مخلوط معاشرت اور عورت کا فتنہ

مخلوط معاشرت اور عورت کا فتنہ
حافظ محمد زبیر
دوست کا سوال ہے کہ میں ایک ایسے ماحول میں کام کرتا ہوں جو کہ مخلوط ہے اور میرے ساتھ لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں، میں شادی شدہ ہوں لیکن اس کے باوجود ایک اور لڑکی کی طرف مائل ہو گیا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اس سے شادی نہیں کر سکتا کہ میرے مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے، لیکن اس مسئلے سے جان بھی نہیں چھوٹ رہی، آپ اس بارے کچھ ایسا تجویز کریں کہ میں اس مشکل سے نکل سکوں۔
اس قسم کے جتنے مسائل میرے پاس آتے ہیں تو میرا ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ بھائی، شادی کا کوئی سین ہے؟ اگر سائل کہے کہ شادی کا کوئی سین نہیں ہے تو اب میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس کیفیت سے نکلنے کی فوری کوشش کرو۔ پہلے بھی ایک پوسٹ میں عرض کر چکا ہوں کہ اس مسئلے کا بہترین حل تو شادی ہی ہے، لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر خواہ مخواہ کی گناہ کی لذت ہے کہ جس سے بچنا فرض ہے۔ ہاں، البتہ بچنے کے لیے کچھ تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ انسان کے دل پر فتنے پیش کیے جاتے ہیں، کچھ دل فتنوں کو ایسے جذب کر لیتے ہیں جیسے پانی کو، تو یہ دل کچھ ہی عرصہ میں اوندھے منہ پڑے ہوئے کالے سیاہ لوٹے کی مانند ہو جاتے ہیں کہ جس میں کوئی خیر داخل نہیں ہو سکتی، ان دلوں سے نیکی کی پہچان اور برائی کی معرفت بھی جاتی رہتی ہے کہ ان میں خیر اور شر کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف وہ دل ہیں جو ان فتنوں کو اللہ کے فضل سے رد کر دیتے ہیں تو ان کے دل آہستہ آہستہ سفید چکنے پتھر کی مانند ہو جاتے ہیں کہ جس پر کسی فتنے کا اثر نہیں ہوتا، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے۔
تو عورت کی طرف مائل ہونا تو فطرت اور تقدیر ہے، اگر مرد عورت کی طرف مائل نہیں ہو گا تو کون ہو گا؟ لہٰذا اس میلان سے بچنا اور بھاگنا ممکن نہیں ہے لیکن اس کے نتائج سے بچنا تو یہ اصلاح نفس اور آخرت میں فلاح کے لیے لازم ہے۔ قرآن مجید متقی کی یہ تعریف نہیں کرتا ہے کہ وہ گناہ کی طرف مائل نہیں ہوتا ،بلکہ قرآن مجید نے متقی کی تعریف یہ کی ہے کہ اگر گناہ کی طرف مائل ہو جائے تو فورا ًاحساس بیدار ہو جاتا ہے اور اللہ سے معافی مانگتا ہے: والذین اذا فعلوا فاحشہ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم۔۔۔
تو بس یہ ایک آزمائش ہے کہ جس میں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو مبتلا کرتے ہیں ۔لہٰذا جب بھی ایسی کوئی آزمائش محسوس ہو تو اللہ ہی سے مدد مانگے اور اللہ سے مدد مانگنے کی بہترین صورت اس کی کتاب ہے۔ اللہ کی کتاب میں آپ کو اپنی ہر کیفیت بھی ملے گی اور اس کا علاج بھی، بشرطیکہ آپ کا کتاب کے ساتھ کوئی تعلق قائم ہو جائے۔ پس اس کیفیت میں موسیٰ علیہ السلام کے ان الفاظ کا کثرت سے ورد کرے: ان ھی الا فتنتک، تضل بھا من تشاء وتھدی من تشاء، ترجمہ: اے پروردگار، ہمیں معلوم ہے کہ یہ آپ کی طرف سے آزمائش ہے اور یہ آپ ہی تو ہیں جو اس آزمائش کے ذریعے کسی کو ناکام اور نامراد کر دیتے ہیں اور کسی کو کامیاب اور سرخرو فرما دیتے ہیں۔
یہ ذہن میں رہے کہ عورت اگر ماں، بیٹی، بہن یا بیوی ہے تو فتنہ نہیں ہے لیکن اگر اس سے کوئی نسبت نہیں ہے تو پھر وہ مرد کے لیے ایک فتنہ اور آزمائش ہی ہے ۔لہٰذا عورت کے فتنے سے مراد نامحرم کا فتنہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتیں ہیں۔ یعنی ان نامحرم عورتوں کی وجہ سے ان کے ایمان کو آزمایا جائے گا اور بہت کم اپنا ایمان بچا پائیں گے۔ تو ایک تو اس قسم کی کیفیت میں ایسی احادیث کو مستحضر رکھے۔ دوسرا اگر شادی شدہ ہے تو اپنی بیوی کی اچھی خوبیاں یاد کرے کہ قرآن مجید ہی کا بیان ہے کہ اگر تمہیں اپنی بیوی کی کوئی ایک بات ناپسند ہو تو ممکن ہے کہ اللہ عزوجل نے اس میں اور بہت سی خوبیاں رکھ دی ہوں۔
اگر آپ کے بقول آپ کی بیوی میں کچھ مسائل ہیں کہ جن کی وجہ سے آپ دوسری عورت کی طرف راغب ہو رہے ہیں تو اس میں کچھ خوبیاں بھی ہیں جو دوسری میں نہیں ہیں، آپ ان کو سوچیں، ان کا احساس کریں۔ ہمارا دراصل نظام احساس مر چکا ہے، ہم کسی کی خوبی کو دل سے سراہنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں، اس نظام احساس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، اس سے آپ کو اپنی بیوی سے محبت کا تعلق محسوس ہو گا۔ مجھے اپنی بیوی کی بعض باتیں بھلانے سے بھی نہیں بھولتیں حالانکہ عام سی باتیں ہیں۔ شادی کے شروع میں معاشی حالات ذرا تنگ تھے تو میں نے انہیں بیڈ کا گدا لینے کے لیے کچھ پیسے دیے، اب نیا گدا مہنگا تھا، وہ پرانا آدھی قیمت پر لے آئیں اور دھو دھا کر نیا کر دیا اور مجھے نہیں بتلایا کہ یہ پرانا لائی ہیں۔
مہینے بعد کسی بات پر لڑائی ہو گئی تو انہوں نے اس کا تذکرہ کر دیا کہ اس پرانے سے گدے سے پیشاب کی بدبو آ رہی تھی لیکن میں نے اسے کتنی مشکل سے دھو دھا کر نیا کر دیا اور آپ کو اور بچوں کو احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ یہ پرانا ہے ،تو وہ بات میرے دل میں رہ گئی۔ بھئی، آپ میں سے کتنے شوہر ایسے ہیں کہ جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کس کلاس میں ہیں؟ تو یہ ان کے بچوں پر کون محنت کر رہا ہے؟ کتنے شوہر ایسے ہیں کہ ان کی بیویاں ملازمت کرتی ہیں اور گھر کے مالی اخراجات پورے کرنے میں شوہر سے تعاون کرتی ہیں۔ اور نہ سہی یہ بیویاں بچہ جننے کی تکلیف تو اکیلی ہی سہتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ بیوی میں مسائل ہوتے ہیں، میں انکار نہیں کر رہا لیکن وہ آپ کے لیے بہت قربانی بھی دیتی ہے، بس مردوں میں احساس کی کمی ہے، احساس کرنے والی حس مر چکی ہے، پہلی کا اگر نہیں کیا تو اگلی کا کیسے کر پاؤ گے؟ کہ وہ بھی ایسی ہی ہے جیسی کہ یہ پہلی ہے کہ نوع ایک ہی ہے۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply