رنگ، خدا اور امن کی تصویر

رحیم خان کو گلی کے بچے رنگین ماما بلاتے تھے۔ یہ کراچی کے نواح میں آباد افغان بستی تھی۔ رنگین ماما کا خاندان جانے کہاں تھا۔ وہ اپنے تاریک کمرے میں رات گزارتے اور دن کو شہر کی دیواروں اور سائین بورڈ کو رنگین بناتے۔ چار برش اور چند رنگ کے ڈبے ان کا کل معاشی بندوبست تھا۔ موسم بہت سہانا تھا سورج نے دو دن کی آتش فشانی کے بعد بدلی کی اوٹ لی تھی۔ حبس بڑھتا جا رہا تھا جو بارش برسنے کی نوید دیتا تھا۔میں نے کہا “رحیم خان چلو کسی پارک میں چلتے ہیں، بارش کے پہلے قطرے برسنے پر مٹی کی خوشبو سے بہتر جنت کہیں محسوس نہیں ہوتی”۔ کہنے لگے “منڑا ہم نہیں جائے گا ۔ہم جب سے کراچی آیا ہے تب سے بارش کی راہ دیکھتا ہے، ہم کو تصویر مکمل کرنا ہے۔ ہمارے اوپر قرض ہے”
یہ کہتے ہوئے ان کے لہجے کا روکھا پن عیاں تھا۔ ان سے پوچھا کہ وہ بارش کا انتظار کیوں کرتا ہے اور اس نے کیا قرض چکانا ہے، تو کہنے لگے “ہم نے سوچا تھا کہ کسی کو نہیں بتائے گا لیکن تم ہمارا اچھا دوست بن گیا اور ہم نے دیکھا ہے کہ تم انسان کے کپڑوں کی قیمت دیکھے بغیر اس سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم تم کو بتاتا ہے”یہ کہہ کر رحیم خان مجھے اپنی تاریک کوٹھڑی میں لے گیا۔
وہاں رحیم خان کی دنیا موجود تھی، اس کے مشاہدات کا زبردست اظہار موجود تھا۔ میز پر مٹی کی تازہ بنائی گئی چھوٹی سی مورتی پڑی تھی، جسم جس کا بدھا کی صورت تھا لیکن سر نظر نہیں آرہا تھا۔ رحیم خان نے مجھے تعجب خیز انداز سے مورتی گھورتے دیکھا تو اسے پلٹا دیا اور کہنے لگا “ہم نے یہاں آ کر امن کا خدا بنانا چاہا تھا، جب ہم ہاتھ پیر اور جسم بنا چکا اور گردن تک پہنچ گیا تو ہمیں امن کے خدا کا برتاؤ یاد آ گیا تو ہم نے اس کا چہرہ پیچھے کی طرف بنا دیا۔ ہم اس سے ناراض ہے، منڑا ہم اس سے بات نہیں کرنا چاہتا”
رنگین ماما کو کوئٹہ ہوٹل کے فرش پر بیٹھ کر چائے کی چسکی بھرتے وقت یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان کے اندر اتنا بڑا آرٹسٹ چھپا ہے اور وہ اتنے حساس انسان ہیں۔ کونے میں اوپرتلے رکھی چند پینٹنگز پر نظر پڑی۔ رحیم خان اٹھا کر دکھانے لگا۔ اک شہکار پینٹنگ پر میری نظر رک گئی۔ اس میں اک خاندان تھا، ساتھ میں چند بچے تھے، سب کے چہروں پر اطمینان تھا۔ وہ لی لی مارٹن کی پینٹنگ “ڈومیسٹک ہیپینیس”جیسی ہی تھی۔ پوچھا کہ کیا یہ زبردست پینٹنگ تم نے بنائی ہے؟ ۔۔کہنے لگے!
“یہ تصویر ہم نے چھپ کر بنایا تھا جب ہم ہلمند افغانستان میں رہتا تھا۔ ہمارا بھائی طالب تھا اور جنگ میں بندوق چلاتا تھا۔ شمالی اتحاد والوں نے اسے مار دیا۔ میں جنگ سے دور رہتا تھا لیکن جنگ میرے گھر تک آنے لگا۔ میں نے اپنے بیٹے، بیٹی اور بیگم کو ساتھ لیا، مرحوم بھائی کی بیٹی اور بھابھی کو بھی ساتھ ملایا اور اس امن والے وطن پاکستان کی طرف آنے لگا۔ جب ہم نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا تو میں نے تین راتوں میں یہ تصویر بنایا تھا مجھے پاکستان میں امن نظر آ رہا تھا۔”
رحیم خان کی آواز بھرا گئی تھی اور میں اس سے آگے کے واقعات پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ خود گویا ہوا۔ “ہم گاؤں سے باہر نکلے سامان میں یہ پینٹنگ بھی جیپ میں تھی، ہم پر حملہ ہوا، میرے بھائی کے گُل کئے ہوئے چراغوں سے نکلی ہوئی کسی چنگاری نے ہم پر فائر کھول دیا۔ تین طرف سے فائر ہوا، میرا بازو زخمی ہوا، جیپ الٹ گئی، چند منٹ بےہوشی رہی۔ جب اٹھا تو اپنے اردگرد لاشیں ہی موجود پائیں۔
لہو لاشیں ہر طرف بکھری تھیں ۔ بیٹا جیپ سے چند قدم دور پڑا تھا، قریب پہنچ کر دیکھا تو اس کی کمر میں گولیاں تھیں۔ شاید وہ بھی بچ گیا ہو گا، اور جان بچانے کے لئے بھاگا ہو گا۔ میں بھی افغان تھا، بندوق چلانا میں بھی جانتا تھا ، میں انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ تب مجھے اک واقعہ یاد آیا۔ جب میں لڑکا تھا تو کابل میں اک انگریزی فلم “;shane”; دیکھی تھی۔ اس کا مرکزی کردار بچے سے کہتا ہے کہ ۔۔۔۔
“آدمی جیسا ہے اسے ویسا ہی رہنا چاہئے۔ اپنی فطرت نہیں بدلنی چاہیے، مرنے مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جو ہو چکا ہے اسے بدلا نہیں جا سکتا، جاؤ اپنی ماں کے پاس جاؤ اور انہیں بتا دو کہ وادی میں دوبارہ بندوقوں کی آواز نہیں آئے گی۔ “میں نے اپنے بیٹے کی لاش پر یہی الفاظ دہرائے، بندوق کا فیصلہ ترک کیا اور یہ پینٹنگ اٹھا کر لے آیا۔ اس کی پشت پر میرے بیٹے کا خون لگا ہے یہ تصویر مکمل نہیں ہے۔ میں نے یہی تصویر مکمل کرنی ہے”
رحیم خان کی داستان جگر چیرے جا رہی تھی اور میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس تصویر کو پلٹا دیا، اس کے پیچھے پتلے کاغذ کی تہہ ہٹا کر دیکھا تو جما ہوا خون وہاں تب بھی موجود تھا۔ اتنے میں بادل گرجنے کی آواز سنائی دی۔ رحیم خان نے تصویر مجھ سے واپس لی اور روشندان کھول کر اس کے سامنے اس طرح سے لٹکا دی کہ تصویر کی پشت باہر کی طرف تھی اور اس پر بارش کے قطرے گرنے لگے۔
رحیم خان نے بدھا کے مجسمے کو ہاتھ میں پکڑا، بدھا کا جسم اپنی طرف اور چہرہ پینٹنگ کی طرف کیا۔ بارش کے قطرے جمے خون پر گرتے اور اسے تازہ کر کے امن کی تصویر کو لال کرتے رہے۔ شہکار پینٹنگ میں امن لال ہوتا رہا۔ اس میں نقش مسکراہٹیں۔۔ مسکراہٹ لال ہوتی رہی، سوتے بچے لال ہوتے رہے ،یہاں تک کہ سرخی پوری تصویر پر پھیل گئی۔ اگرچہ مورتی کے خدا نے گردن پھیری ہوئی تھی لیکن رحیم خان نے اسے اپنا درد دکھا دیا تھا۔ ۔۔۔۔جب تصویر گیلی ہو کر شکستہ ہو گئی تو رحیم خان نے کہا !
“میں نے انسانیت کا قرض اپنے پیاروں کے لہو سے چکایا ہے۔ یہ مورتی گواہ رہے گی اور خدا گواہ رہے گا کہ میرا کلمہ میرے پیاروں کی لاشوں پر بھی محبت ہی تھا۔ اب بچے اپنی ماؤں کو پیغام دیں گے کہ وادی میں دوبارہ بندوقوں کی آواز نہیں آئے گی۔ “

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”رنگ، خدا اور امن کی تصویر

Leave a Reply