لاہورکاواقعہ اور مدارس میں اصلاحات۔۔سلمان

لاہور میں مبینہ طورپر مدرسہ میں جوواقعہ پیش آیا اس کی تحقیق ہونی چاہیے اور قانون کے تحت قرار واقعی سزادی جانی چاہیے۔ کچھ لوگوں نے اس کو بنیادبناکر مدارس, مساجد اور خود اسلام کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یہ جنیرلائزیشن منصفانہ نہیں۔ ابھی کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو آٹھ سال کی سزا سنائی گئی جنسی ہراسانی کے کیس میں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یونیورسٹیاں بند کردیں اور اعلیٰ  تعلیم کی مخالفت کی جاۓ۔ اسلام میں تو بہت واضح طور پر ایسا فعل ایک انتہائی بڑا گناہ ہے جس کی سزا صرف اس دنیا تک محدود نہیں۔

مدارس کی انتظامیہ کو بھی اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے انتظامی اصلاحات پر غورکرنا چاہیے۔ لاہور کے واقعہ میں جو مزید تشویشناک پہلو سامنے آیا وہ یہ کہ متعلقہ لوگوں اور اداروں کو شکایت بھی کی گئی مگر کوئی تفتیش اور اقدام نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس معاملے کی مزید تفتیش ہونی چاہیے کہ متعلقہ لوگوں نے شکایت کاکیوں نوٹس نہیں لیا۔ ظلم اور بے انصافی توکسی صورت نہیں روا رکھی جاسکتی صرف ادارے اور منتظمین کی ساکھ کو بچانے کے لیے۔

یہ کہاوت مشہور ہے ،مدارس میں والدین کی جانب سے کہ” چمڑی آپ کی ہڈی ہماری۔” جب جسم پر اختیار دیا جاۓ گا تو اس کا   نتیجہ کبھی  تشدد   اور کبھی بد فعلی کی صورت میں نکلے گا۔

ایک اورپہلو معاشی بھی ہے۔ چونکہ فارغ التحصیل طلباء کے پاس سواۓ دینی تعلیم کے کوئی ہنر اور سرمایہ عام طورپر نہیں ہوتا تو معاشی سرگرمی کا میدان مسجد اور مدرسے تک رہتا ہے۔ اس سے مدارس کی بہتات  تو ہوگئی مگر ان کی نگرانی کا کماحقہ انتظام نہیں۔

گفتگو میں تصنع اور بے جا تکلف بھی وجہ ہے کہ شکایت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں اور ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ مولانا, مد ظلہم, دامت برکاتہم, قدس سرہ اور کیا کیا القابات سے کچھ شخصیات کو وہ تقدس دے دیا جاتا ہے کہ وہ معصوم عن الخطاء متصور ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں چھوٹے, بڑے اور خواتین بھی بلا ججھک سوال پوچھتی تھیں۔ تصنع اور بے جا تکلف کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اہل سنت میں ہی کم و بیش اسی سلیبس کو پڑھے ہوۓ اور درس نظامی سے فارغ ہوۓ دوسرے مسلک کے علما کو یہ سارے القابات دینا تو دور کی بات عام مسلمان بھی نہیں مانا جاتااور ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ایک مسلک کے اکابر کی وفات یا شہادت انکے لیے اگر سانحہ ہوتی ہے تو دوسرے مسلک کے لوگوں کے لیے وہ خبر بھی نہیں ہوتی۔

ایک اور پہلو ہدف کاہے۔ کیا کوئی پلاننگ ہے کہ ہمیں کتنے حفاظ اور علما  چاہیے ہیں۔ جو انسانی اور مالی وسائل ایک ہدف کے لیے استعمال ہوں گے وہ دوسری جگہ استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ ستر ہزار حفاظ ہرسال تیار ہوتے ہیں۔ ہر دوسری گلی میں مسجد ہونے کے باوجود ان کی کھپت نہیں ہوپاتی۔ شوق سے لوگ بے شک قرآن جتنا حفظ کریں اتنا اچھا ہے۔ مگر قرآن فہمی زیادہ ضروری ہے۔ اکثریت بہت کم عمر میں قرآن حفظ کرتی ہے جس میں تحفظ کے دوران اور بعدمیں قرآن فہمی کا نہ موقع ملتا ہے نہ اس کے لیے باقاعدہ کوئی حکمت عملی ہے سواۓ درس نظامی کے۔ کیوں نہ مذہبی تعلیم کا اعلیٰ  معیارہی رکھا جاۓ اوربےشک کم مگر جیدعلما تیار کیے جائیں۔ جب محض اکابر کی خوشہ چینی اور مسلک کی ترجمانی ہی کرنا ہے تو یہ ضرورت ابلاغ سے بھی پوری ہوسکتی ہے۔

‌ذرائع ابلاغ میں ابھی کوئی انگریزی اخبار یا جریدہ نہیں۔ جو اردو کے اخبارات نکلتے ہیں اس میں صرف اپنے مسلک کی, اداروں کی اور جہادی مہم جوئی کی خبریں, جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ کسی اور ہی دیس کی باتیں ہیں۔ ٹی وی جو کہ ریگولیٹڈ میڈیم ہے اسکو مطعون کرکے سوشل میڈیاکواختیار کرلیا گیا جہاں جھوٹ, افواہ اور بے حیائی پر کوئی قدغن نہیں۔ حیرت ہے اس پر آنا منظور ہے جس میڈیم میں دینی بیان کے بیچ میں ہی غیر اخلاقی مناظر آجاتے ہیں۔ مگر ٹی وی پرایسا نہیں جہاں خبر کی تحقیق ہے اور ادارہ اپنی پالیسی کے تحت کام کرتا ہے پیمرا کی نگرانی میں۔ اب تو آجاتے ہیں ٹی وی پر مگر پچھلے پندرہ سے بیس برسوں میں معاشرہ کے مزاج میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کا ادراک نہیں۔ جن فنکاروں کو وہ پرانے وقتوں کےمعاش سے مجبور بھانڈ اور طوائف سے تشبیہ دیتے ہیں  آج وہ عوام میں کروڑوں مداح رکھتے ہیں اور وہ خود اپنے فن سے کروڑوں کی باعزت آمدنی کماتے ہیں۔ اب یہ آئیڈیا سیٹرز ہیں۔ ہم نے تو پورا میدان ہی خالی کردیا۔

آخری بات جنسی ضرورت اور معاش کی ہے۔ جب مہنگائی کی وجہ سے گھر بسانا اور ذمہ داری اٹھانا چاہنے کے باوجود بھی ممکن نہیں ہوگا یا معاش کہیں اور گھر کہیں اور ہوگا تو جیسے یہ مسائل دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں ویسے ہی مدارس کے نوجوانوں کے لیے بھی۔ خاص طور پر اب تصویر اور سوشل میڈیا بشمول یوٹیوب کی جو اجازت تازہ تازہ ملی ہے, تو یہ صورت حال اور بھی سنجیدگی سے سوچنے کا تقاضا کرتی ہے۔ شادی میں غیر ضروری تاخیر سے بچنے اور اس میں حائل معاشرتی اور معاشی رکاوٹوں کو دور کرنے کا نکتہ بھی قابل توجہ ہے۔

باقی اصلاح معاشرہ کے لیے ایک معروف اسکالر نے اپنے یو ٹیوب چینل پر شرعی حدود پر زور دیا۔ ان کے اور روایتی مذہبی فکر کے فہم کے مطابق زنا بالرضا اور بالجبر میں کوئی فرق نہیں۔ بدکاری اگر بالجبر بھی ہو تو ثبوت جرم کے لیے چار بالغ باعمل گناہ کبیرہ سے پاک مسلمان مردوں کی عینی شہادت درکار ہے یا پھر مجرم خود اقرار کرلے۔ اس غلط فہم کی وجہ سے اسلامی قانون ناقابل عمل ہوجاتا ہے اور تعزیر یعنی ملکی قانون کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسکی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کی سزائیں سخت ہیں توثبوت جرم کی شرائط بھی کڑی ہیں۔ مگر اس سے مظلوم بیچارہ یا بیچاری خدائی قانون سے انصاف پانے سے محروم رہتا ہے۔

زنا بالرضا میں ثبوت جرم کے لیے یہ ہی کڑی شرط ہے کیونکہ اس میں حق تلفی یا زیادتی نہیں۔ اس گناہ کی اللہ کے ہاں تو سزا ہے ہر صورت میں مگر اس دنیا میں اگر وہ خفیہ پیش آۓ تو اسے خفیہ رکھ کر تعلیم سے اصلاح کی طرف ابھارا گیا۔ مگر زنا بالجبر گناہ بھی ہے اورایک انسان سے شدید ترین ظلم بھی اور معاشرے کے خلاف فساد بھی۔ اس کی سزا فساد فی الارض کے تحت دی جانی چاہیے جس میں مجرم کو موت کی سزا دی جاسکتی ہے اور ثبوت شرط کے لیے وڈیو, ڈی این اے, فنگر پرنٹس سب استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور ان کے تلامذہ نے اس پر گراں قدرکام کیا اور اس کو حل کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

روایتی فکر میں چونکہ زنا بالرضا اور بالجبر میں فرق نہیں سمجھا جاتااور ثبوت شرط کے لیے چار باعمل بالغ گناہ کبیرہ سے پاک مسلمان عینی گواہ یا مجرم کا اقرار چاہیے ہوتا ہے, شاید اسی لیے ان معروف اسکالر نے اس بچے کے لیے بھی سزا کا مطالبہ کیا اگر توسزا حدود قوانین کے تحت دی جاۓ۔ ہمارے ان دوستوں کو بھی دعوت فکر۔

Facebook Comments

سلمان احمد شیخ
سلمان احمد شیخ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں- ملیشیا سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں- دینیات, سائنس اور سماجیات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں- کئی مقالوں کے مصنف اور دوکتابیں لکھ چکے ہیں- ان کا تحقیقی کام ان کے ریسرچ گیٹ کی پروفائل پر دیکھا جاسکتا ہے۔- ایک ماہنامہ ریسرچ بلیٹن کے مدیر ہیں جو اسلامک اکنامکس پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply