معراج محمد خان ۔۔۔ روشنی کا جنگجو

پندرہ برس ہونے کو ہیں جب مشہور مصنف پاوٗلو کوہیلو کی کتاب Manual Of The Warrior of Light کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا ۔ قدیم دانش سے استفادہ کرتے ہوئے مصنف نے ’روشنی کے جنگجو‘ کی خصوصیات اور اُس کے کردار کے کئی مخفی پہلووں کو اختصار سے بیان کیا۔ وہ کہتا ہے کہ
• روشنی کا جنگجو جانتا ہے کہ اُس کے بہترین اُستاد عوام ہی ہیں جن کے ساتھ اُس کی میدان جنگ میں رفاقت ہے۔
• روشنی کا جنگجو چٹانوں کی سی خصوصیات رکھتا ہے
• روشنی کا جنگجو ناانصافی پر کبھی خاموش نہیں رہتا
• روشنی کا جنگجو کسی حالت میں بھی بزدلی نہیں دکھاتا
• روشنی کا جنگجو ( اپنے نظریات) پر پختہ ایمان رکھتا ہے
• روشنی کا جنگجو ہمیشہ قابل اعتماد ہوتا ہے
• روشنی کا جنگجو استقلال اور بہادری کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوتا ہے۔

ہمار ا معراج محمد خان روشنی کے جنگجو کی تمام خصوصیات رکھتا تھا اور نصف صدی گواہ ہے کہ اُس نے اِن سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ ہوائیں اُس پر ٹوٹ ٹوٹ پڑیں۔ آندھیوں نے اُسے قدم قدم پر گھیرا۔ اندھیروں کے کالے بادل اپنی تمام تر منتقم مزاجی کے ساتھ اُس پر برسے لیکن وہ روشنی کا جنگجو تھا، سب کے سامنے ڈٹا رہا۔ جیلیں، قید تنہائیِ، سڑکوں پر پولیس کا تشدد ، گھر پر چھاپے، معاشی تنگدستی اور ناقابل بیان مصائب برداشت کیے اور ریاست اور جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیا تک کی سب فوجی آمریتوں اور بھٹو کی سویلین حکومت سمیت اس نے ہر دور ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ، عملی جدوجہد کی اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنا لیکن وہ چٹان بنا رہا۔ اپنے نظریات ، اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے پچاس برس سے زیادہ برسرِپیکار رہا۔
ہماری بد قسمتی دیکھیے کہ آج روشنی کا کوئی جنگجو ہمارا ہیرو نہیں۔ ہماری تمام تر نصابی اور زیادہ تر غیر نصابی تاریخ میں جن جنگجووں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہ سب اپنے اقتدار، طاقت ، علاقے پر عملداری،مال و دولت کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور اُن کی ہوس کی جنگوں میں لاکھوں عام لوگوں پر موت اور تباہی نازل کر دی گئی۔ قوم اپنے ہیروں سے پہچانی جاتی ہے۔ اگرآپ کا ہیرو لٹیرا محمود غزنوی اور حملہ آور غوری ہو گا تو آپ کے اندر ظلم و بربریت کہ تہیں جمی ہوں گی جو آپ کو کبھی اپنی مٹی سے روشناس ہی نہ ہونے دیں گی۔ آپ کبھی اپنے عوام سے محبت کا رشتہ بنا ہی نہ سکیں گے اور ہمیشہ ایسوں کی ہی تلاش میں رہیں گے، ایسوں کے ہی معترف رہیں گے جن کا ایمان اور جن کی پہچان غزنوی اور غوری میزائل ہیں!

یہاں میرے بہت سے محترم دوست موجود ہیں جن کی معراج محمد خان سے مجھ سے کہیں زیادہ اور طویل ذاتی قربت اور سیاسی وابستگی رہی ہے۔ وہ زیادہ بہتر بات کریں گے لیکن مجھے اپنے روشنی کے جنگجو کے بارے میں صرف دو باتیں اورکہنی ہیں جو میں نے چالیس برس سے زیادہ عرصہ اُن سے انگنت ملاقاتوں میں محسوس کیں۔ پہلی بات تو میں اُن کے انسانی رویوں اور انسانی جذبوں کے بارے میں کہوں گا۔ میں نے بہت سے پاکستانی انقلابیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ جیلیں، تشدد ، سختیاں اور معاشی صعوبتیں برداشت کر کر اُن کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور اُن میں سے جھرنے پھوٹنے بند ہو جاتے ہیں۔ کئی منتقم المزاج، میکانکی اور سنکی ہو جاتے ہیں۔ لیکن معراج محمد خان صرف تقریر کے دوران ہی اپنا جوش خطابت دکھاتا تھا۔ دوستوں اور اردگرد کے سب لوگوں کے ساتھ اُس کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ رہا اوروہ ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرتا ۔ اُس رومان پسند انقلابی نے بدترین حالات میں بھی اپنی حسِ مزاح اور اپنی شفتگی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کسی محفل میں اُس کی موجودگی پورے ماحول کو ایک خوشگوار توانائی سے ہمکنار کر دیتی ۔وہ دوستوں کی محفلوں میں صرف جیل کے قصے ہی نہیں سناتا تھا بلکہ اپنے والد مولوی تاج محمد کے دلچسپ قصے بھی سناتا کہ جب انہوں نے جوزف سٹالن کو خط لکھا کہ میرے بیٹے کمیونسٹ ہو گئے ہیں اس لیے اپنی اکلوتی بیٹی سوتیلانا کا رشتہ دے دو۔ جب معراج کے ایک بھائی وہاج بن تاج نے فلمی گیت لکھنے شروع کیے تو دکھی پریم نگری کا تخلص اپنایا تو والد نے انہیں بُلایا اور پوچھا کہ’’ بیٹا بتاؤ تو سہی کہ تمہیں آخر دکھ کیا ہے؟ ‘‘

ایک قید سے رہائی اور دوسری قید میں جانے کے درمیانی وقفوں میں ہمارے روشنی کے جنگجو نے جو سیاست کی وہ نظریاتی تھی، ذاتی نہیں۔ انہوں نےکبھی اپنی ذاتی انا کو اپنی پاکیزہ سیاست کے راستے میں نہیں آنے دیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جنرل ضیا نے انہیں رہا کیا تو کچھ عرصہ بعد وہ لاہور آئے۔ تب بھٹو جیل میں تھے اور بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو نظر بند تھیں۔ فرید کوٹ ہاؤس میں نیشنل عوامی پارٹی کے دفتر کی چھت پر اُن کے لیے جلسہ ہوا جس میں انہوں نے بھرپور انداز میں بھٹو خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا تو لوگ دنگ رہ گئے کہ کیسا آدمی ہے جو ابھی ابھی بھٹو کی قید سے چھوٹا ہے اور انہی کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب جنوری 1979 میں بھٹو پھانسی کوٹھڑی میں تھے اور پیپلز پارٹی پر سرکاری قبضہ کی کوششیں عروج پر تھیں ۔ میں اُن دنوں روزنامہ امروز سے برطرف کیاجا چکا تھا اور ہفت روزہ مستقبل کا ایسوسی ایٹ ایڈیٹر تھا ۔ تب بیگم نصرت بھٹو نے سرکاری قبضہ کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معراج سے کئی ملاقاتیں کیں۔ اور یہ افواہ پھیل گئی کہ معراج کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے۔ ہم نے ارشاد راؤ کا معراج کے ساتھ ایک انٹرویو شائع کیا جس میں راؤ نے پوچھا کہ ’’ اخبارات میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آپ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے ہیں ؟ تو معراج کا جواب سنیے،’’ وہ شخص ذوالفقار علی بھٹو جو زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑا ہے اسے پارٹی قیادت سے ہٹانا اورمجھے یا کسی اور شخص کو اُس مقام پر فائز کرنا انسانیت اور شرافت کی تذلیل کے مترادف ہےآپ مجھ سے اس کی توقع نہیں کر سکتے۔ ‘‘

آپ معراج کا دوٹوک جواب دیکھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ آج پاکستان میں کس قماش کے سیاستدان ہیں اور کس قسم کی بد قماش سیاست ہو رہی ہے۔ وہ اپنے تئیں سب جنگجو تو ہوں گے لیکن اُن میں روشنی کا جنگجو کوئی بھی نہیں۔ ۔۔۔آج معراج محمد خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے یہاں پاکستان، یورپ اور دوسرے ملکوں سے جمع ہونے والے سب دوستوں کو دیکھ کر اوراپنے وطن عزیز کے موجودہ حالات کو دیکھ کر۔۔۔
اِک درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمراز احسن
لندن یونیورسٹی کے سکول آف اوریئنٹل واینڈافریقن سٹڈیز میں معراج محمد خان کی یاد میں ہونے والے جلسہ میں پڑھا گیا
22 جولائی 2017!

Facebook Comments

ہمراز احسن
ہمراز احسن پاکستان کی صحافت اور تحریک مزاحمت کا بڑا نام ہیں۔ آپ لندن میں مقیم اور طلبا کی ذہنی و روحانی نشوونما میں مصروف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”معراج محمد خان ۔۔۔ روشنی کا جنگجو

Leave a Reply