• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • طیب اردگان کا دورہ ۔۔۔۔اور پاک ترک سکولز کے عملہ کی واپسی

طیب اردگان کا دورہ ۔۔۔۔اور پاک ترک سکولز کے عملہ کی واپسی

اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں جہاں ترقی یافتہ ممالک نت نئی ایجادات کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رہے ہیں اور اپنے علم ، تجربے اور مہارت سے رموز کائنات کی کھوج لگا رہے ہیں، وہیں تیسری دنیا کے بیشتر انسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایسے میں جہاں ترقی یافتہ ممالک میں بلیوں اور کتوں کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے، پسماندہ ممالک میں بسا اوقات انسانی زندگی کی بقاءکے لئے روٹی کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک گھونٹ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں شاید چند نام ہوں گے جو قدرتی وسائل سے محروم ہیں جب کہ بیشتر ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے معروضی سیاسی حالات ، بد امنی، خانہ جنگی، دہشت گردی اور کرپشن کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔

غربت کی چکی میں پستی تیسری دنیا کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ان گنت ادارے وجود میں آئے جو دنیا سے غربت کے خاتمے، بھوک،بنیادی تعلیم، چھت کی فراہمی، صحت، کم عمری میں اموات سے بچاِو ،ذہنی صحت، صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام جیسے اہم شعبوں میں گراں قدر کام کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ہی کی سربراہی میں دنیا کے تمام ممالک، عالمی ترقیاتی اداروں اور سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں نے دنیا کے ایسے ہی سلگتے مسائل کے حل کے لئے اس صدی کے آغاز پر میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کا تعین کیا تھا اور ان اہداف کے حصول کے لئے سر توڑ کوشش بھی کر رہے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں میں علاقائی تنظیموں سے لے کر ملکی اور عالمی سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں اور بعض تنظیموں کا دائرہ کار بلامبالغہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور ان کے سالانہ بجٹ کئی ملکوں کے سرکاری بجٹ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر مخلص حکومتیں ان اداروں کے ساتھ اچھا “کوآرڈینیشن” پیدا کریں تو یہ ادارے واقعتابڑی تبدیلی لانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان اداروں کا کردار حکومت کے معاون اداروں کا ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض ڈونر ایجنسیز تو ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری ڈویلپمنٹ فنڈ کو موثر انداز میں خرچ کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں تاہم ان کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے دائرہ کار میں انفرادی ڈونرز سے فنڈ اکٹھا کر کے مطلوبہ جگہ پہنچاتی ہیں اور انسانیت کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔

یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد، حکومت پاکستان کے گزشتہ روز پاکستان میں کام کرنے والے پاک ترک سکولوں کے ترک اساتذہ اور منتظمین کو ملک سے نکل جانے کا حکم دینے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے۔حکومت وقت نے یہ فیصلہ ترک صدر رجب طیب اردگان کی پاکستان آمد کے موقع پر کیا ہے ۔ اردگان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں واشگاف الفاظ میں الزام لگایا کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم “فیتو” اس کا تختہ الٹنے کی سازش کے پیچھے تھی انہوں نے “فیتو” کو نہ صرف دہشت گرد بلکہ پاکستان کی سیکیورٹی کے لئے بھی خطرہ قرار دیا اور اس معاملے میں ان کا ساتھ دینے پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

یہ تو تھا نام نہاد دوستی اور بھائی چارے کے پرچار کا ایک رخ جب کہ دوسرا رخ یہ ہے کہ گزشتہ 21 سال سے پاکستان میں تعلیمی شعبہ میں کام کرنے والی رفاہی تنظیم پہلے دن سے ملک کے تمام متعلقہ اداروں میں رجسٹرڈ ہے، ہر طرح کے قوانین کا احترام کرتی ہے ، لاکھوں طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر چکی ہے ، پاکستانی اور ترک مشترکہ طور پر اس ادارے کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اور تو اور اس پورے عرصہ میں ان اداروں میں کوئی ایک بھی ایسا واقع رپورٹ نہیں ہوا کہ جس سے ان اداروں کا تشدد ،انتہا پسندی یا دہشت گردی سےکوئی تعلق جوڑا جا سکے۔ ڈان نیوز کی ایک سٹوری کے مطابق ایک والد جس کے بچے آٹھ سال سے پاک ترک سکول میں زیر تعلیم ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہیں حیرت ہے ترک حکومت ان سکولز کو فتح اللہ گولن کے نظریے کے ساتھ جوڑ رہی ہے جب کہ ہم نے اس عرصہ میں ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا۔ ایک اور والد نے اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ یہ ہم مسلمانوں کا مسئلہ ہے کہ ہم تعلیم کو سیاست کے ساتھ نتھی کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سکولوں کے خلاف جارحانہ اقدام سے ترکی کا امیج متاثر ہوا ہے۔

فتح اللہ گولن اس سال جولائی میں طیب اردگان کے خلاف ہونے والی بغاوت کے پیچھے تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر اگر یہ فیصلہ ان اداروں کے نصاب،طریقہ تدریس یا ایسے معاملات کے حوالے سے کیا جاتا جن سے پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا تو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن شواہد یہ کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ ماضی میں کبھی بھی ان اساتذہ کو ویزوں کے حوالے سے کو ئی پریشانی نہیں رہی، بلکہ سابق صوبائی وزیرتعلیم سمیت متعدد تعلیمی اورسماجی شخصیات کے تعریفی جملے ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔اس عجلت کا مظاہرہ کرنے اورملک چھوڑنے کے لئے صرف تین دن کا وقت دینے سے لگتا ہے کہ اردگان صاحب تشریف لائے ہی اسی مقصد کے لئے ہیں اور غلامی پر دوستی کا غلاف چڑھائے ہمارے حکمران ان کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے۔

فتح اللہ گولن کی فیتو تنظیم امریکہ سمیت 120 سے زائد ملکوں میں 1000 سے زائد سکول چلا رہی ہے اور معلوم تاریخ کے مطابق ابھی تک کسی اور ملک نے طیب اردگان سے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز کو اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے اور جب تک کسی بین الاقوامی ادارے کے خلاف صریح شواہد نہیں مل جاتے کہ وہ میزبان ملک میں کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہے اس کے خلاف ایسی کسی کاروائی کی ممانعت ہونی چاہیئے۔ حکومت کا یہ عمل نہ صرف اخلاقی بلکہ بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے بھی منافی ہے۔

مجھے اندازہ ہے کہ پندرہ پندرہ سال سے پاکستان میں مقیم اور پاک ترک دوستی کا دم بھرنے والے وہ اساتذہ کس دل سے واپسی کی تیاری کر رہیں ہوں گے اور وہاں پہنچ کر پیش آنے والے اندیشوں سے کیسے نمٹ رہے ہوں گے لیکن میری ان سے گزارش ہے کہ وہ جاتے ہوئے ہماری حکومت کا شکریہ ادا کرکے جائیں کہ ان کی 21 سالہ خدمات کے اعتراف میں ہم نے انہیں تین دن بعد خود ہی چلے جانے کا حکم دے دیا ہے ورنہ ہم نے ماضی میں دوستی کاحق اس طرح بھی ادا کیا ہے کہ ہاتھوں اور پیروں میں ہتھکڑیاں اور سروں پر کالی ٹوپیاں پہنا کر اپنے دوستوں کومطلوبہ افرادبہم پہنچاتےتھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ہاں ایک آخری بات ان تمام اساتذہ سے گزارش ہے کہ اتنا عرصہ جو ہم نے ان کو اپنے ملک میں رہنے دیا ، ان کی مہمان نوازی کی ، استاد کے منصب پر فائز کیا اور بالا خر عزت و توقیر کے ساتھ ان کو اپنے ملک سے رخصت کیا ان سب پر ممنون ہونے کی ضرورت نہیں وہ ہمارے ایوان صدرمیں پائے جاتے ہیں اور احسانات کا بوجھ بھی اپنے دل پر لے کر نہ جائیں ، صرف اتنا کریں کہ اپنی آنے والی نسل کو پاکستان کی مہمان نوازی، وسعت قلبی، دریا دلی اور سب سے بڑھ کر دوستی کے بارے میں ضرور آگاہ کر کے اس دنیا سے رخصت ہوں اور اگر ممکن ہو تو وصیت کر دیں کہ یہ امانت اگلی سات نسلوں تک منتقل کرتے جائیں اور ہر آنے والی نسل کو پابند کرتے جائیں کہ کوئی بھی اس مملکت خداداد کا رخ نہ کرے مبادا کہ وہ احسانات کہ جن کا بوجھ اٹھا کر آپ بخیرو خوبی یہاں سے جا رہے ہیں وہ ان کا بار اٹھانے کے قابل نہ ہوں۔

Facebook Comments

توصیف احمد
گزشتہ آٹھ سال سے مختلف تعلیمی اور رفاہی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ آج کل پاکستان کی ملک گیر این جی او الخدمت فائونڈیشن کے سینئیر پروگرام مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بچوں اور یوتھ کی کردار سازی کے لئے ٹرینر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور سیر و سیاحت اور دوستیاں بنانے کے فن کے ماہر ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”طیب اردگان کا دورہ ۔۔۔۔اور پاک ترک سکولز کے عملہ کی واپسی

  1. توصیف احمد کو قریب سے جاننے والےان کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ھیں قدرت نےانہیں ذہانت اور لیاقت سے نوازا ھے اب جو قلم اٹھایا ہے توتحریر کے جوہر بھی کھلتے چلے جائیں گے انشاءاللہ

  2. تو صیف بھائی۔۔۔”ہ اپنی آنے والی نسل کو پاکستان کی مہمان نوازی، وسعت قلبی، دریا دلی اور سب سے بڑھ کر دوستی کے بارے میں ضرور آگاہ کر کے اس دنیا سے رخصت ہوں اور اگر ممکن ہو تو وصیت کر دیں کہ یہ امانت اگلی سات نسلوں تک منتقل کرتے جائیں اور ہر آنے والی نسل کو پابند کرتے جائیں کہ کوئی بھی اس مملکت خداداد کا رخ نہ کرے مبادا کہ وہ احسانات کہ جن کا بوجھ اٹھا کر آپ بخیرو خوبی یہاں سے جا رہے ہیں وہ ان کا بار اٹھانے کے قابل نہ ہوں۔”

    واقعی آپ کی تحریر ہے؟؟؟؟؟

  3. توصیف بھائ
    اچھی تحریر ھے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ھے کہ ھمارے مہمان ترکی کی طرف سے ناکام بغاوت کے بعد سے پریشر تھا کہ ان سکولوں کو بند کیا جاۓ تو ھماری حکومت نے یہ پریشر ریلیز کرنے کے لیے عملے کی تبدیلی والی حکمت عملی اپنائ
    رھا سکول بند کرانے کا معاملہ یا عملہ تبدیلی کا تو 100% درست ھے اپ کے اپنے ملک میں آپ کو ایجوکیشن منسٹری نہیں دی جاتی اور اپ کے اتحادی عمران خان تک اس پریشر کو برداشت نہ کر سکے اور ایجوکیشن کی بجاے بلدیات دی جو کہ ایک سیاسی پارٹی بلدیات کو اپنے پاس رکھتی ھے
    یہ انٹرنیشنل پریشر ز ھیں اور لاعلمی کی بنا پر نہیں بلکہ لارڈ میکالے کے نظریے کا تسلسل ھے اور گولن امریکہ میں بیٹھ کے اسی سے مدد لے کر اسلام کے بنیادی تصورات کے خلاف کام کرے ھے
    اور جب اپ امت اور خلافت پہ کام کر رھے ھوں تو ھمارے مہمان حق بجانب ھیں تمام مطالبات پہ اور یاد رھے دنیا میں گروہ دو ھی ھیں لہذا ھمیں بہت کلئیر ھونا ھو گا

Leave a Reply