میاں بیوی کا تعلق

دوست نے کہا کہ میاں بیوی کے مابین اختلاف یا لڑائی کہاں نہیں ہے لیکن کہیں یہ تعلق زندگی بھر قائم رہتا ہے اور کہیں مہینوں بلکہ دنوں میں ختم ہو جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

میاں بیوی کے تعلق کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ دھکے کا تعلق ہے، یہ دھکے سے چلتا ہے، یہ دھکا شوہر لگا لے یا بیوی۔ آپ کو سوسائٹی میں ایسے خاندان بھی مل جائیں گے کہ شادی کے شروع میں وہ لڑائی ہوئی کہ بیوی کے جہیز کا سامان ٹرک بھر کر واپس میکے پہنچ گیا لیکن آج نہ صرف ان میاں بیوی کی اولاد ہے بلکہ ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی ہیں۔میاں بیوی کے تعلق میں یہ خواہش کرنا کہ اختلاف اور لڑائی نہ ہو، تو یہ بالکل غلط خواہش ہے۔ صحت مند زندگی کے لیے جتنا اختلاف ضروری ہے، اتنی ہی لڑائی بھی لیکن یہ دونوں چیزیں اس وقت آپ کے لیے عذاب بن جاتی ہیں جب آپ کو لڑائی کرنا تو خوب آتی ہے لیکن صلح کا تجربہ نہیں ہے۔ قرآن مجید نے تو ازواج مطہرات تک کو طلاق کی دھمکی دی۔ یہ رشتہ ہی ایسا ہے کہ کاؤنسلنگ کرنے والے بیچارے خود بعض اوقات کاؤنسلنگ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ تو اگر آپ اختلاف اور لڑائی نہیں کرتے تو آپ ذہنی طور پر بیمار ہیں لیکن اگر زندگی کو آپ نے متوازن بنانا ہے تو پھر کچھ چیزیں مزید سیکھیں۔ میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو منانا اور ماننا سیکھیں۔

اگر شوہر کو منانا آتا ہو اور بیوی جلدی ماننے والی نہ ہو تو لڑائی آزمائش میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگر شوہر نے منانا سیکھ لیا ہے تو بیوی کو ماننا سیکھنا پڑے گا یا اس کے برعکس سمجھ لیں۔ میاں بیوی کا آئیڈیل تعلق وہ ہے کہ جس میں محبت موجود ہو، قرآن مجید نے کہا کہ اللہ عزوجل نے اس رشتے میں محبت اور الفت ڈال دی ہے۔ اب یہ محبت ہر جگہ موجود ہوتی ہے لیکن میاں بیوی دونوں اس کے اظہار سے ڈرتے ہیں کہ دوسرا سر چڑھ جائے گا۔میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اگر کچھ عرصہ ایک ساتھ گزار لیں تو ان کے لیے ایک دوسرے سے علیحدہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس مشکل کو وہ محبت کا نام دینا تو کجا اسے محبت سمجھنے سے بھی کتراتے ہیں اور اس کی وجوہات کئی ایک ہیں، کچھ معاشرتی ہیں اور کچھ نفسیاتی ہیں۔ پس جب تک اختلاف اور لڑائی میں دونوں ایک دوسرے کی طرف دل سے کھچاؤ محسوس کرتے رہیں تو یہ محبت کی حالت میں ہیں، چاہے اس کا اظہار نہ بھی کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لڑائی اور اختلاف میں ہلکی سی گرہ لگ جاتی ہے، بس تھوڑی سی توجہ، یا حوصلے، یا صبر، یا انانیت کو ترک کر دینے سے وہ گرہ کھل جاتی ہے اور بڑی سے بڑی لڑائی بھی یوں محسوس ہوتی ہے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ بس اس گرہ کو کھولنا سیکھیں، اور یہ سیکھنا تبھی آئے گا جب انانیت کم ہو جائے اور انانیت کو کم کرنے کا ایک نسخہ یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی کو دیکھے کہ آج گھر کے کام کاج سے کافی تھک گئی ہے تو اس کے پاؤں دبا دے اور بیوی اگر شوہر کو دیکھے کہ باہر سے کافی تھکا ہارا آیا ہے تو اس کے پاؤں دبا دے۔ کچھ ہی عرصے میں انانیت جاتی رہے گی اور منانا، ماننا بھی سیکھ جائیں گے۔ اللہ جلد مان جانے والے پر رحم فرمائے اور منانے والے پر تو دوگنا رحم فرمائے کہ اس کی قربانی زیادہ ہے اور اسی کی وجہ سے گھر کا ادارہ قائم ہے۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply