سونیا کو آخری فیصلہ کردینا چاہیے

حفیظ نعمانی.
راہل گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی کے بارے میں ہر زبان پر ایک ہی تبصرہ ہے کہ وہ اپنی دادی اندرا گاندھی کی تصویر ہیں ۔ اور ہمیں بھی اس کے اندر اور باہر اندرا گاندھی نظر آتی ہیں ۔ لیکن یہ بات ایک معمہ ہے کہ وہ شاید پندرہ برس سے سیاست کے اسٹیج پر آتی ہیں اور صرف اپنی ماں اور بھائی کے حلقوں میں ان کے لئے ووٹ مانگ کر گھر آجاتی ہیں ۔ عام طور پر پورے ملک اور خاص طور پر اُترپردیش کا ہر کانگریسی پرینکا پرینکا کے نعرے لگاتا ہے، ان کے نام کے پوسٹر چھپواتا ہے اور کانگریس کی قیادت کی اہم کرسی انہیں دینے کو کہتا ہے، اور ہر اُمیدوار کو کامیاب کرانے کے لئے ان کو بلاتا ہے لیکن پرینکا رائے بریلی اور امیٹھی کے جانے پہچانے لوگوں سے مل کر واپس دہلی آجاتی ہیں ۔
2017ء کے اُترپردیش کے تاریخ ساز الیکشن میں تقریباً یہ فیصلہ دہلی میں ہوگیا تھا کہ پرینکا پورے الیکشن میں نظر آئیں گی اور ہر سیٹ پر جائیں گی۔ لیکن دہلی کی قیادت وہ سونیا گاندھی ہوں یا راہل گاندھی انہوں نے بہار کے گٹھ بندھن کے طرز پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ یوں ہی نہیں کیا بلکہ پی کے کو ساتھ لے کر آدھے اُترپردیش میں کھاٹ پنچایتیں کرکے اپنی طاقت کو ناپا اور تولا اس کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اکھلیش یادو کے ساتھ سمجھوتہ کرکے الیکشن لڑا جائے گا۔ حالات کو دیکھنے کے بعد ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس مشورہ میں نہ غلام نبی آزاد جو الیکشن کے انچارج تھے اور نہ راج ببر، جن کو صوبہ کا صدر بنایا تھا ان سے بھی مشورہ نہیں کیا۔ بس پی کے کی رائے پر ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو سے سلسلہ ٔ جنبانی شروع کردیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے مذاکرات بھی ہورہے تھے اور غلام نبی آزاد اور راج ببر یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہم ہر سیٹ پر پورے صوبہ میں الیکشن لڑیں گے اور جب معاہدہ ہوگیا تو اس کا اعلان نہ الیکشن انچارج غلام نبی آزاد نے کیا اور نہ راج ببر صدر کانگریس نے۔ بلکہ ایک غیرمعروف آدمی سے یہ اعلان کرا دیا۔
اب تک یہ بات راز ہے کہ اس فیصلہ میں کون شریک تھا اور کون نہیں تھا۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ اُترپردیش کی 105 سیٹوں پر اس طرح الیکشن لڑا گیا۔ جیسے کسی کو ہار جیت سے دلچسپی نہیں ۔ اور الیکشن صرف اکھلیش یادو اور نریندر مودی کے درمیان دو بہ دو ہورہا ہے۔ اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے کہ صدر جمہوریہ کے نام پر سونیا یہ چاہتی تھیں کہ حزب مخالف کا متفقہ اُمیدوار ہو اور الیکشن لڑا جائے۔ جب تک یہ کہا گیا کہ کانگریس دلت کے مقابلہ میں کسان اُمیدوار لائے گی اس وقت تک تو کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن جیسے ہی میرا کمار کا نام سامنے آیا تو حیرت تھی کہ راہل گاندھی کہیں نہیں تھے۔ یہ بات بعد میں سامنے آئی کہ سونیا گاندھی ا ن کی عدم موجودگی میں فیصلہ کرنا چاہ رہی تھیں اور وہ 17 پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئیں ۔ سونیا گاندھی کے سامنے 2019 ء کا الیکشن ہے اکھلیش اور مایاوتی کے سامنے 2022 ء کا الیکشن ہے سونیا گاندھی کی خواہش ہوگی کہ اکھلیش اور مایاوتی کھل کر اور پوری طاقت لگاکر اُترپردیش سے بی جے پی کو اُکھاڑیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کو جان و دل لگاکر یہ کام کرنا بھی چاہئے لیکن سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کو قسم کھاکر یہ بھی وعدہ کرنا پڑے گا کہ پھر 2027 ء میں وہ ان دونوں کے لئے اُترپردیش چھوڑ دیں گی اور ان سے زیادہ طاقت سے 2022 ء کا الیکشن لڑائیں گی۔ کانگریس کے لئے صرف اس کا اپنا کمزور ہونا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر مودی مخالف کا کمزور ہونا اس کا اور کمزور ہونا ہے۔ میرا کمار کے نام پر جن 17 پارٹیوں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر زنجیر بنائی ہے اس کی ایک کڑی بھی نہ ٹوٹے۔ یہ ذمہ داری سونیا کی ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور آج بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس راہل گاندھی کو وزیر اعظم کی لائن سے ہٹالے صرف ملک کی بڑی پارٹی بنی رہے یہ خود اتنی بڑی طاقت ہے جس کا مظاہرہ سونیا گاندھی نے اس وقت دیکھا ہوگا جب جنتا پارٹی بکھری اور چودھری چرن سنگھ کو اندراجی نے صرف اپنے 72 ممبروں کی حمایت دے کر وزیر اعظم بنوایا اور چندر شیکھر کو بھی کانگریس کے طفیل میں ہی وزیر اعظم بننا نصیب ہوا۔
اندراجی کے پاس صرف 72 ووٹ تھے اور وہ ایمرجنسی کی بدترین مجرم ہونے کے باوجود اپنے ان ممبروں سے پورے ملک کو نچا رہی تھیں اور اپنے بدترین دشمنوں کو 72 کی حمایت کے لئے بھکاری بنا رہی تھیں ۔ کانگریس مرکز میں حکومت بنائے نہ بنائے اتنی سیٹیں لے آئے کہ اس کی حمایت کے بغیر حکومت نہ بن سکے اتنی طاقت بھی ملک پر مرضی کی حکومت بنانے کے لئے بہت ہے ۔ بہار میں لالو یادو بہت بڑی طاقت ہیں اور ملک کے ان لیڈروں میں ہیں جو انگلیوں پر گنے جاتے ہیں چارہ گھوٹالے یا کسی اور بدعنوانی کے الزام میں کوئی جیل چلا جائے اور باہر آکر پھر الیکشن لڑائے اور تین پارٹیوں کے اتحاد میں 90 سیٹیں لے آئے اس کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ وہ کھل کر راہل گاندھی کے خلاف مگر کانگریس کے حامی ہیں اور وہ زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ پرینکا کو پارٹی کا صدر بنانا چاہئے۔ اب تک پرینکا کے شوہر نشانے پر تھے۔ لیکن تین برس گذرنے کے بعد اندازہ ہورہا ہے کہ ہریانہ اور راجستھان نے زمین کے سودوں میں کاغذی خانہ پری اتنی مضبوط کرلی ہے کہ مودی کے وکیل بھی بے بس ہوگئے۔
اب پرینکا کو کھل کر سامنے آجانا چاہئے اور جب فرضی انکائونٹر کرنے والا ڈی جی ونجارہ 8 سال جیل میں رہ کر بھی ہیرو ہے اور سہراب الدین کے ساتھی کو مروانے کی سازش کرنے والے امت شاہ کو ضمانت پر نکال کر بی جے پی کا صدر بنایا جاسکتا ہے تو پرینکا گاندھی کے شوہر رابرٹ وڈیرا کو کون ہے جو کانگریس کا لیڈر بننے سے روک سکے؟ ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اور راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ کی طرف کسی نے انگلی نہیں اٹھائی جبکہ وہ سودے غلط تھے تو ذمہ دار لینے والا ہے تو دینے والے بھی ہیں ۔ ان تمام باتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مودی کو روکنا ہے اور کانگریس کو بچانا ہے تو پرینکا کو آگے اور راہل کو پیچھے کرنا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ راہل اب شادی کرلیں ۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply