سیاحت اور ہمارے مغالطے ۔۔۔ کامران ریاض

آج کل پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا بہت چرچا ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں ایسے ایسے خوبصورت تفریحی مقامات ہیں کہ انہیں مناسب طریقے سے مارکیٹ کیا جائے تو دنیا بھر سے سیاحوں کا تانتا بندھ جائے گا۔ اسی طرح کچھ کالم نگار بھی اسی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاحوں کو اگر تھوڑی سی چھوٹ دی جائے تو دنیا بھر کے سیاح یہاں کا رخ کرلیں گے، اس تھوڑی سی چھوٹ کا تعلق پینے پلانے اور اسی طرح کے دیگر اشغال کی مکمل آزادی سے ہے۔

ہم بنیادی طور پر چونکہ ایک جذباتی قوم واقع ہوئے ہیں اس لیے آنکھیں بند کرکے ہر نعرے کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ نہیں سوچتے کہ حقیقت کیا ہے۔ پہلا مفروضہ تو ہم نے یہ قائم کیا ہوا ہے کہ پاکستان جیسا خوبصورت ملک اور کہیں ہے ہی نہیں اور بس اگر تھوڑی سی سہولیات دے دی جائیں تو ہر ملک کو چھوڑ کر دنیا بھر سے سیاحت کے شوقین پاکستان کا ہی رخ کریں گے۔ نا شکرا پن اچھی چیز نہیں اور اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے پاکستان کی صورت میں ہمیں ایک آزاد سرزمین دی جس میں بہت سی نعمتیں موجود ہیں لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ آخر ایسی کونسی چیز ہے جس کی بنا پر ہم اپنے ملک کو دنیا بھر سے خوبصورت سمجھتے ہیں۔ سال کے 8 ماہ ہمارے ملک کا زیادہ تر علاقہ گرمی سے تنور بنا رہتا ہے۔ درخت کاٹ کاٹ کر ہم نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور کنکریٹ کے جنگل اگا لئیےہیں۔ جہاں کہیں سبزے کی پتی بھی نظر آتی ہے اسے ہم اکھاڑ پھینکتے ہیں اور وہاں کنسٹرکشن شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ساحلی علاقے ویسے ہی بنجر اور بے آب و گیاہ ہیں۔ دن کے وقت چند گھنٹے ساحل پر گزارلیں تو لو لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔  ملک بھر میں جہاں کہیں کوئی چند گز کی بھی قدرتی خوبصورتی والی جگہ نظر آتی ہے تو ساتھ ہی شاپنگ بیگ اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ تاریخی عمارتیں دنیا بھر میں سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہیں۔ ہم اپنی تاریخی عمارات سے اینٹیں نکال نکال کر گھروں میں استعمال کر لیتے ہیں اور جہاں کہیں لکڑی کا خوبصورت کام ہوا ہوں اسے اکھاڑ کر اپنے ڈرائنگ رومز کی زینت بنا لیتے ہیں۔  لے دے کے ہمارے پاس شمال کے دوردراز پہاڑ ہی بچتے ہیں جنہیں ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ہمارے سیاحتی علاقوں میں کہیں ڈھنگ کا ہوٹل یا ریسٹورنٹ نہیں ملتا۔ جہاں کہیں کوئی ایسی گزارے لائق سہولیات موجود بھی ہیں تو ان کا واحد مقصد سیاحوں کی کھال اتارنا ہی ہے۔ اگر کوئی بھولی بھٹکی قسمت کی ماری غیر ملکی سیاح خاتون آجائے تو کتوں کی طرح رالیں ٹپکاتے دس بارہ لفنگے اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسی جگہیں ہیں جن میں سیاحوں کے لیے ہمارے ملک سے زیادہ کشش ہے ، پھر خدا جانے ہمیں خوش فہمی کس بات کی ہے۔

ہمارے ہاں کے کچھ کالم نگاروں کی طرف سے یہ راگ بھی بار بار الاپا جاتا ہے کہ اصل میں ہمارے ہاں سیاح اس لئے کم آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سختی بہت ہے۔ اگر چند علاقے مخصوص کر کے وہاں سیاحوں کے لیے شراب خانے اور نائٹ کلب کھول دیئے جائیں تو آپ دیکھئے گا کہ مغربی ممالک سے سیاحوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جائیں گے۔ ایسے نادر خیالات سن کر بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ اصحاب آخر کہاں کی سیاحت کرتے رہے ہیں۔ خدا جانے انہیں یہ غلط فہمی کیوں ہوگئی ہے کہ مغربی ممالک میں شراب خانے، جوا خانے اور نائٹ کلب وغیرہ نہیں ہوتے اور یہ سہولیات اگر ہم پاکستان میں مہیا کر دیں تو لوگ دوڑے چلے آئیں گے۔  لگتا ہے ان اصحاب کے ذہنوں میں ابھی تک پچھلی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی کا وہ بزنس ماڈل پھنسا ہوا ہے جب ہپیوں(hippies)  کے غول کے غول سستی چرس کی تلاش میں پاک و ہند کے چکر لگاتے تھے یہ علیحدہ بات کہ ایسے ‘فقرے’ سیاحوں کے آنے سے آمدن کم اور نقصان زیادہ ہوتا تھا۔

بندہ ان بزرج مہروں سے پوچھے کہ جو شراب کے لئے سیاحت کرتے ہیں وہ اٹلی جائیں گے فرانس جائیں گے اور سینکڑوں جگہیں ہیں، آخر آپ ایسی کونسی انوکھی شراب تخلیق کریں گے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کے آپ کے ہاں آئیں؟ جوئے کے شوقین لاس ویگاس، مونٹی کارلو، میکاؤ وغیرہ جائیں گے، نائٹ کلبوں کے شوقینوں کے لئیے بھی ایسے مقامات کی کمی نہیں۔  جن کے شوق اس سے بھی ادنیٰ ہیں ان کیلئے بنکاک جیسی بہت جگہیں ہیں۔ یہ تسلیم کر لیجئیے کہ ان سب اشغال میں آپ دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے اس سعی لاحاصل میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ان چیزوں پر توجہ دیجیے جن سے واقعی سیاحت میں تھوڑا بہت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ ہماری ہر سیاحتی پالیسی میں بیرونی سیاحت پر ہی زور دیا جاتا ہے حالانکہ سیاحت کے فروغ میں سب سے بڑا کردار اندرونی سیاحت ادا کرتی ہے۔ عالمی سیاحتی آمدنی کا تہتر فیصد اندرونی سیاحت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ پہلے پاکستانیوں کے لیے اپنے ہی ملک میں سیاحت آسان بنائیے۔ اندرونی سیاحوں کے لیے سیاحتی مقامات پر آمدورفت, رہائش اور تفریح کے مواقع بہتر بنائیے۔ اندرونی سیاحت بڑھے گی تو پھر ہی آپ بیرونی سیاحوں کو راغب کرنے کے بارے میں سوچ سکیں گے۔ پاکستان کے دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہونے جیسے مغالطوں سے نکلئیے اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی کمزوریوں اور محدودات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سیاحتی پالیسیاں تشکیل دیجئے۔

آمدن کے لحاظ سے سب سے نفع بخش فیملی سیاحت سمجھی جاتی ہے۔ جب پورا خاندان مل کر کہیں تفریح کے لیے جاتا ہے تو وہ سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔ سیاحت کے اس شعبے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بڑھتی ہوئی مڈل کلاس میں فیملی سیاحت سے زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے ۔ فیملی ریزورٹس کی حوصلہ افزائی کی جائےجہاں بچوں اور بڑوں پر مشتمل پورا خاندان اوباشوں کی نگاہوں اور چھیڑ خانی سے محفوظ رہ کر تفریح کر سکے۔ قدرتی نظارے تو ہمارے پاس جیسے  بھی ہیں سو ہیں لیکن ان کو سنوارنے پر تو  کوئی پابندی نہیں۔ سبزہ اور درخت لگائیے، قدرتی جھیلوں میں سیوریج کا پانی ڈالنے کے بجائے انہیں صاف شفاف رکھیے۔ بیرونی ممالک جیسے نہ سہی لیکن مناسب معیار کے تھیم پارکس اور فیملی تفریحی مقامات تو ہمارے ہاں بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ انہیں پانچ سال کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دے دیجئے۔ خدمات کی فراہمی کا ایک کم سے کم معیار مقرر کردیجئیے اور اس پر عمل کروائیے۔ ان سب چیزوں پر کوئی زیادہ حکومتی سرمایہ خرچ نہیں ہوتا، اصل کام تو نجی شعبہ کرتا ہے، حکومت کا کام نجی سرمائے اور صارفین کے حقوق دونوں کا تحفظ ہے۔  سیاحت کا فروغ بڑی بڑی کانفرنسیں کرنے یا غیر ملکی بلاگرز کو بلاکر پروپیگنڈا کرنے سے نہیں، انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply