رن مریدی ۔۔۔۔۔۔ سیٹھ وسیم طارق

ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا بندہ کسی نہ کسی پیر کا مرید ہے اور وہ ہر وقت اس کا ہی دم بهرتا رہتا ہے۔ اس کی کہی گئی باتوں کو حرف آخر سمجهتا ہے اور کچھ مرید تو پیر صاحب پہ جان نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں.ور بحث مباحثہ میں ہر کوئی اپنے ہی پیر کے گن گاتا رہتا ہے۔
اس پیری مریدی میں اختلافات کی اجارہ داری ہے. اور ایک خاص طبقہ تو پیری مریدی کا سرے سے ہی قائل نہیں لیکن ایک ایسا پیر بھی ہے جس پہ کسی کو کوئی اختلاف نہیں اور حیرت کی بات یہ کہ جو خاص طبقہ پیری مریدی کا سرے سے ہی قائل نہیں وہ اس معاملے میں پہلےنمبر پہ ہے۔اس پیر کا مرید ہونے کیلئے شادی کا ہوجانا لازمی ہوتا ہے.
ایک محتاط اندازے کے مطابق ننانوے فیصد شادی شدہ مرد اس پیر کا پانی بهرتے ساری زندگی گزار دیتے ہیں.۔ اس جانے مانے پیر کو عرف عام میں “رن” کہتے ہیں اور اس کے مریدوں کو رن مرید۔
معاشرے کا دوغلا پن دیکھئے کہ دوسرے اختلافی پیروں کےمرید قابل عزت ، لیکن اس پیر کے مریدوں کو رن مریدی کے طعنے ملتے ہیں۔ لیکن ہمت ہے ان جوانوں کی کہ طعنے سن کر بھی مریدی نہیں چھوڑتے۔ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے کے مصداق طعنے سن سن کر یہ رن مریدی جیسے تعلق کو زیادہ جوش و جذبہ سے نبھاتے ہیں.۔ایک اور کہاوت کے مصداق کہ “اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں”، معاشرے میں رہتے ہوئے اتنے طعنے باہر کے لوگ نہیں مارتے جتنے کے اس مرید کے اپنے گهر والے طعنے مارتے ہیں اور باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا طعنہ اس کو اس کی سگی بہن کی طرف سے ملتا ہے جس کو ماں کی سپورٹ ہوتی ہے اور وہی سگی بہن دوسری طرف کسی کے چاند جیسے لعل کو اپنی مریدی میں تباہ و برباد کر رہی ہوتی ہے۔
بقول ایک مرید کے جس کو میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں ، کہ رن مرید ہونا میرے لیے قابل فخر بات ہے۔ اور ہم نے دیکها کہ اسی قابل فخری میں ان کو ایک اپنے پیر کی من پسند ایک جوتی خریدنے کی خاطر پورے پاکستان میں سروس شوز کی دکانوں کو کهنگالنا پڑا لیکن قابل داد ہیں کہ جوتی کو آخرکار ڈهونڈ ہی نکالا اور لا کر اللہ والی کے قدموں میں رکھ دی۔
ایک دفعہ میں نے اپنی گناہگار آنکهوں سے یہ نظارہ بهی دیکها کہ بہت سی اللہ والیاں ایک چهابڑی فروش کو گهیرے کهڑی تهیں اسی اثناء میں ان میں سے ایک کے مرید کا ادهر سے گزر ہوا۔ اللہ والی نے بآواز بلند پکارا اے منے دے ابو ذارا ادهر تو آنا۔ منے کا ابا بیچارہ ڈرتا ڈرتا قریب اور بمشکل ڈر کو سمیٹتے ہو دهیمے سے لہجے میں جی حضوری کے کلمات کو ادا کر سکا ” جی بولئے کیا حکم ہے ؟ یہ خربوزے پکڑو اور گهر لے جاؤ میں پیسے دیکر آتی ہوں میرے آنے پر ایک بهی کم ہوا تو تمہاری خیر نہیں .”…….
جب میں نے اس واقعہ کا ذکر اپنے دوست کے ساتھ کیا تو کہنے لگا “سیٹھ جی تهلے لگی ہانڈی نوں تے تهلے لگے بندے دی جیب نوں زنانی کھروچ کھروچ کے صاف کر دی اے” یہ واقعہ دیکھ کر پہلے تو میں اللہ کا شکرگزار ہوا کہ ماشاءاللہ ابھی کنوارہ ہی ہوں اور اب جو کہ معلوم پڑ رہا ہے کہ یہ کنوارہ پن تادیر قائم نہیں رہے گا تو میرے دل سے اب ایک ہی دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ مجهے میری کسی ایک ٹوٹی پهوٹی نیکی اور اپنی رحمت کی بدولت اس طرح کی مریدی سے بچا کر رکهن۔ آمین

Facebook Comments

سیٹھ وسیم طارق
ھڈ حرام ، ویلا مصروف، خودغرض و خوددار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply