عراق : اشتراکیت ،قوم پرستی اور سامراج

عراق : اشتراکیت ،قوم پرستی اور سامراج
مشتاق علی شان
gt; 14جولائی 1958جدید عرا ق کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب فوج میں خفیہ طور پر موجود ’’ فری آفیسرز ‘‘ نامی وطن پرست گروپ نے انیسویں بریگیڈ کے سربراہ عبدالکریم قاسم کی قیادت میں شاہ فیصل دوم اور اس کے جابر وبدعنوان وزیر اعظم نوری السعید کا تختہ الٹ کر عراق کو جمہوریہ قرار دیا۔اس انقلاب سے محض ایک دن قبل نوری السعید نے انیسویں بریگیڈ کے سربراہ کو اردن کی شاہی حکومت کے حفاظت کے کے عَمان جانے کا حکم دیا تھالیکن بادشاہ سے بھی زیادہ مطلق العنان نوری السعید کا یہ آخری حکم ثابت ہوا۔واضح رہے کہ اردن اور عراق کی بادشاہتیں تاج برطانیہ نے سلطنتِ عثمانیہ کے گورنر شریف حسین آف مکہ کے دو بیٹوں کو ان کے باپ کی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کے لیے خدمات کے صلے میں عطا کی تھیں ۔مکے کے گورنر شریف کو جلد ہی آلِ سعود نے نکال باہر کیا البتہ ہاشمی خاندان کو برطانیہ نے مایوس نہیں کیا ۔شام کی بادشاہت کا قرعہء فال بھی انہی کے نام نکلا مگر جلدہی 1920میں فرانس نے اس کا خاتمہ کر دیا تھا ۔1958میں عراق کی آخری ہاشمی بادشاہت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی جب کہ اردن میں اس خاندان کی سامراج نواز بادشاہت تاحال قائم ہے ۔
gt; 14جولائی 1958کی صبح 6:30بجے اہل عراق کے لیے بغداد ریڈیو کا یہ اعلان حقیقی معنوں میں ایک نئی صبح کی نوید تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ عوام اورقومی فوج کے وفادار سپوتوں کی قابلِ بھروسہ امداد کے بل بوتے پر ہم نے وطن عزیزکو سامراج کے مسلط کردہ بدعنوان ٹولے سے نجات دلا دی ہے ۔بھائیو،بہنو ! یہ فوج آپ کی ہے اور اس نے آپ ہی کی خواہشات کو عملی جامہ پہنایا ہے ۔آپ کا فرض ہے کہ فوج نے قصرِ شاہی اور نوری السعید کو جو ضرب لگائی ہے اس کی حمایت کریں ۔فوج کو سامراج اور اس کے گماشتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ بنا کر ہی اس فتح کی تکمیل ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔‘‘
عبدالکریم قاسم کے برپا کردہ اس انقلاب کو کمیونسٹ پارٹی آف عراق کی مکمل تائید وتوثیق حاصل تھی ۔ فوج میں موجودکمیونسٹ پارٹی کے خفیہ سیل اس شاہ مخالف اور سامراج مخالف انقلاب میں شامل تھے ۔ پارٹی کوراست اقدام کی تاریخ سے پیشگی مطلع کیا گیا تھا۔انقلاب کے اعلان کے ساتھ ہی بغداد ، بصرہ، موصل ، ناصریہ اور کرکوک میں عوام سڑکوں پر امڈ آئی۔ بغداد میں ایک لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر تھے جن کی قیادت کمیونسٹ پارٹی کے کیڈرز کر رہے تھے ۔
شاہ کی جگہ لینے والی انقلابی کونسل کا ارادہ تھا کہ شاہ فیصل دوم کو معزول کر کے جلا وطن کر دیا جائے گا جب کے اس کے چچا عبداللہ(جو کافی عرصہ قائم مقام بادشاہ رہا) اور وزیر اعظم نوری السعید پر عوام کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب پر مقدمہ چلایا جائے گا ۔لیکن اس دن بغداد میں عوامی طاقت جبر و استبداد کی ہر علامت کو خاکستر کرنے کے درپے تھی ۔شاہ فیصل دوم اور ’’فاتح بغداد ‘‘ کہلانے والے برطانوی جنرل ماؤڈکے مجسمے پاش پاش کر دیے گئے ۔قصرِ شاہی کے صحن میں جمع ہونے والے شاہی افراد کے خاندان شاہ اور اس کے چچا سمیت ایک مشتعل جونیئر فوجی افسر کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ نوری السعید نے عورت کا بہروپ بھر کر فرار ہونے کی کوشش کی مگر مشتعل ہجوم نے اسے پکڑ کر ہلاک کر دیا ۔نوری السعید کے خلاف عراقی عوام میں نہایت غم وغصہ پایا جاتا تھا ۔وہ تین دہائیوں سے زیادہ عراق کے عوام پر مسلط رہاوہ شاہ سے زیادہ مطلق العنان اور برطانیہ کا وفادار تھا ۔
انتہائی کمیونسٹ مخالف کے طور پر مشہور نوری السعید نے کبھی عوام کی خواہشات اور امنگوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا ۔سیاسی مخالفین کو سختی سے دبانا ،برسرِ عام وحشیانہ سزائیں ،تحریر وتقریر ، اخبارات پر قدغن اور کڑی سنسر شپ اس کے خاص ہتھیار تھے ۔1954میں اس نے عراق میں تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر کے سیاسی زندگی کو یکسر معطل کر دیاتھا۔عراق کے شاہ ایران اور سامراج نواز ترک حکمرانوں سے سے تعلق اوربغداد پیکٹ میں شمولیت اسی کی کوششوں کا نتیجہ تھی ۔شریف مکہ کی طرح اس نے بھی سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا تھا جس کا صلہ اسے عراق میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کی شکل میں دیا گیا ۔
برطانیہ اور امریکا میں کہرام بپا تھا کہ اس انقلاب کے نتیجے میں مصر اور شام کے بعد ایک اور اہم ملک میں ان کے مفادات خطرے سے دوچار تھے اور عراق کا ’’بغداد پیکٹ ‘‘ سے نکلنا نوشتہ ء دیوار تھا ۔اس بین الاقوامی عسکری تنظیم کا مقصد خطے میں سوشلزم کا راستہ روکنا اور تیل کے ذخائر پر اپنی کٹھ پتلیوں کو مسلط رکھنا تھا ۔ لیکن یہ انقلاب عراق کے محض تین ہزار فوجیوں اور بارہ رکنی انقلابی کونسل کی شورش نہیں تھی بلکہ اسے زبردست عوامی پذیرائی حاصل تھی جس نے اس انقلاب کے خلاف ہر قسم کے بیرونی و اندرونی مداخلت کے امکانات ختم کر دیے تھے ۔انقلاب کو کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ عرب قوم پرست بعث پارٹی اور جمہوریت پسندوں کی بھی حمایت حاصل تھی ۔عبدالکریم قاسم کی قیادت میں ہونے والی اس فوجی انقلاب کا موازنہ پاکستان اور خطے سمیت دنیا بھر میں برطانوی تربیت یافتہ فوجی جرنیلوں اور امریکی سرپرستی میں کی جانے والی رجعتی بغاوتوں سے ممکن ہی نہیں۔ برطانوی تربیت یافتہ جرنیلوں نے جہاں بھی اقتدار پر قبضہ کیا اس کے نتیجے میں عوام دشمن ، رجعتی اور سامراج نواز ٹولے ہی عوام پر مسلط ہوا ۔ا س کے برعکس عبدالکریم قاسم سے لے کر ایتھوپیا ،لیبیا ،برکینا فاسو،افغانستان سمیت متعدد ممالک میں وطن پرست ، سامراج مخالف ، عوام دوست اور ترقی پسند فوجی انقلابات کی مثالیں نظر آتی ہیں ۔
ایتھوپیا میں جنرل امان کے انقلاب کے نتیجے میں دنیا کی ایک قدیم اور سامراج نواز ،عوام دشمن ہیل سلاسی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ،بعد میں لیفٹیننٹ کرنل کامریڈ منجستو ہیل مریام کی قیادت میں ایتھوپیا ایک طاقتور سوشلسٹ ملک کے طور پر سامنے آیا ۔لیبیا میں کرنل معمر قذافی کے ہاتھوں شاہ ادریس تاریخ کے اسٹیج سے رخصت ہوا،مصر میں جنرل نجیب کی قیادت میں شاہ فاروق کو تخت سے اتار پھینکا گیا ۔برکینا فاسو میں کامریڈ کیپٹن تھامس سنکارا نے زیربو سایے کی سامراج نواز آمریت کا خاتمہ کیا ۔ افغان ثور انقلاب برپا کرنے والے جنرل عبدالقادر ڈگر وال ، میجر اسلم وطن جار اور دیگرفوجی افسران انقلاب سے لے کر آخر تک افغان کمیونسٹ پارٹی (PDPA) کے ڈسپلن میں رہے اور داؤد شاہی کا خاتمہ کر کے زمام اقتدار پارٹی کی سویلین قیادت کو سونپی ۔اس کے مقابل اسپین میں جنرل فرانکو ، انڈونیشیا میں جنرل سوہارتو، چلی میں جنرل پنوشے ، کانگو میں جنرل مبوتو ،پاکستان میں ضیاء الحق سمیت ساری عوام دشمن ،رجعتی اور فاشسٹ فوجی آمریتوں کو ،سارے وردی پوش طالع آزماؤں کولبرل سرمایہ داری ،اس کے سامراجی نمائندے امریکا کی مکمل تائید وتوثیق حاصل رہی، آج بھی فوجی طالع آزما اسی سے اپنی آمریت کی منظوری لیتے ہیں۔ اسی لبرل سامراجیت کے زیر سایہ جہاں سعودی عرب،اردن، قطر، بحرین سمیت متعدد رجعتی بادشاہتیں قائم ہیں وہاں مصر میں اپنے پرانے مہرے حسنی مبارک کے بعد اس نے مصر پر السیسی جیسے فوجی آمر کو مسلط کر رکھا ہے. ہمارے مخصوص حالات کے تناظر میں آج بریگیڈیئر عبدالکریم قاسم کے فوجی انقلاب کا تجزیہ کرنا ، اسے یاد کرنا اور خراج تحسین پیش کرنا بادی النظر میں عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تاریخ کے اُس ہنگامہ خیز دور میں14جولائی 1958کا فوجی انقلاب عالمی سیاست کے افق پروطن پرستی ، حقیقی سامراج مخالفت ،ترقی پسندی اور عوام دوستی کے ستارے کے طور پر طلوع ہوا جسے ترقی پسند انسانیت کے ورثے کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔
عبدالکریم قاسم کی قیادت میں کامیابی سے سرانجام دیے جانے والی اس بغاوت سے قبل عراق کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی بغاوت’’الوطبہ ‘‘(جست) کمیونسٹ پارٹی نے جنوری 1948میں منظم کی تھی ۔کمیونسٹ پارٹی کے طلبا کی جانب سے شروع کی گئی یہ تحریک جسے مہمیز کرنے میں کمیونسٹ پارٹی کی مختلف صنعتوں سے وابستہ ٹریڈ یونینزبالخصوص ریلوے،الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا ۔ یہ تحریک جس میں ملک بھر کے محنت کش، دہقان اور سماج کی تمام مظلوم پرتیں شامل ہو گئی تھیں ،عراق کی نوآبادیاتی حیثیت کو مستقل شکل دینے والا معاہدے کے خلاف ابھری تھی جسے اس تحریک کے نتیجے میں عراقی حکومت کومجبوراََ منسوخ کرنا پڑا ۔لیکن ’’ جمہوریت ‘‘ اور’’روٹی ،سب کے لیے‘‘ جیسے مطالبات کے تحت یہ تحریک چار ماہ تک جاری رہی تاوقتیکہ اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی عراق نے بھی مصر،شام اور اردن کے ہمراہ اپنی فوج فلسطین میں داخل کر دی ۔ اس موقع کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے صہیونیت مخالف نعروں کی آڑ میں مذہب اور قومیت کے نعروں کے ذریعے عوامی غم وغصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی اور دوسری جانب اسی جنگ کی آڑ میں کمیونسٹ پارٹی کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا گیا ۔
قتل وخوں ریزی کی اس لہر میں کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ۔ کمیونسٹ پارٹی’’ الحزب الشیوعی العراقی‘‘ کے بانی اورجنرل سیکریٹری کامریڈ یوسف سلمان یوسف جو کامریڈ فہد کے نام سے معروف تھے انھوں نے الوطبہ تحریک کے سارا عرصہ جیل میں گزارا ،انھیں پارٹی کے دو اور رہنماؤں کامریڈ ذکی بسیم اور کامریڈ محمد حسین الشبیبی کے ہمراہ 13اور14فروری 1949کو بغداد کے تین مختلف چوراہوں پر سرِعام پھانسی دی گئی اور عوام کوخوفزدہ کرنے کے لیے ان کی لاشیں وہاں لٹکائے رکھیں ۔بعد ازاں ان لاشوں کو خفیہ طور پر بغداد کے المعظم قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔دنیانے تو ابو غریب جیل اور وہاں امریکی سامراجیت کا گھناؤنا چہرہ کوئی پچاس سال بعد دیکھا لیکن شاہ عبداللہ اور نوری السعید ٹولے نے اپنے برطانوی سرپرستوں کی مکمل تائید اور نگرانی میں بغداد کی ابو غریب جیل کو چالیس اور پچاس کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں ،کارکنوں اور ہمدردوں کے لیے ایک دہکتے ہوئے تندور میں تبدیل کر دیا تھا جہاں لرزاں خیز انسانیت سوز جرائم کے سامنے امریکی جرائم بچوں کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔
ایک انتہائی غیر مقبول حکومت کے ہاتھوں کمیونسٹ پارٹی کی رہنماؤں کے بہیمانہ قتل سے عراقی عوام میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے ہمدردی میں مزید اضافہ ہوا ۔ کامریڈیوسف سلمان یوسف سمیت کمیونسٹ پارٹی کے بیشتر رہنماؤں کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا۔پارٹی کا قیام 31مارچ 1934کو بغداد ، ناصریہ اوربصرہ وغیرہ کے ان مارکسی طلباکے اسٹڈی سرکلز گروپ کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا جو 1924تا1927 وجودمیں آئے تھے ۔ کامریڈ یوسف سلمان یوسف ایک زبردست مساعی پسند، دانشور تھے جن کی کوششوں سے عراق میں کمیونسٹ پارٹی کو عوامی بنیادیں حاصل ہوئیں اور یہ دنیائے عرب کی سب سے طاقتور کمیونسٹ پارٹی بن کر ابھری ۔کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان جریدہ ’’کافہ الشعب‘‘ ( عوام کی جدوجہد) عراق میں خفیہ طور پرشایع ہونے والا پہلا جریدہ تھا جس نے کمیونسٹ کیڈرز کی تربیت اور عراق میں انقلابی افکار کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دوسری طرف انھوں نے خطے کی دیگر کمیونسٹ پارٹیوں بالخصوص شام کی کمیونسٹ پارٹی اور دنیائے عرب کے معروف شامی کمیونسٹ رہنما کامریڈ خالد بکداش اورفلسطینی کمیونسٹوں سے تعلقات استوار کیے ۔1935تا1938کا زمانہ انھوں نے ماسکو میں ’’مشرقی طلباء کی کمیونسٹ یونیورسٹی‘‘(KUTV) میں گزارا ۔وطن واپسی کے کچھ عرصے بعد وہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور اپنی شہادت تک عراق میں برطانوی ،شاہ فسطائیت کے خلاف مصروفِ جہد رہے ۔
جولائی 1958میں عبدالکریم قاسم کی قیادت میں کیے جانے والے راست اقدام کے وقت کمیونسٹ پارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت تھی اورعراقی فوج میں اس کے متعدد خفیہ سیل موجود تھے ۔عبدالکریم قاسم خود مزدور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے والد پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔انتہائی غربت زدہ بچپن گزارنے والے عبدلکریم قاسم ایک ذہین طالبعلم تھے جنھوں نے بغداد سے1934میں اعزاز کے ساتھ گریجویشن کیا اور پھر فوج میں بھرتی ہو گئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ا نیسویں بریگیڈ کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کا زمانہ عالمِ عرب میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آیا ۔یہ وہ وہ دور تھا جب عرب دنیا کے افق پر مصر کا قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر سامراج مخالفت اور پان عرب ازم کا نمائندہ بن کر ابھرا ۔1953میں مصر کے محب وطن فری آفیسرز کی شاہ فاروق کے خلاف کامیاب بغاوت ، نہر سوئز کو قومیانے اور برطانوی وفرانسیسی فوج کا ڈٹ کا مقابلہ کرنے اور غیر ملکی افواج کے انخلا نے اسے عرب دنیا کا مقبول رہنما بنا دیا تھا۔ ان حالات سے متاثر ہو کر عراقی فوج کے کچھ افسران نے فوج میں ’’ فری آفیسرز‘‘ گروپ تشکیل دیا ۔
یہ نظریاتی سطح پر ایک دوسرے سے مکمل ہم آہنگ گروپ نہیں تھا اس میں اگر ایک طرف کمیونسٹ افسران تھے تو دوسری جانب بعث پارٹی کے قوم پرست اور عبدالسلام عارف جیسے ناصر اسٹ افسران بھی شامل تھے ۔ اس گروپ کے سربراہ عبدالکریم قاسم ایک وطن پرست آفیسر تھے وہ عراق میں برطانوی اثر ورسوخ اور شہنشاہیت کے شدید مخالف تھے لیکن وہ بعث پارٹی یا جمال عبدالناصر کے قوم پرستانہ افکار سے ہرگز متاثر نہ تھے ۔ ہر چند کہ عبدلکریم کمیونسٹ نہ تھے لیکن اپنے محنت کش پس منظر اور عراق میں برطانیہ ،شاہ گٹھ جوڑ کے خلاف کمیونسٹ پارٹی کی سرفروشانہ جدوجہد ،قربانیوں اور ان کے بے داغ کردار کی وجہ سے شروع سے ہی کمیونسٹ پارٹی کے معترف تھے اوران کارویہ کمیونسٹوں کی جانب انتہائی دوستانہ تھا ۔ جمال عبدالناصر سے لے کر عبدالسلام عارف اور سارے بعثی قوم پرست انھیں بہر حال ایک ’’ خفیہ کمیونسٹ‘‘ ہی قرار دیتے تھے۔
انقلاب کے بعدجلد ہی عبدالکریم قاسم اور عبدالسلام عارف کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے ۔عبدالاسلام عارف حکومت اور فوج میں کئی ایک اہم عہدوں پر کمیونسٹوں کی تعیناتی سے ناخوش تھا ۔مثال کے طور پر کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک کامریڈ مصطفی علی کا وزیر انصاف مقرر ہونا۔عارف اور عبدالکریم قاسم کے درمیان اس وقت اختلافات شدید ہو گئے جب عارف نے عبدالکریم قاسم پر مصر اور شام کے الحاق سے وجود میں آنے والی ’’ متحدہ عرب جمہوریہ ‘‘ میں عراق کی شمولیت کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا ۔ قاسم اورکمیونسٹ پار ٹی جمال عبدالناصر اور شامی رہنما شکری القوتلی کے اس منصوبے پر بخوبی وارد تھی جس کے ذریعے انھوں نے شام مصر اتحاد کا ڈول ڈالتے ہوئے شام میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کو روکاتھا ۔مصر ،شام اور بعد ازاں عراق میں قوم پرستوں کے ہاتھوں کمیونسٹوں پر ہونے والے جبر کے خلاف بعث پارٹی اور بعث ازم کے بانی شامی قوم پرست دانشور اور رہنما میشل عفلق نے ایک وقت میں مقدور بھرآواز بھی بلند کی لیکن جمال عبدالناصر کا جادو ان دنوں سر چڑھ کر بولتا تھا سو اُس نقار خانے میں ان کی ایک نہ سنی گئی ۔قاسم جانتے تھے کہ یہی کچھ وہ عراق میں کرنا چاہتے ہیں ۔عبدالکریم قاسم جتنا کمیونسٹ پارٹی کے قریب ہوتے گئے عارف اوربعثیوں کی ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اس کا نتیجہ عارف کی معزولی اور قید پر منتج ہوا ۔قاسم ایک شریف النفس انسان تھے جنھوں نے عارف سمیت کسی کی گردن زنی کے احکامات صادر نہیں کیے ۔ وہ اس متحدہ محاذ کو قائم رکھنا چاہتے تھے سوبہت سے ناصراسٹ اور بعثی افسران اور عہدیدارفوج و حکومت کا حصہ رہے ۔عارف کی معزولی اور قید سے البتہ جمال عبدالناصر مشتعل ہو گیا۔مصر کا یہ قوم پرست رہنما ایک طرف تو سامراج مخالفت ، وطن پرستی، وسیع تر عرب اتحاداور غیر جانبداری کا داعی تھا اور اس نے سوویت یونین سمیت کئی ایک سوشلسٹ ممالک سے تعلق قائم کرتے ہوئے سوئز بحران سے اسوان ڈیم کی تعمیر اور عسکری امداد حاصل کی تھی ،لیکن دوسری جانب یہی جمال عبدالناصر مصر میں کمیونسٹوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی برتنے کا روادار نہ تھا ۔وہ نہ صرف مصر میں کمیونسٹوں کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آیا بلکہ شام ،یمن ، عراق فلسطین تک میں اس نے اپنے مقابل کمیونسٹوں کو ایک حقیقی خطرے کے طور پر دیکھا اور قوم پرستوں کو ان کے خلاف شہ دیتا رہا ۔
عبدالکریم قاسم حکومت کے خلاف پہلی بغاوت مارچ 1959موصل اور کرکوک میں ہوئی جس کی قیادت بریگیڈئیر ناظم الطبق جلی اور کرنل عبدالوہاب الشواف کر رہے تھے۔اس بغاوت کو جمال عبدالناصر کی مکمل تائید وامداد حاصل تھی۔ بطور فریق قاہرہ ریڈیو سے عراقی حکومت کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی جاری تھی جس میں عراقی عوام سے آمر کا تختہ الٹنے کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔اس کے جواب میں ریڈیو بغداد سے بھی سخت جوابات نشر ہوئے جس میں غیر ملکی امداد کی کڑے لفظوں میں مذمت کی گئی ۔عراق کی عوامی عدالتِ انصاف کے سربراہ مہدوی کے اس بیان نے جمال عبدالناصر کی انا پر شدید ضرب کاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’عرب کارواں کو کتوں کے بھونکنے کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے ،یہ کتے خواہ عرب ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ موصل اور کرکوک کمیونسٹ پارٹی کے گڑھ سمجھے جاتے تھے جہاں اس فوجی بغاوت کے خلاف پارٹی نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ناکامی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
اس بغاوت کی ناکامی کے ردِ عمل کے طورپر دوسری بغاوت کا آغاز اسی سال اکتوبر کے مہینے میں بعث پارٹی کے خصوصی قاتل دستے نے عبدالکریم قاسم پر قاتلانہ حملے سے کیا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے ۔اس قاتل دستے کا ایک رکن صدام حسین بھی تھاجو بعد میں طویل عرصے تک عراق کا حکمران رہا ۔اکتوبر 1959کو قاسم حکومت کے خلاف ہونے والی اس بغاوت کے موقع پر بھی فوج میں شامل کمیونسٹ افسران حرکت میں آ گئے ۔ پارٹی کیڈرز کی قیادت میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ کمیونسٹوں نے وزارتِ دفاع اور کمیونیکیشن نیٹ ورک کا کنٹرول سنبھال لیا اور یوں یہ بغاوت بھی ناکام بنا دی گئی ۔ان دو بغاوتوں کوناکام بنانے میں کمیونسٹ پارٹی کے کلیدی کردار نے جہاں کمیونسٹوں کے خلاف ناصراور عراقی بعثیوں کو مزید مشتعل کیا وہاں قاسم ایک بار پھر کمیونسٹوں کی کمٹمنٹ کے قائل ہو گئے جن کے لیے ان دونوں موقعوں پر اقتدار پر قبضہ کر لینا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔البتہ کمیونسٹ پارٹی کی اسی طاقت کو بنیاد بنا کر کچھ عناصر نے بعد ازاں قاسم کو کمیونسٹوں سے خوفزدہ اور ان سے دور کرنے کی کوشش کی ۔
عراق میں برپا ہونے والے اس سامراج مخالف اور شاہ مخالف انقلاب کواگرچہ ابتداء سے ہی گوناگوں مسائل اور اندرونی وبیرونی ریشہ دوانیوں کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود 1958سے 1963تک کمیونسٹ پارٹی کی معاونت سے قاسم دور میں کیے جانے والے اقدامات اور حاصلات کو دیکھا جائے تو جدید عراق کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔قاسم حکومت نے برسرِ اقتدار آکرشاہی خاندان کی ملکیت ضبط کر لی ،اردن کی ہاشمی سلطنت سے تعلقات منقطع کر لیے برطانیہ کے ساتھ ’’باہمی سلامتی ‘‘ اورغیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کالعدم قرار دیے گئے ۔ جاگیرداری کا خاتمہ کرتے ہوئے مؤثر زرعی اصلاحات کے نتیجے میں پہلی بار نہری اور بارانی زمین کی حدِملکیت مقررکی گئی ۔ 3000بڑے جاگیردارجو ملک کی56%سے زائد سے زمین کے مالک تھے ان سے زمین کا حقِ ملکیت بے زمین کسانوں کو منتقل ہوا ۔ امیر طبقے پر ٹیکس کی شرح40%سے بڑھا کر 60%کردی گئی ۔روزمرہ استعمال کے اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی مکانات وغیرہ کے کرائے 20%کم کر دیے گئے ۔ عراق میں مزدوروں کے لیے پہلی بار آٹھ گھنٹے اوقاتِ کار مقرر ہوئے ۔محنت کشوں کو پہلی بار سوشل سیکورٹی اور پنشن کی سہولیات حاصل ہوئیں ۔ایسی صنعتیں جہاں سو یا سو سے زائد ورکرز کام کرتے تھے وہاں مفت رہائش لازم قرار دی گئی ۔
اس کے علاوہ بغداد میں محنت کشوں کے لیے بجلی ،پانی، سڑکوں ،اسکول ،اسپتال، طبی مراکز اور دیگر سہولیات کے ساتھ دس ہزار گھروں پر مشتمل نئی آبادی ’’ مدینتہ الانقلاب‘‘ کے نام سے تعمیر کی گئی۔اسی طرح دور دراز دیہاتوں میں بجلی ،پانی،روڈ، صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں لائی گئیں،تعلیمِ بالغاں اور نوجوانوں کے لیے خصوصی تعلیمی مراکز قائم کیے گئے،تعلیمی بجٹ 13ملین دینار سے بڑھا کر24ملین دینار کر دیا گیا۔ عورتوں کے مساوی حقوق کے لیے بھی انقلابی بنیادوں پر اقدامات کیے گئے جن میں کثیر زوجی اور کم عمری کی شادیوں پر پابندی سے لے کر طلاق لینے کے حق کا تحفظ اور آئین کے آرٹیکل 74کے تحت وراثت میں برابرکاحق شامل تھا۔ پرسنل اسٹیٹس کوڈ کے نفاذ سے بھی عورتوں کی زندگیوں میں بہتری لائی گئی ۔ عراق کے کردوں کے ساتھ باہمی گفت وشنید کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ابتداء کی گئی۔
اس سلسلے میں عبدالکریم قاسم نے معروف کرد لیڈر مصطفی برزان سے کئی ایک ملاقاتیں بھی کیں ۔اسی طرح عراق حکومت نے غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی اور بغداد پیکٹ سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ سوویت یونین اور کئی ایک سوشلسٹ ممالک سے بھی تعلقات استوار کیے گئے ۔ الجزائر کی قومی آزادی کی تحریک اورعبوری حکومت سے لے کر فلسطین کاز کی بین الاقوامی سطح پر بھرپور حمایت سمیت عمان اور خلیج عرب میں آزادی کی تحریکوں کو زبردست اخلاقی ، مالی اور عسکری امداد فراہم کی۔
عبدالکریم قاسم کی حکومت کو گرانے کی متعدد بار کوششیں کی گئیں ،اپنے آلہ کاروں کے ذریعے کبھی کمیونسٹ پارٹی تو کبھی کرد وں سے اس کے اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان تمام کوششوں میں ناکامی کے بعد بعث پارٹی اور قاسم مخالف عناصر نے 1963میں حکومت پر قبضے کا فیصلہ کیا اور اس کی بھرپور تیاری کی گئی ۔8فروری1963کو فوجی سنگینوں کے سائے تلے قاسم حکومت کا خاتمہ اہلِ عراق کے لیے ایک ایسے عہدِ سیاہ کا آغاز تھا جو آج بھی امریکی قبضے کی شکل میں جاری ہے ۔بغاوت کے فوری بعدناصر نواز قوم پرست عبدالسلام عارف نے اقتدار سنبھالا۔ ایک نام نہاد فوجی عدالت نے سرسری سماعت کے بعد عبدالکریم قاسم اور اس کے ساتھ گرفتار ہونے والے رفقاء کو سزائے موت سنائی جس پر فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے فی الفور عمل درآمد کیا گیا ۔یہی کچھ فوج میں موجود کمیونسٹ اور عبدالکریم قاسم کے حامی افسران کے ساتھ کیا گیا ۔
عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے ایک طرف عبدالکریم قاسم اور اس کے ساتھیوں کی لاشوں کی ٹیلی ویژن پر نمائش کی گئی تو دوسری جانب بغداد میں بد نام زمانہ ’’ تین روزہ کمیونسٹ مار مہم ‘‘ کا آغاز کیا گیا جس میں باوردی غنڈوں کے ساتھ ساتھ بعث پارٹی اور ناصر نوازسویلین قاتل جتھے شامل تھے ۔کمیونسٹ پارٹی نے بھرپور مزاحمت کی لیکن پارٹی کے جواں سالہ جنرل سیکریٹری کامریڈ حسین احمد الرضی سمیت جو اعلیٰ پائے کے انقلابی شاعر اور مصور بھی تھے، اکثر پارٹی رہنما گرفتار کر لیے گئے ۔ان تین دنوں میں بغداد میں کمیونسٹ پارٹی کے پانچ ہزار سے زائد کیڈرز اور کارکنوں کا قتل عام کیا گیا اور پھر یہی عمل عراق بھر میں دہرایا گیا۔ بعد میں جمال عبدالناصر کے دستِ راست اور مشہور عرب صحافی محمد حسنین ہیکل کو اردنی فرمانروا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عراقی فوجی ٹولے اور بعثیوں کو کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان کی فہرستیں امریکی سی آئی اے نے فراہم کی تھیں۔8فروری کی بغاوت کے موقع پرکمیونسٹوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے ایک خفیہ ریڈیو ان کے نام پتے مسلسل نشر کر رہا تھا ۔جب کہ 8فروری کی بغاوت سے قبل اس سلسلے میں ’’سامراج مخالفت ‘‘،’’ عرب قومیت ‘‘ اور ’’ عرب سوشلزم ‘‘ کے نقاب اوڑھنے والے بعث پارٹی کے رہنماؤں نے کویت میں امریکی انٹیلی جنس کے افسران سے کئی ایک ملاقاتیں کی تھیں ۔
انڈو نیشیا میں پندرہ لاکھ کمیونسٹوں کا قتل عام کرنے والا جلاد جنرل سوہارتو1965میں منظر عام پر آیا لیکن عراق کے کمیونسٹ اُس کا عرب ورژن عبدالسلام عارف کی شکل میں دو سال قبل ہی بھگت چکے تھے ۔ کمیونسٹ پارٹی خاص طور پر عارف ٹولے کے غیض وغضب کا نشانہ بنی ۔کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کامریڈ حسین احمد الرضی کو ایسی حالت میں گرفتار کیا گیا کہ ان کی انگلیاں تشدد کے نتیجے میں بری طرح ٹوٹی ہوئیں، جسم زخموں سے بھرااور شکستہ تھا ۔وہ اس حالت میں بھی اگلے سولہ دن تک عارف کے عقوبت خانوں میں تشدد سہتے رہے اور 24فروی 1963کو وفات پا گئے ،ان کی لاش تیزابی محلول میں تحلیل کر دی گئی ۔ وہ کمیونسٹ پارٹی جس نے شاہ فیصل اول سے لے کر شاہ عبداللہ، نوری السعید اور شاہ فیصل دوم تک کے وار سہے تھے اس حملے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئی۔اس کے بچ جانے والے رہنما اور کیڈرزعراق سے باہر چلے گئے یا پھر روپوشی اختیار کر لی ۔البتہ کرد علاقوں میں پارٹی کسی حد تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ۔بہر حال یہ کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی اور عوام میں ان کی مقبولیت ہی تھی جس کے باعث اگر عارف کو اپنے دور میں ’’ اسلامی سوشلزم ‘‘ جیسے نعروں کا سہارالینا پڑا تو بعثیوں نے بھی ’’عرب سوشلزم‘‘ کے خوب نعرے جگالے ۔
بعث پارٹی کی معاونت اورجمال عبدالناصر کی حمایت سے عارف تین سال اقتدار میں رہا تاوقتیکہ اپریل 1966میں ایک طیارہ حادثہ اس کے اقتدار اور زندگی پر بیک وقت خطِ تنسیخ پھیر گیا ۔ عارف کی موت کے بعد جمال عبدالناصر کی ایماء پر اس کا بھائی عبدالرحمن عارف تختِ بغداد پر متمکن ہوا ۔عبدالسلام عارف کی ہلاکت کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے سنبھالا لینے کی کوشش کی اور اس کے کچھ جلاوطن رہنما بھی بیرون ممالک سے لوٹ آئے جن میں سے ایک کامریڈ خالد زکی تھے ۔جدوجہد کے طریقہ کار پر اختلاف کے باعث کامریڈ خالد زکی ،نجم محموداور عزیز الحاج کا گروپ ’’ سینٹرل کمانڈ‘‘ کے نام سے الگ ہوگیا اور اس نے ضلع ناصریہ کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضے سے مسلح جدوجہد کا آغاز۔بغداد سرکار کا ردِ عمل شدید تھا ۔گوریلوں کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کی گئی جس میں کامریڈ خالد زکی لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور ان کے بیشتر ساتھی گرفتار کر لیے گئے ۔ یوں ایک بار پھر عراق میں کمیونسٹوں پر زمین تنگ کر دی گئی جس میں گرفتاری کے بعد منحرف ہوجانے والے’’ سینٹرل کمانڈ‘‘ کے رہنما عزیز الحاج کی غداری نے تباہ کن کردار ادا کیا ۔
بہر کیف بعثیوں نے جلد ہی عبدالرحمن عارف کواقتدارسے اتار پھینکا اور 17جولائی 1968کو بعث پارٹی نے احمد حسن البکر کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔صدام حسین حسن البکر کا دستِ راست اور کزن تھا جو بعث پارٹی کے لیے پہلے ہی ’’ قابلِ قدر‘‘ کارنامے سر انجام دے چکا تھا ۔البکر حکومت میں خفیہ سرگرمیاں انجام دینا اس کا منصب ٹھہرا جس میں مخالفین کا قتل، جبر وتشدد ،وفاداریاں خریدنا اوردیس نکالے شامل تھے ۔البکر کی بعثی حکومت نے بھی کئی ایک سوانگ بھرے جس میں سوویت یونین سے تعلقات اور عوامی جمہوریہ جرمنی کو تسلیم کرنے جیسے اقدامات شامل تھے ۔ایک طرف سوویت یونین کی قیادت تھی جو اس زمانے کے عالمی تناظر میں جمال عبدالناصر سے لے کر حسن البکر جیسی حکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اپنے طور پر یہ سمجھتی تھی کہ اس طرح ان ممالک کو سامراجی حلقہ ء اثر سے بچایا جا سکتا ہے ۔دوسری جانب یہ عرب قوم پرست حکومتیں تھیں جنھوں نے کمیونسٹ نعرے چرا کر ان کی جگہ لینے کی کوشش کی اورعوام کو گمراہ کیا۔سوویت یونین کے سارے تخمینے غلط ثابت ہوئے جس کی بھاری قیمت ان ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں نے ادا کی اور قوم پرست حکومتوں نے اپنے ممالک میں کمیونسٹوں کا ناطقہ بند کیے رکھا ۔اس ساری صورتحال کے تباہ کن اثرات بہر حال ان ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں پر ہی پڑے خاص طور پر عراقی کمیونسٹ پارٹی تو کہیں کی نہ رہی ۔مئی 1973میں کمیونسٹ پارٹی حکومت کے ساتھ قومی محاذ میں شامل ہو گئی جسے سوویت یونین نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ۔لیکن حکومت میں شامل کمیونسٹ پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
یہاں تک کہ حسن البکر کے نائب صدام حسین نے کمیونسٹ پارٹی کی فوج میں کسی بھی قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ اس دوران کردستان میں شاہ ایران کی مدد سے بغداد حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوئی جس کے نتیجے میں بکر حکومت کو شاہ ایران سے معاہدہ کرنا پڑا ۔اس کے ساتھ ہی عراق کی بعث پارٹی ’’سامراج مخالفت‘‘ اور ’’عرب سوشلزم ‘‘ کے نقاب اتار پھینکتے ہوئے کھل کر امریکا اور مغرب کے سامراجی کیمپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔ امریکا کو اپنی دوستی کا یقین دلانے کے لیے 1978میں کمیونسٹ پارٹی کو حکومت سے باہر کر دیا گیا، کمیونسٹ پارٹی کے متعددرہنما گرفتار کیے گئے ۔ صدام حسین نے کمیونسٹ پارٹی کے 31ارکان پر فوج میں کمیونسٹ پارٹی کے خفیہ سیل قائم کرنے کے الزامات لگا کر انھیں پھانسی دے دی ۔لیکن اس بار کمیونسٹ پارٹی کی حمایت میں ماضی کی طرح نہ عوام باہر نکلے نہ کہیں سے کوئی صدا بلند ہوئی ۔ اپنی پالیسیوں اور حکومت میں ’’ ناکارہ پرزے‘‘کے طور پر شامل رہنے کے باعث پارٹی اپنی عوامی حمایت کب کا کھوچکی تھی ۔
gt; 1979میں صدام حسین نے اپنے محسن ومربی حسن البکر کوجبری طور پر مستعفی ہونے پر مجبور کیا اورخود عراق کا صدر بن بیٹھا ۔صدام نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی آمریت کو طول دینے کے لیے فی الفور ہر طرح کی مخالفت کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کا آغازصدام نے بعث پارٹی کی ’’انقلابی کونسل‘ ‘میں اپنے خلاف بغاوت کی سازش کے انکشاف سے کیا کہ بعث پارٹی کے مکتب سے اس نے یہی سبق سیکھا تھا ۔اس مقصد کے لیے خاموشی سے ’’ انقلابی کونسل ‘‘کا اجلاس طلب کیا گیا ۔اسٹیج پر بیٹھا صدام حسین سگار سے لطف اندوز ہوتا رہا اور باغی افراد کے ناموں کی فہرست باآوازِ بلند پڑھی جانے لگی ۔انہیں اسی وقت گرفتار کر کے فوی طور پر ’’ انصاف کے تقاضے‘‘ پورے کر دیے جاتے ۔اجلاس کے باقی ماندہ شرکا پر وہ ہیبت طاری ہوئی کہ انھوں نے خوفِ مرگ سے صدام سے وفاداری کا یقین دلانے کے لیے نعرے لگانے شروع کر دیے۔اب اپنے ہی سابقہ سرپرستوں کے ہاتھوں اقتدار کے خاتمے اور عراق پر قبضے تک صدام حسین ہی بعث پارٹی اور بعث پارٹی ہی صدام حسین تھی ۔
پچاس کی دہائی میں تکریت میں بعث پارٹی کے لیے پہلا ’’کارنامہ‘‘ کمیونسٹ پارٹی کے ضلعی جنرل سیکریٹری کے قتل کی صورت میں سرانجام دینے اور عبدالکریم قاسم پر ناکام قاتلانہ حملہ کر کے انھیں زخمی کرنے والے صدام حسین نے اقتدار میں آکر نہ صرف باقی ماندہ کمیونسٹوں بلکہ کردوں،شیعوں سمیت ہر سیاسی مخالف کو مکمل طور پر نابود کرنے کی روش اختیار کی۔ اس نے عراقہ ساختہ جمال عبدالناصر بننے کے لیے کبھی سامراج مخالفت کے سوانگ بھرے ،تو کبھی اس پرتکریت سے تعلق کی بنا پر بیسویں صدی کا’’ صلاح الدین ایوبی ‘‘ بننے کا خبط سوار ہوا ۔یہ’’عظیم عرب نجات دہندہ ‘‘ اور ’’ سیف العرب‘‘ بننے کا خبط ہی تھا کہ اس نے انہی مغربی سامراجیوں ،امریکااور ان کے عرب شامل باجوں بالخصوص سعودی عرب کی تائید وامداد سے عراق ایران جنگ کا ڈول ڈالاجس میں چار لاکھ عراقی اور پانچ لاکھ ایرانی سپاہیوں سمیت دس لاکھ انسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ البتہ کویت پر حملے کے بعد یہی امریکا اور سعودی عرب تھا جس نے اپنے مہرے کے خلاف جنگ لڑی ۔دراں حالیکہ 2003میں امریکا عراق پر قابض ہو گیا اور 2006میں اسی امریکا کی ایماء پر صدام حسین کو تختہ ء دار پر لٹکا دیا گیا ۔
صدام کے آخری لمحات کے گواہ اور عراق کےسابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرموافق الربیعی نے 2013میں بتایا کہ صدام کی پھانسی پر عملدرآمد عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس کے بعد کیا گیا، جس میں بش نے نوری المالکی سے سوال کیا کہ ’’آپ اس مجرم کے ساتھ کیا کریں گے؟‘‘ مالکی نے جواب دیا، ’’ہم اسے لٹکادیں گے‘‘۔ مالکی کے اس فیصلے کی توثیق بش نے اپنے ہاتھ کا انگوٹھا بلند کر کے کی۔
صدام حسین نے جس انقلاب دشمن سرگرمیوں سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا وہ اس کی جسمانی زندگی کے ساتھ 30دسمبر2006کو ختم ہو گئی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر عراق کے جولائی1958کے انقلاب تک اہلِ عراق پر ڈھائے جانے والی ہر قیامت کو لبرل برطانیہ اور امریکا کی مکمل تائید حاصل تھی تو عبدالکریم قاسم کی حکومت کے خاتمے کے بعد بالعموم اور صدام حسین کے دور میں بالخصوص عراقی عوام کے خلاف سارے سنگین جرائم اسی امریکا اور اس کے مقامی شامل باجوں کی کبھی اعلانیہ تو کبھی غیر اعلانیہ سرپرستی میں ہوتے رہے۔وہ ملک جہاں انقلابی قوتوں نے زبردست انگڑائی لی تھی رجعت پسندی اور مذہبی جنونیت کے گڑھ بنا دیے گئے ۔ جمال عبدالناصر سے لے کر حافظ الاسد اور صدام حسین تک بیشتر عرب قوم پرست اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث اپنے سے زیادہ ترقی پسند اور انقلابی قوتوں کو کچل کر یہ سمجھتے رہے کہ وہ اپنے مستقبل ’’ محفوظ ‘‘ بنا رہے ہیں ۔لیکن جمال عبدالناصر کا ناصر ازم، سامراج مخالفت ،پان عرب ازم اپنے ورثے میں امریکی سامراج کے ہاتھوں میں انور سادات جیسا مرغِ دست آموز چھوڑ گیا ،جس نے امریکی وفاداری میں امریکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور پھر انہی اخوانیوں کے ہاتھوں توپ دم ہوا جو ناصر کی پالیسیوں کی منطقی پیداوار تھے ۔ مصر ، عراق، شام وغیرہ میں ان پالیسیوں کے نتیجے میں کوئی ترقی پسند متبادل باقی ہی نہیں رہنے دیا گیا اور آج وہاں اخوان المسلمون سے لے کر داعش تک وحشت اور جنونیت کی ہر نئی شکل ناصر ازم، بعث ازم، عرب قومیت اور عرب سوشلزم کے مقبروں کی آوارہ روحیں ہیں جن کا کنٹرول نام نہاد عالمی لبرل سامراجی قوتوں کے ہاتھوں میں ہے ۔آج کا عراق عبرت سرائے دہر کی زندہ تصویر ہے جسے سامراجی گدھوں نے نوچ نوچ کر نڈھال کر دیا ہے ۔
آج اس عبرت کدے میں ماضی کی پرشکوہ عمارت کی باقیات عراقی کمیونسٹ پارٹی کے شکستہ ڈھانچے کی شکل میں بھی نظر آتی ہے جس نے عالمِ عرب میں خود کو سب سے منظم اور قوی انقلابی پارٹی کے طور پر منوایا، سب سے زیادہ قربانیاں دیں،بادشاہت کے خاتمے میں تاریخی کردار ادا کیا ،کامریڈ یوسف سلمان یوسف ، کامریڈ ذکی بسیم، کامریڈ محمد حسین الشبیبی، کامریڈ حسین احمد الرضی اور کامریڈ خالد زکی جیسے مبارزین کو جنم دیا اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی خود کو زندہ رکھا وہی کمیونسٹ پارٹی آج ،ترمیم پسندی ، انحرافات ، موقع پرستی کا ایک بدترین نمونہ ہے۔ صدام حسین سے تمام تر اختلافات کے باوجودبے سروپا الزامات کے تحت امریکی حملے کے ذریعے اس کی حکومت کا خاتمہ،عراق پر قبضہ اور پھر اسے پھانسی پر لٹکا دینا ایسے سامراجی جرائم تھے جن کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن عراق کی کمیونسٹ پارٹی کا دامن اس سے آلودہ ہے ۔ اب وہ نام کی کمیونسٹ پارٹی ہے ،شاید دنیا کی واحد کمیونسٹ پارٹی جس نے حمید مجید موسیٰ کی قیادت میں کمیونزم،مارکسزم کے ساتھ ساتھ سیکولر ازم اور نان سیکٹرین ازم جیسی اصطلاحات کو بھی اپنی نظریاتی اساس قرار دیا ہے۔اسی طرح کمیونسٹ پارٹی کے کردستان شاخ ہے جس نے1993سے کمیونسٹ پارٹی آف عراق ۔کردستان کے نام سے اپنا الگ شناخت بنائی اور اس نے بھی کمیونزم ،مارکسزم لینن ازم کے ساتھ ساتھ کرد نیشنل ازم اور نان سیکٹرین ازم کو اپنی نظریاتی اساس قرار دیا ہے ۔
یوں ان نظریاتی قلا بازیوں کے ذریعے امریکی سنگیوں تلے قائم ہونے والی حکومتوں کے ساتھ رہنے کا جواز تلاش کیا گیا ۔ عراقی کمیونسٹ پارٹی ملکی سطح پر ’’ سول ڈیموکریٹک الائنس ‘‘ کے نام سے نیو لبرل ایجنڈے پر گامزن اتحاد کا حصہ ہے ۔ طرفہ تماشا کہ یہ دونوں پارٹیاں ’’ انٹر نیشنل میٹنگ آف کمیونسٹ اینڈ ورکرز پارٹیز ‘‘ کی بھی ممبر ہیں ۔یعنی ’’ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔‘‘لیکن محنت کار عراقی عوام ایک شاندار انقلابی روایات کے وارث ہیں۔ تاریخ اور سماج کا ارتقا کوئی غیر متبدل اور جامد شے نہیں ہے ۔آنے والے دنوں میں نئے طور ،نئے ڈھنگ اور نئے ہتھیاروں سے طبقاتی مبارزے کا میدان سجے گا اور لبرل سرمایہ داری ، امریکی سامراجیت، اس کے سارے شامل باجوں اور معذرت خواہوں کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply