وراثت میں یتیم پوتے کا حق

مرنے والے کے مال میں یتیم پوتے کے حق وراثت کا مسئلہ مختلف پہلووں سے غور وفکر اور مناسب قانون سازی کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بنیادی بات تو یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، یعنی قرآن یا سنت میں اس سے متعلق مثبت یا منفی طور پر کوئی ایسی واضح تصریح موجود نہیں جس کی حتمی پابندی لازم ہو۔ یہ سوال اس دائرے سے متعلق ہے جس میں فقہا، شریعت کے مقاصد، عملی مصالح اور عقلی وقیاسی اصولوں کی روشنی میں شارع کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس حوالے سے پہلا امکان جو غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، یہ ہے کہ کیا باپ کی غیر موجودگی میں اس کی اولاد کو اس کے قائم مقام قرار دے کر دادا کی وراثت میں حصہ دیا جا سکتا ہے؟ یہاں قیاس کا ایک پہلو یہ چاہتا ہے کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتوں اور پوتیوں کو وارث نہ مانا جائے اور جمہور فقہاءنے اسی قیاس کو ترجیح دی ہے۔ تاہم شرعی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں صلبی اولاد کی موجودگی میں کلی طور پر نہ سہی، لیکن جزوی طور پر یقیناً‌ شریعت نے ولد الولد کو صلبی اولاد کے حصے میں شریک ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ سورة النساءکی آیت ۱۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مرنے والے کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں تو دو یا اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں وہ دو تہائی ترکے کی حق دار ہوں گی، جبکہ صرف ایک لڑکی ہو تو آدھا ترکہ اس کو دیا جائے۔ یہ ہدایت اصلاً صلبی اولاد کے لیے ہے، اس لیے ان کے ہوتے ہوئے اولاد کی اولاد ترکے میں وارث نہیں بنتی۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقدمے میں، جس میں مرنے والے کی صرف ایک بیٹی تھی، لیکن اس کے ساتھ ایک پوتی بھی موجود تھی، یہ فیصلہ فرمایا کہ نصف مال اس کی صلبی بیٹی کو جبکہ ایک تہائی اس کی پوتی دے دے دیا جائے تا کہ دونوں کا حصہ مل کر دو تہائی کے برابر ہو جائے۔ یہ فیصلہ آپ نے اس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ میت کی صلبی اولاد میں کوئی لڑکا موجود نہیں جو دوسرے ورثا کے حصوں کو نکالنے کے بعد عصبہ کی حیثیت سے سارے مال کا وار ث بن سکے، اس لیے بیٹی اور پوتی کو دو بیٹیاں شمار کرتے ہوئے انھیں مجموعی طور پر ترکے کے دو تہائی کا وارث قرار دیا جائے، البتہ آپ نے تقسیم یوں کی کہ صلبی بیٹی کو قرآن کے حکم کے مطابق نصف ترکہ دینے کے بعد باقی ایک سدس پوتی کو دے دیا جائے۔ یہ اجتہاد جہاں پیغمبر کے خداداد علم وفہم کی ایک خوب صورت مثال ہے، وہاں اس سے زیر بحث سوال یعنی یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں حصہ دینے کے حوالے سے بھی ہمیں اجتہادی راہ نمائی ملتی ہے۔

بہرحال اگر یتیم پوتے کو اس کے مرحوم باپ کے قائم مقام تسلیم نہ کیا جائے جبکہ پوتا ضرورت مند بھی ہو تو مقاصد شریعت کی روشنی میں دوسرا امکانی حل یہ ہو سکتا ہے کہ دادا اس کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال میں اس کے لیے وصیت کر دے۔ اصولاً تو یہ دادا کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ازخود اس وصیت کا اہتمام کرے، لیکن اگر اس نے وصیت نہیں کی تو قرآن نے ورثہ کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ تقسیم وراثت کے موقع پر دیگر اقربا اور یتیموں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھیں اور انھیں اس مال میں شریک کریں۔ (النساء، آیت ۸)

تاہم ہمارے معاشرے میں چونکہ اس دوسری صورت کا امکان کم ہے، اس لیے سوال یہ سامنے آتا ہے کہ دادا پر یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرنے کی جو اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیا اسے قانونی طور پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے یا عدالت دادا کے مرنے کے بعد اپنا صواب دیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے پوتے کو ترکے میں سے کچھ حصہ دے سکتی ہے؟ ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ نہ صرف مصلحت کے عمومی اصول کے تحت درست ہے، بلکہ قرآن مجید میں اس کی منصوص نظیر بھی موجود ہے۔ چنانچہ جب وراثت تقسیم کرنے کا اختیار ابھی معروف کے مطابق مورث کی صواب دید پر منحصر تھا تو قرآن نے اجازت دی تھی کہ اگر وہ اپنی وصیت میں جانب داری یا حق تلفی کا مرتکب ہو تو اس کے مرنے کے بعد انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ (البقرہ ۲:۲۸۱) یہ حکم ظاہر ہے کہ اس دائرے میں اب بھی موثر ہے جس میں مرنے والے کو وصیت کا اختیار دیا گیا ہے۔

دوسری جگہ قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر مرنے والا اپنے قریبی رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں کسی دور کے رشتے دار کو وارث قرار دے تو سارا مال تنہا اسی کو دینے کے بجائے اس کے بہن بھائیوں کو بھی چھٹے یا ایک تہائی حصے میں شریک کیا جائے۔ (النساء۴:۲۱۔ یہ رائے آیت کی اس تفسیر پر مبنی ہے جو جناب جاوید احمد غامدی نے ”البیان“ میں بیان کی ہے۔)

Advertisements
julia rana solicitors

ان دو آیتوں کی روشنی میں یہ کہنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ اگر دادا یتیم پوتے کی احتیاج وضرورت پیش نظر ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے وصیت نہیں کرتا تو وہ اس کی حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے جس کی تلافی کے لیے عدالت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مرنے والے کے حق وصیت کو خود استعمال کرتے ہوئے یتیم پوتے کو بھی ترکے میں سے مناسب حصے کا حق دار قرار دے۔
واللہ اعلم

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”وراثت میں یتیم پوتے کا حق

  1. لگتا ہے مسلم فیملی لاز آرڈیننس ۱۹۶۱ کی دفعہ ۴ پر مفتی شفیع اور دیگر علما کے مفصل تبصرے، مصری قانون اور وفاقی شرعی عدالت کا اس آرڈیننس کے حوالے سے فیصلہ (وصیت واجبہ کا حل) آپ کے سامنے نہیں، ورنہ آپ کی تحریر زیادہ جامع ہوتی۔

  2. Agar Muslim personal law ke zimmedaaraan en masaail ka hal nahi rakhenge Muslim community me to log Indian court ki taraf rukh karenge, fir faisla kuch aur ho to Muslim personal law ki mudakhilat ke name pe shor aur hamgama start kar waaenge. Aur fir signature companing hogi. Allah hamare mufakkereen ki umr daraz rakhe. Aameen

  3. یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت کے فتوے باطل و مردود ہیں
    یتیم پوتے کی محجوبیت کے فتووں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں رد و ابطال :
    یتیم پوتے کی محجوبیت کا جو فتوی ہے وہ صریحی طور پر کتاب و سنت کے خلاف اور عدل و انصاف کے منافی ہےاور حکومت پاکستان کے ذریعہ بنایا گیا قانون قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ وہ قطعی طور پر خلاف شریعت نہیں لہذا اس کی تائید و حمایت کرنی چاہئے نہ کہ مخالفت۔ کیونکہ یتیم پوتا اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد(اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی حقیقی اولاد کے درجہ میں) ہے ٹھیک اسی طرح جیسے اس کا باپ یا چچا تایا حقیقی اولاد ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک بالواسطہ ہے اور دوسرا بلا واسطہ ہے یہی معاملہ باپ دادا کا بھی ہے کہ باپ حقیقی والد ہے اور دادا بھی حقیقی والد ہے باپ بلا واسطہ والد ہے اور دادا بالواسطہ والد ہے۔ یہی سبب ہے کہ یتیم پوتے کی وفات پر باپ کی جگہ دادا ہی بحیثیت حقیقی والد وارث قرار پاتا ہے چچا تائے نہیں بنا بریں یتیم پوتا بھی دادا کی وفات پر بمنزلہ اپنے باپ کے دادا کی حقیقی اولاد ہونے کے ناطے وارث ہے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الفرائض کے الفاظ ہیں: (((7 – باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)))یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس کا باپ نہ ہو۔جس کا واضح مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تایا ہوں یا نہ ہوں۔
    باب کے یہ الفاظ حافظ ابن حجر سے تقریبا پچاس سال پہلے لکھی گئی شرح بخاری (التوضیح شرح الجامع الصحیح لابن الملقن) میں موجود اور آج بھی محفوظ ہیں اور اس سے بھی پہلے لکھی گئی ایک شرح کے بھی یہی الفاظ ہیں جو اس مسئلہ کو بالکل واضح کردیتے ہیں۔ اور ساری حجت و بکواس کا قلع قمع کردیتے ہیں۔ اگر ہم حافظ ابن حجر کی شرح کے اندر مذکور باب کے یہ الفاظ بھی مان لیں تو بھی اس کا معنی وہی بنتا ہے جو دوسری شرح میں مذکور باب کے الفاظ ہیں۔ دونوں میں کوئی معنوی فرق نہیں ہے باوجودیکہ چند حروف کا فرق ہے۔
    کیونکہ ترجمۃ الباب کے ان الفاظ یوں ہے: ((بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)) یعنی (پوتے کی میراث کا بیان جب بیٹا نہ ہو)۔ تو اس کا بھی وہی معنی و مفہوم بنتا ہے کہ اگر میت کے متعدد بیٹے ہیں تو ان میں کا کوئی ایک بیٹا یا کئی ایک بیٹے وفات پاگئے ہوں تو ان کے بیٹے وارث ہیں۔کیونکہ اس کے معا بعد امام بخاری نے صحابی رسول زید بن ثابت کا یہ قول نقل کیا ہے : (وَقَالَ زَيْدٌ – رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) یعنی زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولادیں (پوتے پوتیاں) بمنزلہ اولا د (یعنی ان بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں) ہیں جب ان کے اوپر ان کے اور ان کے دادا کے مابین کے بیٹے نہ ہوں یعنی ان کے باپ نہ ہوں۔
    اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں کیونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے جو ایک نسلی تسلسل کا نام ہے ایک طرف اصل ہے تو دوسری طرف اس کی نسل و فرع ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا حقیقی اولاد ہے اور پوتا مجازی اولاد ہے قطعا غلط ہے ان میں سے کوئی مجازی نہیں بلکہ سب حقیقی ہیں۔ اولاد حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی اسی طرح والد حقیقی ہی ہوتا ہے مجازی نہیں ہوتا۔ البتہ بیٹا بیٹی اور باپ مجازی بھی ہوتے ہیں اور حقیقی بھی چنانچہ باپ تو باپ ہے ہی چچا تائے بھی باپ ہیں اسی طرح بیٹا تو بیٹا ہے ہی منہ بولا بھی بیٹا ہوتا ہے ۔ چچا تائے مجازی باپ ہیں البتہ والد نہیں اور منہ بولا بیٹا مجازی بیٹا ہے اولاد نہیں اسی لئے پوتے کے مرنے پر چچا تائے وارث نہیں ہوتے بلکہ دادا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ والد اور حقیقی باپ ہے لہذا باپ کے مرنے پر حقیقی بیٹا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے ہے اور منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے نہیں ہے۔ فافہم و تدبر۔
    اولاد ،ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کےہیں۔ جو جنے ہوئے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ولد صرف اسی کو کہیں گے جو جنا گیا ہو یعنی جس میں توالد و تناسل کی نسبت پائی جائے وہ ولد ہے خواہ وہ بیٹے کے ذریعہ جنا گیا ہو یا بیٹی کے ذریعہ یا پوتے پوتی کے ذریعہ جنا گیا ہو یا نواسے نواسی کے سب کے سب حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہی ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے (ووہبنا لہ اسحاق و یعقوب) نیز فرمایا (و یعقوب نافلۃ) اسی طرح فرمان نبوی ہے (ابنی ہذا(حسن بن علی) سید)، (ہذان(حسن و حسین بن علی) ابنای)۔ یہ تو جاہلی عقیدہ و تصور ہے( بنونا بنو ابنائنا و بناتنا بنوہن ابناء الرجال الاباعد) لہذا یہ کہنا : (لیکن ولد کے معنی دو طرح مشتمل ہیں: (۱)ایک حقیقی جو بلاواسطہ جنا ہواہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔ (۲)دوسرے مجازی جو کسی واسطہ سےجناہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد نواسی اور نواسے ا س کےمفہوم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سےچلتا ہے،ا س بنا پر نواسہ اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں)۔
    ایسا کہنا قطعا غلط بے بنیاد جھوٹ اور فریب ہے نیز اللہ و رسول کے فرمان کے منافی ہے اور اللہ و رسول پر کھلی افتراء پردازی ہے۔ نیز یہ کہنا بھی غلط ہے کہ(یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے،یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹا یا بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی وغیرہ مراد نہیں لیے جاسکیں گے) کیونکہ اللہ و رسول نے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو حقیقی اولاد کہا ہےلہذا اولاد میں بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسے نواسی سب شامل ہیں اور اولاد کا لفظ سب کا جامع ہے۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ نکالنا کہ بیٹے کے ہوتےہوئے پوتے پوتی کا کوئی حق نہیں ہے وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ قطعا غلط بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے اللہ و رسول نے ایسا بالکل نہیں کہا ہے یہ اللہ و رسول پر کھلی ہوئی افتراء پردازی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:(جعل من ازواجکم بنین و حفدۃ) یعنی تمہارے جوڑوں (بہو بیٹے) اور (بیٹی داماد) کے ذریعہ تمہارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں پیدا کئے۔
    لہذا آیات و احادیث کا غلط معنی و مفہوم نکال کر اس طرح کا فتویٰ دیا جانا سنگین جرم ہے۔ اور جو کوئی بھی یہ فتویٰ دیتا ہے وہ راست طور پر اللہ کا مجرم ہے۔
    اس فتوے میں یہ کہا گیا ہے کہ (پھر احادیث میں ہے کہ وراثت کےمقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کےلئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۲)۔ اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جو میت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے،اس لئے پوتے کےمقابلے میں بیٹا وارث ہوگا۔ شریعت نے وراثت کےسلسلہ میں اقرب فالاقرب کےقانون کوپسند فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ‘‘ ہر ایک کےلئے ہم نے موالی بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔’’ (۴/النساء:۳۳) اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔
    حدیث رسول سے یہ استدلال بھی غلط ہے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
    ﱡلِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًاﱠ [سورة النساء: ٧]
    یعنی جو کچھ والدین اور اقرباء چھوڑ گئے ہوں علاحدہ علاحدہ ہر ایک کے ترکہ میں سے بطور وارث مرد و عورت جو بھی موجود ہوں ہر ایک شخص کے لئے علاحدہ علاحدہ ایک ایک حصہ ہے خواہ ترکہ کا مال کم ہو یا زیادہ نیز حصہ کی مقدار کم بنے یا زیادہ۔ کم و بیش جس مقدار میں جس کا جو بھی حصہ نکلتا ہے وہ سب کا سب اللہ کی جانب سے فرض کیا ہوا ہے جو کہ فریضہ الٰہی ہے۔(سورہ النساء:٧)
    پس بنیادی طورپروہ سبھی لوگ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں کیا ہے وہ صاحب فرض وارث اور اہل فرائض ہیں جن کا حق و حصہ دیا جانا واجب و فرض ہے اور جس کا انکار کفر ہے کیونکہ وہ اللہ کی جانب سے مقرر کئے ہوئے وارث کا حق و حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بذات خود اس کے حق میں فرض کیا ہوا ہے۔
    اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : ﱡيُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُﱠ [سورة النساء: 11]
    یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
    آگے آیت میں فرمایا: ﱡآبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاﱠ [سورة النساء: 11]
    یعنی تمہارے آباء(باپ،دادا، پردادا وغیرہ) ہوں یا تمہارے ابناء(بیٹے، پوتے، پڑپوتے اور نواسے وغیرہ) تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
    ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو ترکہ کا ذکر کیا ہے ایک والدین کا ترکہ اور دوسرے اقرباء کا ترکہ ایک کے حقدار اولاد مرد و عورت۔ اور دوسرے کے حقدار اقرباء۔ والدین کے ترکہ کی تقسیم اس کی اولادوں کے درمیان ہوگی اور اقرباء کے ترکہ کی تقسیم اس کے قریب سے قریب تر رشتہ داروں میں کی جائے گی اس کی بھی تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن ،مجید میں ہی بیان فرمائی ہے۔ کیونکہ وہی وارث پیدا کرنے اور انہیں حقدار و حصہ دار مقرر کرنے اور ان کے حصوں کی مقدار متعین کرنے والا ہے۔ اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے : ﱡوَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا ﱠ [سورة النساء: 33]
    (ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
    اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔ نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔ اس سے معلوم ہوا اور ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
    کلام الٰہی: ﱡمِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ﱠ [سورة النساء: 7، 33] میں والدان کے لفظ کو چھوڑ کر لفظ الاقربون سے یتیم پوتے کے مسئلہ میں استدلا ل و استنباط کرنا اور فتوے دینا حکم لگانا کھلے طور پر کلام الٰہی کی لفظی و معنوی تحریف ہے اور اس تحریف کے بعد من چاہا حکم نکال کر فتویٰ دینا یہودیوں کا طریقہ رہا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنی کتاب وقرآن مجید میں بیان فرمایا ہے: ﱡيُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﱠ [سورة المائدة: 41]
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کا شیوہ بتایا ہے کہ وہ کلمات کو اس کے موقع و محل سے ہٹا کر پھیر بدل کر کےمعنی و مفہوم نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی صحیح و درست معنی و مفہوم ہے لہذا تم اسی کو لازم پکڑو اور اگر یہ معنی و مفہوم نہ ہو تو اس سے بچو۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ اس جیسے فتنے سے دوچار کردے تو تم اس کے لئے کیا کرسکتے ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔
    ہم دیکھ رہے ہیں کہ یتیم پوتے کی وراثت کے سلسلہ میں لوگ اسی طرح کے فتنے کا شکار ہیں کہ جہاں کہیں یتیم پوتے کے حق وراثت کی بات آتی ہے قرآن و حدیث میں غور فکر نہیں کرتے اور ایک تحریف شدہ معنی و مفہوم کو اللہ کا دین و شریعت سمجھتے ہیں اور جو کوئی بھی یتیم پوتے کے استحقاق وراثت کی بات کرتا ہے تو اس فکر کو گمراہ کن اور اس کے پیش کرنے والے کو گمراہ ہی نہیں بلکہ کافر تک قرار دینےسے بھی نہیں چوکتے۔ یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو لوگوں نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے چنانچہ یہ خدمت بہت سارے لوگوں نے ماضی میں بھی انجام دیا تھا اور آج بھی بڑے شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
    فتوے میں کہا گیا ہے: (اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔
    اس میں اتنی بات تو صحیح ہے کہ: (اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا)، یہ کلام الٰہی لفظ الاقربون سے ثابت ہوتا ہے جو اقرباء کے سلسلہ میں ہے اس کا تعلق اولاد و والدین سے نہیں ہے کیونکہ اولاد و والدین خاصکر آباء و اجداد اور ابناء و احفاد کے سلسلہ میں اللہ کا یہ صریحی حکم اور فرمان ہے: ﱡآبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاﱠ [سورة النساء: 11]
    یعنی تمہارے آباء(باپ،دادا، پردادا وغیرہ) ہوں یا تمہارے ابناء(بیٹے، پوتے، پڑپوتے اور نواسے وغیرہ) تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آباء و اجداد اور ابناء و احفاد کے سلسلہ میں صاف طور پر فرمادیا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ اس میں کون تمہارے لئے قریب تر ہے باپ داد یا بیٹے پوتے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا قریب تر ہے اور یتیم پوتا دور والا عصبہ ہے تو یتیم پوتا نہ دور والا ہے اور نہ ہی عصبہ ہی ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آباء و اجداد اور ابناء و احفاد کے سلسلہ میں صاف طور پر فرمادیا ہے کہ ان کے حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں۔ بنا بریں یہ سب کے سب فرائض الٰہی کے مستحق اہل فرائض میں سے ہیں۔
    لہذا فتوے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ : ( لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔ تو یہ حکم اس پوتے کا ہے جس کا باپ موجود ہے ۔ اس پوتے کے لئے یہ حکم نہیں ہے جس کا باپ موجود نہیں ہے وفات پا چکا ہے کیونکہ ایسا پوتا بمنزلہ اولاد کے اپنے باپ کی جگہ ہے۔
    فتوے میں ایک حدیث کا مفہوم یوں پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: (پھر احادیث میں ہے کہ وراثت کےمقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کےلئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۲)
    اور اس سے استدلال یوں کیا گیا ہے: اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جو میت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے،اس لئے پوتے کےمقابلے میں بیٹا وارث ہوگا)۔
    جب کہ حدیث یوں ہے: *-*عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». *[بخاري: حديث رقم: 6732، 6735، 6746، مسلم: حديث رقم: (1615/2)، ترمذي: حديث رقم: 2098، أحمد: حديث رقم: 2657، ]
    ابن عباس d کہتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصوں) کو اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) کے حوالے کردو، پھر جو اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) سے بچ رہے تو وہ میت کے سب سے نزدیکی مرد رشتے دار کا ہے۔
    ایک دوسری حدیث جو کہ صحیح مسلم کی ہے وہ یوں ہے: *-* عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». *[مسلم: حديث رقم: (1615/4)، أبو داؤد: حديث رقم: 2898، إبن ماجه: حديث رقم: 2740]
    ابن عباس d کہتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: مال اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو، جو اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) سے بچ رہے تو وہ میت کے سب سے نزدیکی مرد رشتے دار کا ہے۔
    ان احادیث کے اندر اللہ کے رسول a نے ایک حکم تو یہ دیا ہے کہ میت کا ترکہ اللہ کی کتاب قرآن کریم کے مطابق تقسیم کرو اور دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ اللہ کی کتاب میں جن وارثوں کا ذکراللہ نے فرمایا ان کے درمیان ہی تقسیم کرو کیونکہ وہ سب اللہ کے مقرر کردہ حصے (فریضہ الٰہی) کے مستحق اہل فرائض ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جن وارثوں کا نام لیا ہے ان میں سب سے اولین صاحب فرض میت کی مذکر و مونث اولادیں اور ان کا فریضہ جو کہ اولین فریضہ ہے وہ (للذکر مثل حظ الانثیین)ہے اس کے بعد دوسرا فریضہ ثلثان(دو تہائی) ہے۔ اور تیسرا فریضہ نصف(آدھا) ہے چنانچہ ان تینوں فریضوں کے مستحق لوگ اہل فرائض میں سے ہیں۔ اور یہ تینوں فریضے مرنے والے کے بھائی بہن کے لئے ہیں جب مرنے والا صاحب اولاد نہ مرا ہو یعنی اس کی میراث کلالہ بن گئی ہو۔ چنانچہ بھائی بہن بھی اہل فرائض میں سے ہیں خواہ وہ عینی ہوں یا علاتی ہوں یا اخیافی ہوں سبھی اہل فرائض میں سے ہیں۔ اب اس کے بعد باقی بچے والدین اور ازواج تو ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے فریضے مقرر فرمائے ہیں ایک فریضہ سدس(چھٹا حصہ) جو والدین کا ہے اس صورت میں جب میت صاحب اولاد مرا ہو۔اور اگر میت صاحب اولاد نہ ہو اور اس کے ایک سے زیادہ بھائی بہن نہ ہوں تو ماں کو ثلث( ایک تہائی) اور بقیہ باپ کو ملے گا۔ اب عقد یمین کے تحت ازواج(شوہر بیوی) کا فریضہ مقرر فرمایا : (۱) نصف(آدھا)، ربع(چوتھائی) اولاد نہ ہونے کی صورت میں اور اولاد ہونے کی صورت میں ربع(چوتھائی)، ثمن(آٹھواں)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل فرائض اور اصحاب فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حقدار و حصہ دار مقرر فرمایا جن کے درمیان ترکہ کی تقسیم کا حکم دیا۔ اور اس کی تاکید اللہ کے رسول a نے فرمائی ہے۔ اور ایک تیسری چیز جو فرمائی ہے جو خاص خاص صورتوں کے لئے ہے۔ وہ یہ ہے کہ بسا اوقات ان اہل فرائض کو ان کے حصے دیدئے جانے کے بعد ہوتا یہ ہے کہ ترکہ کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے مثلا کسی شخص کی بیوی ہو اور ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں جیسا کہ ٍصحابی رسول a سعد بن ربیع جو غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان کی بیوی و بیٹیوں کے سلسلہ میں آیات میراث و احکام میراث نازل ہوئے تھے تو اللہ کے رسول a نے ٍصحابی رسول a سعد بن ربیع کے بھائیوں سے کہا کہ بقیہ تم لے لو۔ اس جیسی صورت حال میں باقی بچے ہوئے ترکہ کے مال کے تعلق سے اللہ کے رسول a نے یہ بات فرمائی کہ باقی بچا ہوا مال اولیٰ رجل ذکر کے لئے ہے۔ یعنی یہ خاص حکم ہے اور خاص صورت کے لئے ہے یعنی صرف اس باقی بچے ہوئے مال کے تعلق سے ہے جو اہل فرائض کو دینے کے بعد بچ رہے اور یہ عام حکم نہیں ہے کہ اس کو ہر جگہ ہر صورت پر فٹ کیا جائے بلکہ خاص خاص صورتوں میں اس کی ضرورت پڑتی ہے تو اس صورت میں جو بھی اولیٰ رجل ذکر ہوگا اسے دیدیا جائے اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اولیٰ رجل ذکر کا مصداق ان اہل فرائض میں سے کوئی نہیں اور خاص کر مذکر اولاد (بیٹا پوتا، پڑپوتا وغیرہ) تو اس میں قطعی طور پر داخل نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ اس کا مصداق ہے کیونکہ وہ ایک خصوصی فریضہ کا مالک ہے اور وہ ہے (للذکر مثل حظ الانثیین) اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک مخصوص لفظ بھی استعمال کیا ہے اور وہ ہے(حظ) جب کہ عمومی لفظ (نصیب) ہے جو سارے وارثوں کے حق میں استعمال کیا ہے۔ اور جب میت کی مذکر و مونث اولاد ہوں تو ان کا حصہ مخصوصہ (حظ) ہوتا ہے۔ چنانچہ میت کی مذکر اولادیں خواہ وہ بیٹے ہوں یا پوتے پڑپوتے وغیرہ قطعی طور پر (اولیٰ رجل ذکر) کا مصداق نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اہل فرائض میں سے ہیں اور اہل فرائض میں مخصوص اولیٰ درجہ کے ہیں۔ لہذا انہیں (اولیٰ رجل ذکر) کا مصداق ہرگز نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس حدیث کو یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کے حق میں پیش کرنا اور اس کو دلیل بنانا کھلے طور پر کلام الٰہی و فرمان رسول کی لفظی و معنوی تحریف ہے اور اس سے استنباط و استدلال اور حکم لگانا و فتویٰ دینا باطل و مردود ہے۔
    جو لوگ یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ کا انکار کرتے ہیں وہ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ دادا کے اوپر یہ واجب اور فرض ہے کہ وہ یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرکے ہی مرے۔ تو یہ جرم در جرم ہے کیونکہ جس شخص کو بقول ان کے اللہ نے کچھ دیا ہی نہیں اور یوں ہی انہیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے تو آپ کون ہیں انہیں دینے والے اور دادا کو مجبور کرنے والے کہ دادا ان کے حق میں لازما وصیت کر کے ہی مرے۔ تو جو ایسا نہیں کر پاتا کہ زندگی نے اس کو اتنا موقع ہی نہ دیا کہ وہ ایسا کرسکے تو وہ فرض کی عدم ادائیگی کا مجرم ٹھہرا۔
    فرمان باری تعالیٰ ہے: ﱡمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (36) أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (37) إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (38) أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (39)ﱠ [سورة القلم]
    ایسی وصیت کو وصیت واجبہ کا نام دیا گیا ہے اس کے مطابق قانون بھی بنایا گیا ہے جیسا کہ مصر وغیرہ میں وصیت واجبہ کا قانون پایا جاتا ہے۔ تو اس وصیت واجبہ کی دلیل یتیم پوتے کے حق میں ایسی آیت ہے جو منسوخ آیت ہے اور اس کا حکم آیات میراث کے نزول کے بعد منسوخ ہوچکا ہے۔ اور وہ ہے سورہ بقرہ کی آیت نمبر (۱۸۰)۔ اس میں وصیت کا حکم والدہیں اور اقرباء کے لئے تھا۔ اولاد کے لئے نہیں۔ جبکہ یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ کا مسئلہ اولاد کے تعلق سے ہے جو اس پر فٹ نہیں ہوتا ہے۔ لہذا اس منسوخ شدہ آیت سے یتیم پوتے کے حق میں وصیت دادا کے اوپر واجب کرنا بھی تحریف کلم میں سے ہے اور استدلال و استنباط اور حکم و فتویٰ باطل و مردود ہے۔
    جب کہ اس کے بالمقابل اللہ کا یہ حکم اور فرمان اور فرض وصیت ہے جو اس نے پوتے کے پیدا ہوتے ہی اور اس کے یتیم ہوتے ہی کردی تھی اور وہ یہ ہے: فرمان باری تعالیٰ ہے : ﱡيُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْﱠ [سورة النساء: 11]
    یعنی جو بھی تمہاری اولادیں ہیں مذکر مونث، واسطہ بالواسطہ سبھی کے تعلق سے اللہ تعالی کا یہ حکم، فرمان اور وصیت ہے کہ تم ان کے درمیان عدل و انصاف کرو اور مساوات و برابری کا معاملہ کرو۔ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو دو اور کسی کو محروم کرو۔ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ اللہ کی وصیت، اس کا تاکیدی حکم اور فریضہ ہے نیز اللہ تعالیٰ تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے جس کی خلاف ورزی کا انجام انتہائی خطرناک یعنی جہنم کی دائمی آگ کا ذلت آمیز عذاب ہے۔
    لہذا اگر کوئی شخص اللہ کی اس وصیت کی خلاف ورزی یا انکار کرتا ہے تو وہ اللہ کے فرمان کا منکر ہے اور اس سے کفر لازم آتا ہے اور اگر کوئی شخص اس وصیت الٰہی کے بالمقابل کوئی وصیت کرتا ہے تو وہ اللہ کی وصیت کا مقابلہ کرتا ہے جس سے شرک لازم آتا ہے۔
    الحاصل دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کی محجوبیت اور دادا کے اوپر وصیت کو واجب قرار دینے کے جملہ فتاوے صریحی طور خلاف کتاب و سنت ہیں لہذا سب کے سب باطل و مردود ہیں ما انزل اللہ بہا من سلطان۔
    اللہ کے رسول کا فرمان ہے: ترکہ کا مال حصے داروں کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو۔ لہذا اللہ کے رسول کے اس فرمان کی پاسداری اوع اس کی تابعداری کی جانی چاہئے اور اللہ کی فرض وصیت جو اس نے اولاد کے حق میں کی ہے اسے نافذ کیا جانا چاہئے یہی اللہ و رسول کا حکم و فرمان ہے اور یہی اللہ کا دین و شریعت ہے یعنی اتباع کتاب و سنت علی منہج الصحابہ۔ ہذا ماعندی و اللہ تعالیِ اعلم بالصواب و با للہ تعالیِ التوفیق و النجاح۔ کتبہ العبد الفقیر الراجی لعفو ربہ القدیر ۔ مسرور احمد الفرائضی۔

  4. دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا قرآن و حدیث کی روشنی میں محجوب نہیں ہے اس کی تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے ہماری کتاب
    (دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ)
    Download book from archive.org: https://bit.ly/2XOkQYt
    جی ہاں دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کا حصہ ہے۔ وہی حصہ ہے جو اس کے باپ کا بنتا ہے کیونکہ بیٹوں کےبیٹےان بیٹوںکےقائم مقام ہوا کرتے ہیں جیساکہ زید بن ثابت کا قول صحیح بخاری میں موجود ہے۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے ہماری کتاب (دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ)
    Download book from archive.org: https://bit.ly/2XOkQYt

Leave a Reply