• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • ہر لفظِ تمنا کی جستجو لکھ، خیال جو بھی نکھرا تھا بیکار کچھ بھی نہیں۔۔۔خالد حسین مرزا

ہر لفظِ تمنا کی جستجو لکھ، خیال جو بھی نکھرا تھا بیکار کچھ بھی نہیں۔۔۔خالد حسین مرزا

نہیں ہے کوئی چیز نکمی اس زمانے میں، یہ ہمارے قومی شاعر ہمیں سکھا گئے تھے، ایک بات بتاؤں ہم نے صرف اقبال کو ہیرو ہی بنایا اور اُس کی بات پر عمل وہاں کر لیا جہاں ہمارا دل کیا۔ کوئی بھی چیز ہو جاندار یا بے جان، جب تک اپنے ہونے کا مقصد پورا نہیں کر جاتی تب تک بیکار نہیں ہوتی چاہے وہ ایک فاسٹ بولر کا جنون ہو جو شاید صحت اور کھیل کے اعتبار سے اپنی چوٹی کے دِنوں میں بھی اُس مُقام پر نہ کھیل سکے جس کا وہ اپنے آپ  کو حق دار سمجھتا ہو (وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے)، یا پرچون کی دُکان پر پڑی ہوئی ڈبل روٹی جو دُکان پر پڑے پڑے اپنی مدت پوری کر جاتی ہے اور کسی کے پیٹ میں جانے کے قابل نہیں رہتی مگر کسی نہ کسی طریقے سے اُسے استعمال میں تو لایا جا سکتا ہے اب فاسٹ بولر تو اپنی زندگی کا سیکھا ہوا ہنر اپنے سے اگلی نسل میں منتقل کر کے ایک خوشی حاصل کرتا ہے کہ میں زندگی میں اپنے علم کو کسی طرح تو عمل میں لے کر آیا، ویسے ایک بات یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو آزادی دے کر اُس کی قابلیت کو پرکھنا اور اُس کے ہنر کو استعمال میں لے کر آنا کسی کسی کا ہنر ہوتا  ہے،اب ہر شخص Alex fergusonوالی نگاہ رکھنے سے تو رہا (اب یہ نہ سمجھ لینا کہ میں Alex fergusonکو جوانی کا فاسٹ بولر کہہ  رہا ہوں)۔

اب بات رہی ڈبل روٹی کے ضائع ہونے کی، اِس بات پر یہ کہنا چاہوں گا جب ہم کوئی نعمت ضائع کرتے ہیں  تو عطا کرنے والا بھی اِس بات سے ناراض ہوتا ہے، حل یہ نہیں کہ ایک مقررہ مدت گزر جانے کے بعد بھی بیچا جائے ،یہ تو گاہک کے ساتھ زیادتی ہو گی، مگر اُس دُکان دار کے نقصان کے بارے میں بھی سوچیے جس کے پاس صبر کے علاوہ کوئی دوسرا انتخاب نہیں۔ ایک بات کہوں! ہم ہمیشہ منفرد خیال کی تلاش میں رہتے ہیں مگر وہ زیادہ دور نہیں ہوتا بس اُونچے سے اُونچا سوچنے کی ضِد میں اپنے اختلافات کو عبور نہیں کر پاتے اور بہت سی چیزوں کو چھوٹا سمجھنے لگ جاتے ہیں اب چھوٹا سمجھیں گے تو اُس چیز کی متاثر کرنے والی صفت خود بخود نظر انداز ہوتی چلی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے پاس مثال یہ ہے کہ پیسی اور کوکا کولا دونوں کڑے ترین مخالف ہیں مگر ایک نئے خیال کو عمل میں لانے کے لیے یکجا ہیں۔ اب نیا خیال کیا ہے؟ جو  عوام کے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہو، اور بیچنے والے کا بھی کوئی نقصان نہ ہو۔ اب اِس پر وچار کرنا اور مسئلے کا حل تلاش کرنا بھی ایک مناسب سوچ ہی ہوگی ایک ڈبل روٹی جو اپنی عُمر  پوری کر جائے اُس کو استعمال میں کیسے لایا جائے۔ اگر خالی پلاسٹک کی بوتلیں استعمال میں لائی جا سکتی ہیں تو پرچون کی دُکان پر ضائع ہونے والی چیزیں بھی کارآمد بنائیں جا سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply