے بجھتے چراغ آنکھوں میں سجائے راولپنڈی میں ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کمپنی (ناٹکو)کے اڈے پر موجود تھے۔ سفر کے آغاز پر ایک اچھا شگون یہ ہوا کہ ہمیں وہاں اپنا ایک کورس میٹ کیپٹن فیصل مل گیا ۔دونوں نے اکٹھے نشستیں بک کرائیں اور یوں سہ پہرچار بجے کے قریب ہمارے دیومالائی سفر کا آغاز ہو گیا۔ بیشتر سفر رات کا تھا۔ڈرائیورنے تیز رفتاری میں جیٹ طیاروں کو مات دینے کی پوری کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہا۔ہم جب بھی کھڑکی سے باہر جھانکتے تو گاڑی کا ایک ٹائر سڑک سے نیچے اترا ہوا پاتے۔ذرا سی غلطی سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں پہنچانے کے لیے کافی تھی۔ بہرحال قراقرم ہائی وے کے پرپیچ راستوں پر ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے سلام دعا لیتے ہم تقریباً پندرہ گھنٹے کا لگاتار سفر طے کر کے علی الصبح گلگت پہنچے ۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ پہلا سنگ میل کامیابی سے عبور کر لیا۔اٹیچمنٹ پر آئے افسروں کو عرف عام میں غازی افسر کہا جاتا ہے اور انہیں عام طور پر ایف سی این اے میس میں ٹھہرایا جاتا ہے۔راستہ پوچھتے پچھاتے ہم وہاں پہنچ ہی گئے۔

اب اگلا مرحلہ ایف سی این اے ہیڈ کوارٹرز میں حاضری کا تھاجس کے لیے یونیفارم ضروری تھی۔بیگ کھولاتو ایک دھچکا سا لگا کیونکہ ماسوائے بیرٹ (فوجی ٹوپی)کے پوری یونیفارم موجود تھی۔ایک عجیب مخمصے میں پڑ گئے۔پہلے حل کے طور پر ویٹر کو قریب والی یونٹوں کی جانب دوڑایا لیکن آرٹلری کی مخصوص نیلی بیرٹ کہیں سے ملنی تھی نہ ملی۔ ویٹر کہنے لگا کہ سی ایس ڈی یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ہے، شاید وہاں سے مل جائے۔ فیصل یونیفارم پہن کر تیار بیٹھا تھا۔ اس نے ہمیں مشورہ دیا کہ پہلے یونیفارم پہن کر سی ایس ڈی تک چلا جائے اورپھر وہاں سے بیرٹ لے کر ایف سی این اے کا رخ کیا جائے۔ مشورہ دل کو بھایا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ پرایا شہر ہے کسی نے پوچھ لیا کہ میاں اس حلیے میں بغیر بیرٹ کے سڑکیں کیوں ناپ رہے ہو تو کیا جواب دیں گے۔ پھر دل کو سمجھایا کہ بھائی ہم اس وقت سیاچن میں ہیں اوریہاں کون یونیفارم چیک کرے گا۔دل کو تسلی دینے کے بعدہم دونوں کشاں کشاں سی ایس ڈی کی سمت چل پڑے۔شومئی قسمت کہ سی ایس ڈی سے بھی آرٹلری بیرٹ نہ مل سکی البتہ منیجر نے بتایا کہ یہاں سے تھوڑی دور ہی ڈیو آرٹلری ہیڈکوارٹرز ہے وہاں کی کینٹین سے ضرور مل جائے گی۔ ہم نے واپسی کی ٹھانی تو فیصل بولا کہ یار اتنی دور تو آ گئے ہیں اب خالی ہاتھ اور ننگے سر واپس جانے سے بھلا کیا حاصل ہوگا۔ تھوڑا وقت اور لگے گا اور ڈیو آرٹلری پہنچ جائیں گے۔ ہم نے بھی اس کے مشورے کو صائب جان کر قدم بڑھا دیے اگرچہ دل میں یہ وسوسہ جنم لے رہا تھا کہ ڈیوآرٹلری میں کسی کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔

ہم نے اس خیال کو ذہن سے یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ کسی نے پوچھا بھی تو صاف صاف بتا دیں گے کہ بیرٹ گھر بھول آئے ہیں اور نئی بیرٹ خریدنے جا رہے ہیں۔اب حالت یہ تھی کہ ہم دونوں خوش گپیوں میں مشغول سڑک کی ایک جانب چلے جا رہے تھے۔کچھ دیر چلنے کے بعد ڈیو آرٹلری ہیڈکوارٹر دکھائی دینے لگا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ ڈیو آرٹلری کے گیٹ سے ایک سٹار والی جیپ برآمد ہوئی جس پر جھنڈا بھی لہرا رہا تھا اس کا واضح مطلب تھا کہ اس جیپ میں کمانڈر آرٹلری بنفس نفیس موجود ہیں۔ یہ دیکھ کرہم دونوں کو سانپ سونگھ گیا، دل کی دھڑکن بے اختیار تیز ہو گئی اور ہونٹوں پر بے اختیار ’’جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو‘‘کا ورد جاری ہو گیا۔جیپ کو ہمارے قریب پہنچنے میں چند ہی سیکنڈ لگے ہوں گے۔جیپ کے قریب پہنچتے ہی فیصل نے زوردار سیلوٹ کیا۔ ہم نے چونکہ بیرٹ نہیں پہنی تھی اس لیے فقط ہاتھ سیدھے کر کے ’’السلام علیکم سر‘‘کہنے پر ہی اکتفا کیا۔جیپ زن سے ہمارے پاس سے گزر گئی اور ہم نے بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا۔ لیکن سکون کی یہ کیفیت عارضی ثابت ہوئی کیونکہ چند سیکنڈز کے وقفے کے بعد اچانک بریک لگنے کی زوردار آواز سنائی دی اور جیپ ریورس گیئر میں تیزی سے چلتی ہوئی عین ہمارے سامنے آ کر رک گئی۔ دیکھا تو کمانڈر آرٹلری جیپ میں بیٹھے ہمیں خونخوار نظروں سے ایسے گھور رہے تھے گویا کچا ہی چبا جائیں گے۔

انہوں نے فیصل کو آسان باش ہونے کا کہااور ہمیں ہوشیار کرا کر اونچی آواز میں عزت افزائی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہماری تو یہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ زیادہ تر باتیں تو سر کے اوپر سے گزر گئیں بس آخر میں صرف یہ الفاظ سمجھ میں آئے ’’تم فوراًجا کر میرے بریگیڈ میجر سے ملو اور اسے اپنا نام، نمبر نوٹ کراؤ۔ابھی تو میں جلدی میں ہوں کیونکہ مجھے کسی میٹنگ میں پہنچنا ہے۔ امید ہے کہ تم ایف سی این اے ہیڈکوارٹرز سے موومنٹ آرڈر لے کر ڈیوآرٹلری ہی میں رپورٹ کرو گے۔میں تب تمہیں دیکھ لوں گا۔‘‘ ہم مرے مرے قدموں کے ساتھ ڈیوآرٹلری پہنچے۔بریگیڈ میجر سے ملے اور ساری بپتا سنائی۔ انہوں نے ہمارا نام ،نمبر نوٹ کیا اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ ’’مسٹر آپ کے بچنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ کمانڈر ڈسپلن کے معاملے میں بے انتہا سخت ہیں ۔ہٹلر کی طرح ان کی ڈکشنری میں بھی معافی کا لفظ موجود نہیں۔ بہرحال ابھی تو آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔ کمانڈر بلائیں گے تو میں آپ کو اطلاع کر دوں گا۔ آپ فوراً حاضر ہو جائیے گا۔‘‘ ہم نے کینٹین پر جا کر مطلوبہ سائز کی بیرٹ کا بندوبست کیا اور اسے پہن کر بوجھل قدموں کے ساتھ ڈیوآرٹلری ہیڈکوارٹرزسے روانہ ہوئے۔ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ اس اجنبی شہر میں ہمارے اپنے برادرانِ یوسف ہمارے ساتھ ایسا سلوک کر نے پر تلے ہوئے ہیں جو جنگ میں دشمن کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔بقول شاعر
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف ،
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی!

کچھ سوچ کر ہم نے ایک انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اورسیدھے ایف سی این اے ہیڈ کوارٹرز کا رخ کیا۔وہاں پر ہمارے جیسے چند اور غازی افسر پہلے سے موجود تھے۔ایس او پی کے مطابق ہم سب کو اے کیو سے ملنا تھا جنہوں نے ہمیں بریف کرنے کے بعد مختلف بریگیڈز میں رپورٹ کرنے کے پروانے عطا کرنے تھے۔ان دنوں عموماً آرٹلری آفیسرز کو ڈیوآرٹلری جبکہ دوسری آرمز کے آفیسرز کو انفنٹری بریگیڈزکے ساتھ اٹیچ کیا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے ہمارا ڈیو آرٹلری میں لینڈ کرنا یقینی امر تھا اور وہاں ہمارے ساتھ جو کچھ ہونے والا تھا اسے سوچ کر ہی ہمیں دن میں تارے نظر آ رہے تھے۔کچھ دیر انتظار کروانے کے بعد اے کیو تشریف لے آئے اور ہم سب سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا۔اس کے بعد وہ جیسے ہی بریفنگ کا آغاز کرنے لگے تو ہم موقع غنیمت جان کر کھڑے ہو گئے اور کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی جو انہوں نے تھوڑے پس و پیش کے بعددے دی۔اس پر ہم کچھ یوں گویا ہوئے’’سر!یہ ہماری بے انتہا خوش نصیبی ہے کہ آج ہم دشمن سے دو بدو جنگ کرنے کے لیے ایف سی این اے میں موجود ہیں ۔ہم اپنی زندگی کا یہ اہم ترین مرحلہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گزارنے کے خواہشمند ہیں اور اس لیے ہماری آپ سے پرزور درخواست ہے کہ ہمیں فی الفورکسی انفینٹری بریگیڈ میں پوسٹ کیا جائے۔‘‘

اے کیو نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا اور بولے ’’ینگ مین!میں آپ کے جذبے کی بے پناہ قدر کرتا ہوں لیکن چونکہ آپ آرٹلری افسر ہیں اس لیے ہم نے پہلے سے آپ کو ڈیوآرٹلری میں پوسٹ کرنے کا پلان بنایا ہوا ہے۔‘‘ہم نے جواب دیا ’’سر ہم نے اب تک کی تمام تر سروس توپوں کی مالش کرتے ہوئے گزاری ہے اورقرائن سے لگتا ہے کہ باقی بھی اسی کام میں بسرہوگی ۔ ہمارے لیے انفینٹری یونٹ میں پوسٹنگ کا یہ واحد موقع ہے اوریہ موقع ہمیں آپ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘ اے کیو نے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا اور بریفنگ کا آغاز کر دیا۔بریفنگ کے بعد تمام آفیسرز کو بریگیڈز الاٹ کرنے کی باری آئی تو انہوں نے سب سے پہلے ہمارا نام پکارا اور بولے ’’آپ کے بے پایاں جوش اور جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اپنا پلان تبدیل کرتے ہوئے آپ کو سیاچن کے سب سے اہم انفینٹری بریگیڈ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ہم نے ان کا جوابی شکریہ ادا کرتے ہوئے فوراً سے پہلے موومنٹ آرڈروصول کیا اور سکردو جانے والی بس پکڑ لی۔اس کے بعد ہم نے کہیں غیرضروری بریک نہیں لگائی اور منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے انفینٹری بریگیڈ ہیڈکوارٹرز، وہاں سے انفنٹری کی ایک مایہ ناز یونٹ اور پھر سیاچن کی سب سے خطرناک پوسٹ پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ یہ اور با ت کہ انیس ہزار فٹ بلند جس اوکھلی میں ہم نے خود اپنا سر دیا تھا اس میں ہمارے پہنچتے ہی موصلوں کی لگاتار بارش شروع ہو گئی۔اگلے تین ماہ کے دوران انیس ہزار فٹ کی بلندی پر بیٹھ کر ہم اکثر سوچا کرتے کہ ڈیو آرٹلری کمانڈر نے بعد میں ہمیں ضرورڈھونڈا ہو گا اور یہ جان کر کہ اُن کا شکار انفینٹری میں پوسٹ ہو چکا ہے ، پہلے تو اپنا سر پیٹ لیا ہو گا اورپھر اس سزاکو کافی سمجھ کر ہمیں مزید کیفر کردار تک پہنچانے کا ارادہ بدل دیا ہو گا۔

نیلی روشنی!
ہم پہلی مرتبہ پوسٹ کی جانب رواں دواں تھے۔ سفر کا آغاز بٹالین ہیڈکوارٹر سے ہوا۔یہ تمام تر پیدل سفر تھا۔ایس او پی کے مطابق یہ پارٹی دس افراد پر مشتمل تھی جس میں چار افسر بھی شامل تھے۔باقی چار جوان یونٹ کی جانب سے ہماری رہنمائی کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ہم سب نے برف کے لئے مخصوص انتہائی بلندی پر پہنے جانے والے کوہ پیمائی کے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے جن پر مخصوص قسم کی بیلٹیں کسی گئی تھیں ۔ ان بیلٹوں میں ایک سٹیل کا رِنگ پرویا گیا تھا اورایک لمبی رسی کو ان تمام رنگز سے گزار کر سب لوگوں کو تسبیح کے دانوں کی مانندآپس میں مربوط کر دیا گیا تھا۔ ہماری پہلی منزل کیمپ ون نامی ٹرانزٹ پوسٹ تھی جہاں پہنچ کر ہم نے رات بسر کرنا تھی۔ کچھ دور ہی چلے ہوں گے کہ ایک بڑے پتھر پر نگاہ پڑی جس پر کسی منچلے نے کوئلے سے لکھ دیا تھا ’’اللہ میاں زیرو کلومیٹر۔‘‘یہاں پہنچتے ہی گائیڈ نے زور دار آواز میں ’’رک‘‘کا نعرہ بلند کیا۔ پارٹی کے رکنے پر اس نے بتایا کہ اس کا نام ’’شہید پتھر‘‘ہے۔ یہاں ایک یونٹ کے سولہ جوان سلائیڈ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے تھے۔سب لوگ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائیں ۔ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ شہیدوں کی روحیں اس جگہ پر موجود رہتی ہیں اور اگر کوئی پارٹی یہاں سے فاتحہ پڑھے بغیر گزرجائے تو اس کا سامنا کسی ناگہانی صورتحال سے ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔خشوع خضوع کے ساتھ فاتحہ پڑھی گئی اور شہداء کے ایصال ثواب کے لیے دعا کرنے کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔

تھوڑی دور ہی چلے ہوں گے کہ ایک موڑ پر دوبارہ رکنے کی ہدایت ملی۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ جگہ شہید موڑ کہلاتی ہے اور یہاں پر بھی ایک پوری پارٹی برف میں راستہ بھول کر لاپتہ ہو گئی تھی۔یہاں بھی پہلے والی ڈرل دہرائی گئی۔کچھ دور مزید چلنے کے بعد ایک بہت بڑی کھائی نما برفانی دراڑ(کریوس) دکھائی دی۔ اس کریوس کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ بھی کئی پارٹیوں کو نگل چکی ہے۔ غرض ہر جگہ اپنے اندر شہادتوں کی ایک داستان سموئے ہوئے تھی۔ چار گھنٹے کے اس سفر میں ہم نے درجن بھر مقامات پر شہدا ء کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔خدا خدا کر کے جب کیمپ ون پر پہنچے تو پوسٹ حوالدار نے بتایا کہ یہ پوسٹ اب سے دو ماہ پہلے ہی ایک برفانی طوفان کی زد میں آ کر تباہ ہوئی تھی اور اس پوسٹ کو انتھک محنت کے بعد دوبارہ نئی جگہ پر قائم کیا گیا ہے۔ افسروں کے رہنے کے لئے علیحدہ اگلو میں جگہ مختص کی گئی تھی۔ شام ہو چکی تھی۔ہمیں پوسٹ پر پکی ہوئی دال، تازہ روٹیوں کے ساتھ پیش کی گئی جسے ہم نے خوب مزے لے کر پیٹ میں اتارا۔اب تک کا سفر ہم نے دن کی روشنی میں کیا تھا لیکن اس سے آگے کا تمام سفر ہمیں رات کے اندھیرے میں کرنا تھا کیونکہ اگلا علاقہ دشمن کی براہ راست نظر اور فائرنگ دسترس میں تھا۔یعنی دشمن نہ صرف ہماری نقل و حرکت کو دیکھ سکتا تھا بلکہ ہماری پارٹیوں پر کارگر فائر بھی گرا سکتا تھا۔

ہم سب چونکہ پہلی مرتبہ اس صورتحال سے نبردآزما ہونے جا رہے تھے اس لیے پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا۔لیکن اس صورتحال پر پریشان ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ایسے میں میجر اویس نے یہ کہہ کر ہماری ڈھارس بندھائی کہ انہوں نے اس مشکل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔سب فوراً ان کے قریب آ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔پبلک کے پرزور اصرار پر میجر اویس نے بتایا کہ’’تمام کائنات روشنیوں کا منبع ہے۔ہر رنگ کی روشنی کی کوئی نہ کوئی افادیت ہے لیکن نیلی روشنی ان سب میں اس لحاظ سے افضل ہے کیونکہ یہ انسان کو قوت بخشتی ہے۔ اگر آپ نیلی روشنی کا تصور کریں تو آپ ایک ان دیکھی قوت کے حصار میں آ جائیں گے اور پھر بغیرکسی تھکن کے چٹکی بجاتے ہی ہر قسم کی چڑھائی چڑھ جائیں گے۔‘‘ میجر اویس اس وقت ہمیں فرشتے سے کم نہیں لگے۔ ہمارے دل میں اٹھنے والے خدشات اور وسوسے فوراً جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور وہ انجانا سا خوف جو اب تک کے سفر کے بعد دل پر طاری ہو چکا تھا وہ ایسے غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ کچھ دیر کے بعد ہمیں نیند آ گئی۔ اگلے دن شام کو پارٹی سفر کے لئے دوبارہ تیار ہوئی۔اس بار ہماری منزل سیکٹر ہیڈکوارٹر تھا جو سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع تھا۔ اماوس کی رات کے گھپ اندھیرے میں دس افراد پر مشتمل اس پارٹی نے سفر کا آغاز کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلنے سے پہلے ہم نے میجر اویس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ذہن کو بالکل خالی کرکے نیلی روشنی کا تصور قائم کیا ۔ شروع میں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا البتہ کچھ دیر کے بعد برف کی سفیدی اور ٹمٹماتے ہوئے تاروں کی مدہم سی روشنی کے باعث آنکھیں تھوڑا بہت دیکھنے کے قابل ہوئیں۔برف کافی گہری تھی ۔ ہمارا گائیڈ اپنی چھڑی کو برف میں مار کر یقین کرتا جا رہا تھا کہ راستہ محفوظ ہے اورنیچے کوئی پوشیدہ برفانی کھائی یا دراڑ تو نہیں۔ہم سب اس کے نقش قدم پر چلتے چلے جا رہے تھے۔نیلی روشنی کا تصور بدستور ہمارے دل و دماغ کو روشن اور آنکھوں کو منور کر رہا تھا۔اسی عالم میں ہم نے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اچانک سرخ روشنی کا ایک گولہ آسمان پر پھٹا جس سے تمام علاقہ روشن ہوگیا۔’’ہٹ دی گراؤنڈ‘‘کی آواز آئی اور پوری پارٹی اوندھے منہ برف پر لیٹ گئی۔ دشمن کی جانب سے توپوں کی سلامی کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ پہلا گولہ ہم سے کافی دور گرا لیکن بعد والے گولے بتدریج ہمارے قریب آتے گئے ۔یہاں تک کہ بیسواں گولہ ہم سے صرف سو گز کے فاصلے پر پھٹا۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر اکیسواں گولہ بھی فائر ہو جاتا تو ہم شہادت کے منصب پر فائز ہو چکے ہوتے لیکن نہ جانے کیا سوچ کر دشمن کی جانب سے سلامی کی گنتی پوری ہونے سے پہلے ہی فائر کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ ہم نے فائر بند ہونے کے بعد بھی پندرہ منٹ برف میں اوندھے منہ لیٹ کر گزارے اور پھر سفر کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔ بعد کے سفر میں بھی ہمارے ساتھ فائر کی آنکھ مچولی یونہی جاری رہی اور ہم ہر مرتبہ برف میں اوندھے لیٹ کر اللہ تعالی کو یاد کرتے رہے۔ نیلی روشنی بہرحال ہمارے ذہن سے مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی اور اس کی جگہ گھپ اندھیرے نے لے لی تھی۔ہماری لاکھ کوشش کے باوجود نیلی روشنی واپس لوٹ کر نہیں آئی۔
(جاری ہے)
چوتھی قسط کا لنک۔
https://mukaalma.com/article/Ziashazad/4254

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply