دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

کیوں رو رہے ہو صاحب؟
رو رہا ہوں انسانیت کو یوں نیچ دیکھ کر، رو رہا ہوں انسانیت کی اس بے حسی پر ،
رو رہا ہوں کہ انسان انسانیت کا لبادہ اوڑھے کیا کچھ کر رہا ہے۔
معاشرے میں عورت کا جبری تشدداور جنسی ہوس کا شکار ہونا ایک عرصے سے چلا آ رہا ہے ،مرد کا جیسے تیسے دل کرتا ہے وہ یہ جرم سر ِ عام کر لیتا ہے کیونکہ کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ،جنسی ہوس کا شکار بننے والی کوئی بھی عورت نہیں چاہتی کہ اس کے ساتھ ہونے والی یہ زیادتی لوگوں پہ بھی عیاں ہو ۔یوں تو عورت کے تحفظ کے لیے ایوان ِبالا میں بل منظور ہوتے رہتے ہیں پر ان پہ عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ملتان میں ہونے والا واقعہ انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ،انسان کو یقین نہیں ہوتا کہ آج کے دور میں بھی ہم کس قدر جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ہوا یوں کہ ایک وحشی انسان، ہوس کا بھوکا ، اپنی جنسی بھوک مٹاتا ہے ایک عورت پہ جبراً زیادتی کی صورت میں ۔جب یہ بات اس محلے کے لوگوں کو معلوم پڑی تو بجائے اس معاملے پہ وہ کوئی مثبت اقدام اٹھاتے انھوں نے ویسی ہی انسانیت سے گری ہوئی حرکت کی ۔ محلے کی پنچائیت بیٹھی، خاص کر مظلوم اور ظالم دونوں گھرانے اس پنچائیت میں شامل تھے ۔ دونوں گھرانے اس بات پر رضا مند ہوئے کہ مظلوم گھرانے کا کوئی شخص ظالم گھرانے کی کسی عورت سے ویسی ہی زیادتی کرے ۔اور پھر اس رضا مندی نے ایک اور عورت کی زندگی پامال کر کے رکھ دی گئی ۔زمیں نے ایک دفعہ جوش تو مارا ہو گا کہ ان لوگوں کو اپنے اندر دبوچ لوں آسماں ان پر گرنے والا ہوا ہو گا پر بچ گئے کیونکہ اللہ اپنے نا فرمانوں کو کھلی مہلت دیتا ہے ،پھر وہ دیکھتا ہے کہ یہ بندہ کہاں تک جاتا ہے اور جب وہ پکڑتا ہے تو بڑا ہی سخت عذاب دیتا ہے ۔
انسانیت کا دور سے بھی ان کا کوئی تعلق نہ ہوا ہو گا اگر ان لوگوں میں ذرا بھر بھی انسانیت ہوتی تو وہ ایسا ہر گز نہ کرتے ،پر افسوس ۔یہ کہاں کی معاشرت ہے ؟جہاں جرم با عث ِ فخر کیا جاتا ہو، جہاں جرم کرنے والے کو کوئی روکتا نہیں، جہاں جرم کرنے والے کو کوئی پوچھتا نہیں، جہاں جرم کرنے والے کے خلاف کوئی اٹھ کھڑا نہیں ہوتا ،جہاں جرم کرنے والے پہ قانون کی نظر نہ پہنچ سکے ۔
ایک ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کے وہ ریاست کے با شندوں کی جان ومال و عزت ہر طرح سے محفوظ رکھیں پر افسوس یہاں ان تینوں چیزوں کی حفاظت بالکل بھی نہیں ۔ قصور وار وہ لوگ ہیں ہی جنہوں نے یہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت کی اس کے ساتھ قصور وار ریاست کے حکمران بھی ہیں ۔ اس ریاست کے ایوان میں کئیں طرح کے بل تو منظور ہوتے ہیں پر عملاً ان پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ۔تو کیا یہ ایسے ہی چلتا رہے گا ؟ جسے دل کرے وہ عورت کی عزت کو پامال کرے ۔
کاش کے ریاست کوئی اس سنگین معاملے پہ ایسی مثبت پیش رفت کرے کہ کسی کی جرات نہ ہو کہ وہ راہ چلتی ہوئی کسی بھی عورت کے ساتھ کوئی نیچ حرکت کر سکے ،حر کت کرنا تو دور میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھے ۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply