ادھوری ذات۔۔۔۔اسامہ ریاض

رات کی تاریکی سے کہیں زیادہ اُس کے اندر کی تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ سوالوں کا ایک طوفان اُس کی روح کو تارتار کر رہا تھا۔ آج پھر ایک تقریب میں اُس کی عزت کے پرخچے اُڑا دئیے گئے تھے لیکن اُس کے جسم کو گدوں کی طرح نوچنے والے یہ سب کرنے کے بعد بھی عزت دار ہی ٹھرے تھے اور وہ ۔۔۔۔۔۔ ؟؟
سنسان راستے پر ننگے پاوں پھٹی قمیض بغیر ڈوپٹے وہ دوڑ رہی تھی۔۔ ستارے رات کے آغوش سے نکلنے کو تھے۔وہ اپنے وجود سے لاعلم یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ کب کہاں پیدا ہوئی یا ہوا تھا لیکن ایک بات اُس کو معلوم تھی کہہ لوگ اُس کے وجود پر ہنستے تھی۔ وہ اکثر شیشے کے سامنے کپڑے اُتار کر اپنے وجود کو ٹٹولتی کہہ ایسی کیا خرابی ہے اُس میں۔۔؟ اس کے پاس بھی دو آنکھیں تھی، ناک، کان ،زبان اور سبھی جیسا دل تھا پھر لوگ اُس کو جانوروں سے بھی حقیر کیوں سمجھتے تھے۔۔۔ راستہ طویل ہوتا جارہا تھا۔۔ وہ جہاں جاتی تھی لوگ اسکی بد دعا سے ڈرتے تھے۔ ایسا کیوں تھا وہ نہیں جانتی تھی اگر اسکی دُعا بے اثر تھی تو بد دعا کیوں اتنا اثر رکھتی تھی؟۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ معاشرہ درندوں کا معاشرہ ہے جو ہجڑوں کی بد دعا سے ڈرتے ہیں مگر ان کی تذلیل کرتے وقت خدا سے نہیں ڈرتے جس نے انہیں بنایا۔۔قصور انکا نہیں ہے قصور اِس معاشرے کا ہے کہ جس نے انہیں تذلیل اور ہوس کا ایک سمبل بنا دیا ہے ساری زندگی کے حج، نماز، روزے رکھ کر بھی آپ اُن کے سامنے آنے پر راستہ بدل جاتے ہیں، اتنا علم حاصل کر کہ بھی جاہلانہ سوچ کو خیر آباد نہیں کہ سکتے تو خود سے سوال کریں کہ کیا آپ مسلمان ہیں ؟ ویسے رکیں رکیں۔۔۔ پہلے یہ سوال کریں کیا آپ انسان ہیں ؟
اگر آپ خدا کی مخلوق سے نفرت کر رہے ہیں، اُن کی حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ رب سے محبت کے دعوے بھی کر رہے ہیں
تو آپ خود سے اور خدا سے جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ آنے والی نسلیں آپ سے سوال کرے گی کہ اس مخلوق کا کیا قصور تھا کہ ہوس کا نشانہ بنا کر اُسے پٹرول ڈال کر آگ لگا دی گئی؟ قصور اُس ماں کا بھی نہیں جو ایک ٹرانس جینڈر کو جنم دیتی ہے ۔۔۔
زندگی محض تماشہ نہیں ہے نہ آپ کی اور نہ ان کی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے رب کے ہاں آپ سے بہتر ہوں۔ ذرا اُس ماں کو تصور میں لائیں جو معاشرے کی اِن گندی ہیچ رسومات میں پڑھ جاتی ہے اور سفاکیت سے اپنی اولاد کو زندہ درگور کر دیتی ہے ہم کبھی اس ماں کی تکلیف کو نہیں جان سکتے مگر ہاں! ہنس سکتے ہیں، بدعا سے ڈر سکتے ہیں مگر عزت نہیں دے سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہو سکتا ہے اگر ہم یہ کر لیں تو یہ معاشرہ ہمیں قبول نہ کرے اور ہم پر کفر کا فتوی لگا دے۔ تو بہتر یہی ہے کہ اس معاشرے کے غلط کو بھی صحیح مانتے جاؤ اور سب اچھا ہے سب اچھا ہے کے بجھن گاتے رہو ۔ مگر کل اگر کسی نے گریبان پکڑ کر یہ پوچھ لیا کہ میرا کیا قصور تھا؟ رب تو ہم دونوں کا سانجھا تھا؟ پھر پناہ معاشرہ بھی نہیں دے گا آپکو! ہم کسی کے سامنے اپنے عزت نفس کے لٹ جانے پر شور مچاتے ہیں روتے ترپتے ہیں اور کہاں بیچارے وہ لوگ اپنے کو وجود کو بدعا بنا کر ظالموں کو دیتے ہیں۔کوئی کیسے اپنے وجود کو گالی دے سکتا ہے ؟ اور کس حوصلے سے ؟ اس فریاد کو پڑھئے اور شرم سے سر دھن لیجئے !!!
اسامہ ریاض

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply