سیاست، سیاہ است

بچھو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیدائش کا وقت قریب ہوتا ہے تو اپنی ماں کے پیٹ کو اندر سے کھانا شروع کر دیتا ہے اور اپنی ماں کا پیٹ پھاڑ کر نکلتا ہے۔کچھ اہلِ اقتدار لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ملک و قوم کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹتے ہیں۔ ان لوگوں نے بھی پڑھ رکھا ہے کہ ’جب لومڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کو بھاگتا ہے‘ اِس لیے جب ان کو لگتا ہے کہ اب پکڑ ہونے والی ہے تو دیارِ غیر میں جا بستے ہیں جس کا انتظام ان کے “کرائم پارٹنر” پہلے سے کر چکے ہوتے ہیں۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے ان لوگوں کی “عزیز تر” شے ملک و قوم ہی ہوتے ہیں اور اس کا اظہار ہر پلیٹ فورم پر بلند و بانگ وعدوں سے کیا جاتا ہے مگر پسِ حجاب ان لوگوں کی “عزیز ترین” شے اپنی ہوسِ مال و زر اور حُبِ جاہ ہے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک بار انگلش میں خطاب کر رہے تھے اور سامعین میں زیارہ تر میرے جیسے سادہ لوح عوام شامل تھے۔ کسی نے ایک سے پوچھا کہ تمہیں سمجھ آ رہی ہے تو کہنے والے نے کہا کہ “سمجھ تو نہیں آ رہی مگر قائداعظمؒ جو بھی کہتے ہیں، سچ کہتے ہیں”۔ اس کے بر عکس، موجودہ دور کے دانشور سے کسی نے پوچھا کہ آج کا سیاستدان جھوٹ کب بولتا ہے تو دانشور نے کہا کہ” جب سیاستدان کے ہونٹ ہلتے ہیں”۔۔۔۔آج کی سیاست کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ وہ حمام ہے جہاں زیادہ تر لوگ ننگے ہیں اور جو لوگ نہیں ہیں، انہیں کر دیا جاتا ہے اور اس کا عملی طور پہ اظہار الیکشن کے دِنوں میں نظر آتا ہے جب ہر ایک “امیدوار” اپنے مخالف کو زیر کرنے اور عوامی سپورٹ کے لیے گالی گلوچ اور طنز و تشنیع سے کام لیتا ہے۔ اپنا آپ نہیں بتایا جاتا بلکہ مخالف کی خصلتیں عیاں کی جاتی ہیں۔ ایک استاد کا قول پڑھا تھا کہ ”اشراف کی کم فہمی، عام لوگوں کی آگہی بن جاتی ہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors

شریعت میں ایک قانونِ قصاص ہوتا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان۔ بالکل اسی طرح سیاست میں ایک قول ہے کہ ”ہاتھ کو ہاتھ ہوتا ہے“ مطلب یہ کہ helping hand ایک سیاست دان کو اپنے کچھ ذاتی مفاد کے لیے دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے تو یوں اپنے ذاتی مفادات کے لیے فریقین کے ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور ایک دوسرے کی فائلوں پہ دستخط کر دیے جاتے ہیں۔سیاست ایک”سیڑھی” کی طرح ہے جہاں ہر اوپر کی سیڑھی والا نچلی سیڑھی والے کا خدا ہوتا ہے لیکن اندھوں میں کانا راجا والا حساب ہوتا ہے۔ ساری توانائیاں راجا کو خوش کرنے کے لیے صرف کی جاتی ہیں،تلوے چاٹے جاتے ہیں، مفلس سائل کی طرح دربار میں ہاتھ باندھے، سر جھکائے پہروں کھڑے رہتے ہیں، کوّے کو بگلہ ثابت کرنے کی دلیلیں دی جاتی ہیں اورجب عالی جاہ کی انا کو تسکین ملتی ہے تو پھر ان خوشامدیوں کے دن پھرتے ہیں، کسی کو وزارت سے نوازا جاتا ہے، کسی کو ٹھیکے دیے جاتے ہیں،شاہی خزانوں سے قرض لیے جاتے ہیں اور قرض معاف بھی کروائے جاتے ہیں۔
انور مقصود صاحب سے کسی نے پوچھا آج کل سیاستدانوں کو کیسے چُنا جائے؟ تو بولے بالکل ویسے ہی جیسے انار کلی کو چُنا گیا۔۔۔ دیوار میں۔
مجھ جیسے شریف لوگ جو سبزی فروش سے مفت دھنیے کی فرمائش کو بھی کرپشن سمجھتے ہیں، سیاست کو بھی ایک دھندہ سمجھتے ہیں۔۔۔ کالا دھندہ کیونکہ ”غیرت ہے بڑی چیز، جہانِ تگ و دو میں“۔

Facebook Comments

طلال انور
میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سیاست، سیاہ است

Leave a Reply