کوئٹہ، ایک مہینہ، چھ لاشیں ، تین پیغامات

پہلا پیغام
کوئٹہ سے ایک دوست نے کل بدھ (۱۹ جولائی ۲۰۱۷ ) کے روز یہ پیغام بھیجا ہے:
واقعہ مستونگ۔۔ ۔ آج علی الصبح کوئٹہ سے کراچی جانے والی مسافر بردار کار پر مستونگ کے مقام پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں ماں بیٹا سمیت چار افراد شہید ہوگئے، چاروں کا تعلق ہزارہ قبیلہ سے تھا مستونگ شیعہ زائرین پر خودکش حملوں میں مشہور ہوچکا ہے۔ اس سال جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور ڈپٹی چئر مین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدی پر بھی خود کش حملہ ہوا تھا اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز پر بھی وقتا فوقتا حملے ہوتے رہتے ہیں
مستونگ کوئی بڑا شہر نہیں اور نہ ہی اس کی آبادی لاکھوں میں ہے جس کو صاف کرنا ناممکن ہو، اس مختصر شہر نما قصبہ کو دہشت گردوں سے صاف کرنے میں کونسی مجبوریاں ہیں آج تک سمجھ میں نہیں آئیں۔ ہر واقعہ کے بعد آپریشن کے دعوے کئے جاتے ہیں، مگر مستونگ میں دہشتگردی کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ آج سے صرف دوسال پہلے تک مستونگ دہشت گردوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا جب ضرب عضب شروع کی گئی تو گاہے بگاہے مستونگ میں بھی آپریشن کی خبریں چھپتی تھیں مگر جس آب وتاب سے یہاں دہشت گردی ہوئی اس پیما نے پر آپریشن نہیں ہوا ۔، اگر ہوا بھی ہے تو میڈ یا پر اس کی تشہیر نہیں ہوئی، تشہیر نہ ہونے کی وجہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی تشہیر بذات خود ایک نفسیاتی آپریشن ہوتی ہے۔ اس سے اجتناب کرنے میں کونسی مصلحت کار فرما ہے یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
چند دن پہلے چمن میں ایک انتہائی مخلص پولیس افسر پر خودکش حملہ کرکے شہید کردیا گیا اس کے فورا بعد ایک اور دلیر پولیس افسر کو کوئٹہ شہر میں ٹارگٹ کر کے شہید کردیا گیا اور آج مستونگ میں چار افراد کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔
جب بھی اس طرح کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو انتظا میہ شہداء کے لواحقین اور ان کے ہمدردوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ڈرا دھمکا کر احتجاج کے حق سے روکتی ہے اور تمام تر زور اس بات پر لگاتی ہے کہ شہداء کی تدفین جلد از جلد عمل میں آجائے تاکہ انہیں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی زحمت نہ ہو۔ انتظامیہ کی یہ روش بذات خود دہشت گردوں کی خیر خواہی کی دلیل ہوتی ہے، ایسی انتظامیہ سے انسداد دہشت گردی کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے جب انتطامیہ کی نظر میں قتل کرنے والا کم جبکہ روڈ بلاک کر کے احتجاج کرنے والا زیادہ مجرم ہو تو اس انتظامیہ سے خیر کی توقع رکھنا حماقت ہی ہوگی۔
جس انتطامیہ کے لئے بے گناہ انسانوں کی چھدی ہوئی لاشیں بوجھ اور عیش وارام میں خلل ہو، کیا وہ ا نتطامیہ ہمیں تحفظ دے سکتی ہے؟ انتظامیہ نے اپنے لئے ہمارے درمیان سے ایسے سہولت کار بھی بنا رکھے ہیں جو بوقت ضرورت ان کے ذریعہ احتجاج کرنے والوں کو ڈرا نے دھمکا نے کے لئے استعمال کرتی ہے تاکہ ان کی نا اہلی کی کہانیاں لوگوں تک نہ پہنچ پا ئے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منا ئے گی!
احتجاج کو سازش کے ذریعہ دبانا بھی ایک طرح سے دہشتگردی ہی تو ہے۔ ایسے لوگوں کو دہشت گردوں کا سہولت کار نہ کہا جا ئے پھر کیا کہا جائے۔ امید ہے انتظا میہ اپنے اس غیر عمدی سہولت کاری کے پہلو پر غور کر کے آئندہ اس طرح کی روش سے اجتناب کرے گی۔
آپ کا خیر اندیش
دوسرا پیغام
اب سے صرف ایک مہینہ پہلے سات جون ۲۰۱۷ کو موصول ہونے والا ایک اور پیغام پڑھ لیں جسے کوئٹہ کے ایک اور دوست نے بھیجا تھا:
اسپنی روڈ کو ئٹہ ۔۔۔۔۔
اسپنی روڈ صرف آدھا کیلو میٹر ہے۔ اس آدھے کیلو میٹر میں پولیس اور ایف سی کی تین چو کیاں ہیں۔ اس مختصر روڈ پر متعدد واقعات ہو ئے، ان واقعات میں دسیوں شہری شہید وزخمی ہوئے۔ کل بھی دن کے چار بجے ایک اندوہناک واقعہ رونما ہوا جس میں ایک کالج کی ہونہار طالبہ جو کہ اپنے بھا ئی کے ساتھ ہزارہ ٹاون سے بازار جا رہی تھی، اطلاعات کے مطا بق انہیں روک کر سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا مگر چند گز کے فاصلے پر کھڑی پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے دہشت گردوں کی مزا حمت کر نے کی کوشش نہیں کی شاید ان کا خیال یہ تھا کہ دہشت گردوں کا پیچھا کرنے سے روزہ ٹوٹ جا ئے گا ۔ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا اس کے ساتھ ہی دو مسجدیں بھی ہیں اور چو کیوں پر تعینات اہلکار نماز ادا کرنے انہی مسجدوں میں جاتے ہیں اور نماز کے بعد وعظ و نصیحت بھی ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے اس روڈ پر رونما ہونے والے واقعات میں متعین اہلکاروں کی دہشت گردوں کے ساتھ تعاون یا کم ازکم ان کی عدم گرفتاری کے حوالہ سے عدم دلچسپی اس وعظ ونصیحت کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جا ئے حادثہ کے قریب موجود دوکاندار بھی ان واقعات میں ملوث دہشت گردوں کے سہولت کار ہو سکتے ہیں۔ اس واقعہ میں چونکہ ایک نوجوان لڑکی بھی جاں بحق ہو گئی تھی امید یہ تھی کہ قبائلی رسم رواج کے مطابق سیاسی وقبائلی جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے شدید رد عمل آئے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی خاص رد عمل سامنے آیا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ شہر میں مذہبی ہما آہنگی کی صورت حال کیا ہے اور حکومت میں موجود عناصر کتنے غیر جا نبدار اور مذہبی تعصبات سے کس قدر بالا تر ہیں روڈ پر پڑی ایک جوان لڑکی کی لاش کو ڈھاپنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی اس خوف سے کہ لاش کو ڈھاپنے والا ہمدرد سمجھ کر مارا نہ جا ئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا پیغام (میری طرف سے)
اب آپ جانیں یا آپ کا ضمیر، اپنی حب الوطنی، انسان دوستی یا دینداری، اور انصاف پسندی کو ثابت کرنا ہے تو عقیدہ اور نسل کی بنیاد پر قتلِ مسلسل کے شکار ہزارہ شیعہ برادری کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں اور ظلم کے اس تسلسل کے خلاف کھڑے ہو جائیں، بلاچوں و چرا، اگر مگر، چونکہ چنانچہ کیے ۔ قتل و غارت کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں ورنہ بے حسی یا منافقت کی چادر اوڑھ کر لمبی تان کر حسب معمول سوئے رہیں!
والسلام
محمد حسین

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply