گُل فردوس۔۔۔۔عبدالباسط ذوالفقار

وہ مجھے ہی گھور رہی تھی۔ میں اس پر پہلی نظر ڈالتے ہی لڑکھڑا گیا تھا۔ اس کی مخروطی آنکھوں میں عجب معصومیت رچی تھی۔ میں پوری محویت سے اسے دیکھتا رہا۔ انہی لمحات میں مجھے احساس ہوا، کچھ بھی ہو، ہے تو میرے پڑوس میں،مجھے اخلاقی تقاضے سے خیال رکھنا چاہیے، کوئی دیکھ لے تو کیا سوچے؟ میں اندر آگیا۔ اگلی صبح فضا میں قدم رکھتے ہی میری نگاہیں اس سے ٹکرائیں، وہ کل والی جگہ پر اس انداز سے کھڑی تھی جیسے میری ہی منتظر ہو۔ میرے اندرونی وجود میں شہنائیاں سی بجنے لگیں۔ اسے میں نے پہلی مرتبہ پڑوس والی کوٹھی کے ٹیرس پر دیکھا تھا۔ سرخ و سفید رنگ کی مالا گلے میں لٹکائے، کالے سوٹ میں ملبوس جس پر سفید سفید سے نقطوں سے کشیدہ کاری بہت سندر دکھ رہی تھی۔ایسا گل فردوس میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ انتہائی تمکنت سے کبھی مجھے دیکھتی تو کبھی کہیں اور نظریں گھما لیتی۔ایسے لگتا جیسے وہ مجھے نظرانداز کر رہی ہو۔

آج میں رات بہت دیر سے گھر آیا تھا، صبح آنکھ کھلتے ہی تماشائے جمال کے لیے چھت پر پہنچا تو وہ سامنے ہی کھڑی تھی۔جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہو۔ میں اس سے نظریں نہ ملا پایا تھا۔ اندر ہی اندر جی بیزار ہورہا تھا، شرمندگی سی محسوس کرتے ہوئے خود کو مجرم گردانتا ہوا اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ خندہ جبینی سے میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ میں چشم آشنا ہونا چاہتا تھا مگردل خود سری پر آمادہ نہ ہوا۔یوں ہمارا یہ تعلق پروان چڑھتا گیا۔ میں اس سے بات نہ کر پایا اور اس نے زحمت گوارا نہ کی۔ میں روز صبح سویرے اٹھ کر دیدار یار کے لیے چھت پر پہنچ جاتا۔ آج جب میں چھت پر گیا تو سامنے والے ٹیرس پر شہر خموشاں سا سکوت طاری تھا۔ٹیرس ایک فائبر شیٹ سے ڈھانپا ہوا تھا۔ غالبا کوٹھی والوں نے دھوپ سے بچاؤ کے لیے فائبر شیٹ لگوا کر دھوپ سے بچاؤ کا سامان کیا تھا۔ کافی دیر تک جب ظفر یابی نہ ہوئی تو دل پر دکھوں کا انبو کثیر سا محسوس ہونے لگا۔ میں ڈولتے جسم کے ساتھ نیچے اترا اور کمرے میں رکھی اکلوتی چارپائی پر ڈھے سا گیا۔

میں سوچوں کی آماجگاہ بنتا جارہا تھا، کوئی راز تھا جو سمجھ سے بالاتر تھا۔مجھے اس کی عادت سی ہوگئی تھی۔ روز صبح اٹھ کر اس کا دیدار کرنا ضرورت سی بن گئی تھی۔میں چارپائی پر لیٹے اسی کے متعلق سوچتا رہا، ابھی سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہی تھا کہ میری نظر کمرے کی پچھلی دیوار میں بنی کھڑکی پر پڑی جو عرصہ آٹھ سال سے بند تھی۔ وہ اسی ٹیرس کے عقب میں کھلتی تھی،تب ہی اسے بند کر رکھا تھا۔کھڑکی اور کوٹھی کے چھت کے بیچ فقط ایک قدم کا فاصلہ تھا۔میں نے سہمتے ہوئے کھڑکی کھولی تو خوشبو کا جھونکا بھنبھناتا ہوا ناک کی نتھنوں سے ٹکرایا۔ نیچے جھانکا تو ایک بچہ موتیے کے ہار اور گجرے فروخت کر رہا تھا۔میں نے اسے روکتے ہوئے آوازلگائی، رکو میں آتا ہوں، اور کھڑکی کھلی چھوڑ کر موتیے کے پھول اورہار لینے چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب میں واپس پلٹا تو میں نے اسے کھڑکی کے بالکل سامنے پایا۔ میرے پہلو میں جوان دل تھا جو کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا۔ میں نے بغیر تاثر کے پھول اور ہاراس کی طرف بڑھا دیے۔ اس نے پھول دیکھتے ہی سر کو قریب کر لیا، ایسے جیسے چاہتی ہو کہ میں ہار اس کے گلے میں ڈال دوں۔ میرا دل چاہا کہہ دوں، مگر پھر سوچا:
”عین ممکن ہے کہ اظہار پر وہ مجھے چھوڑ ہی دے / میں نے خاموش محبت کو غنیمت جانا“
یوں دن گزرتے گئے، روز اس سے وہیں پر ملاقات ہوجاتی تھی۔ آج جب کھڑکی کھولی تو وہ موجود نہ تھی۔ آج بقرہ عید کا مبارک دن تھا، مگر وہ جاچکی تھی اپنے رب کے حضور قربان ہونے کو، رب سے ملاقات کی شائق اتنے دنوں سے منتظر تھی۔میں اداس سا اسی ٹیرس پر نظریں جمائے کھڑا تھا کہ اچانک میری نظروں نے اسے پالیا، مگر وہ تو خونی خلعت پہنے بے جان سی لیٹی ہوئی تھی۔یقینا ً اپنی جان جانِ  آفریں کے سپرد کر دی تھی، اور میں بے بقائی محبت کے بارے میں سوچتا رہ گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply