جل مچھندر

یہ جو کرپشن کرپشن کا شور لئے باہر اِک طوفان آیا کھڑا ہے اسے ہم کیا نام دیں بھلا ؟؟ ۔ اسے طوفان بدتمیزی کہا جائے یا پھِر اِک چڑھاسیلا ب کہ جس کے بعد پانی اُترتا ہے اور زرخیر مِٹی ، پھِر سےاُگلے گی ، وہی ہمار ا کھویا ہوا سونا ۔ لاکھ سوچا مگر کوئی بھی جواب بن نا پایا کانوں سےبس یہ شور ہی ٹکرایا۔ ۔ چور چور پانامہ چور پکڑے گئے لٹکا دو۔ مار دو دیوار سے لگادو۔ نہیں نہیں یہ سازش ہے اندر کی باہر سے اور باہر کی اندر بہت اندر تک اور پھِر اِس کے بعد درد سے چہختے چلاتے ہوئے کُچھ کرِدار۔ یہ سیاسی تماشہ نہ ہوا ایریل کا لائیو چلتا ہوا ایڈ ۔ ہمارے داغ تو اچھے ہوتے ہیں اُن کے بُرے ہوتے ہیں ۔ جے آئی ٹی کا ایک دھلائ چیلنج وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شور شرابہ جب جان کو آگیا تب تنگ آکر سر پکڑے ہم دور کِسی کونے میں جابیٹھے تب چُپکے سے اِک خیال نے آن دستک دی ۔ ابے یار اِتنی اونچی پرواز کاہے کو دھڑام سے زمین پر آ گِرے تو ہڈئی پسلی ایک نہ بچے گی۔ تُم بس اِک اشارہ سمجھو ۔ وہ کرپشن کا رونا ہی کیا رونا میرے دوست کہ جسِ میں اُس بے تاج بادشاہ کا ذِکر ہی کہیں نہ ملے ۔ وہ جس سے شیطانی چالیں سیکھتا رہا ہو اُس کا نام پُکارے بغیر کیسی تحریک اور کیسی صفائی۔ اس خیال کے بعد تع پھر کیا تھا سب سجایا کھیل سمجھ میں آگیا ۔ یہ چلائی گئی چال ہے، پانامہ بچھایا گیا جال ہے کبوتر پکڑنے کا جال اور کُچھ نہیں۔
تب جا کر ہمیں سدا کے سیانوں کی بات سمجھ آنے لگی کہ مُقابلہ کرنا ہے تو اپنے میدان میں کرو اور کھُل کر کرو۔ چیخ وچنگھاڑو, الزام لگاؤ ۔ اپنا کھیل دکھاؤ ،خوابوں کے مال پر لوٹ سیل لگاؤ اور میلہ اپنے نام کرکے دکھاؤ۔ اِسی کو مُقابلہ کہتے ہیں. ہمت اور حوصلہ ہے اور تو میلہ لگاؤ اور بازی جیت کے دکھاؤ ۔ مگریہ بیلو دی بیلٹ مُکے مارنے سے کیا ہوگا۔ یوں تم خود بھی گندے ہو گے ا ور کھیل کا مزا بھی خراب ہو جائے گا۔ مگر لگتا ہے کہ سیاست کے سب سے بڑے نام کے سائزکی ہتھکڑی تیار کرنے کا خبط چند بڑوں اور بڑے کے بڑوں پر سوار ہوا پڑا ہے ۔ ہم کیوں بھولنے لگتےہیں کہ وہ جوڈرانے والی شے جِسے ہم ہتکڑی کہتے ہیں اُس کے خوف کا اثر عام آدمی تک محدود ہوتا ہے ۔ و ہ جِسے ہم ہتھکڑی کے نام سے پکڑتے ہیں وہ سیاست دان کے ہاتھ میں پڑے تو ہتھ ککڑی بھی وہ جو سونے کے انڈے دیتی ہو۔ آپ زرداری کی مثال لے لیجئے جیل سے نِکلا تو سونے میں تول کر صدارتی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کیا آپ نواز شریف کو بھی ہیرے موتیوں میں تلتا دیکھنا چاہتے ہیں ؟
اس آئے خیال نے ہمارے تناؤ سے کھِچے سر کی میٹھے تیل سے کُچھ ایسی مالش کی کہ کوئی الجھن ہی باقی نہ رہی۔ ہم خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہوئے اُٹھنے کو تھے کہ اِس کھُلے میدان میں کہیں دور سے رانا آف جل مچھندر شریف تشریف لاتے ہوئے دکھائی دئیے ۔ آتے صاحب ہی اُنہوں نے ایسی بات کر دی کہ ہم پھِر سے چکرا گئے ۔رانا سے ہماری بچپن کی دوستی ہے ،کیا خوب تھا وہ وقت ۔ ہم اور رانا صاحب کے علاوہ تیسری ہماری چھیڑ خانیا ں ہوا کرتی تھیں ۔ یہاں ہم واضح کرتے چلیں کہ اگر آپ کا جغرافیہ کمزور ہے اور جل مچھندر کے محلِ وقوع کے بارے آپ نے کبھی نہیں سُن سکا تو معذرت کے اس بارے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ خیر تو ہم بات کر رہے تھے جل مچھندر کی جہاں ہم پکنگ مناتے اور مچھلیاں پکڑنے کی نیت سے جایا کرتے تھے۔ وہ وزندگی کا خوبصورت دور تھا۔ گھنٹوں مچھلیوں کا انتطار کرتے مجال ہے جو ایک بھی کبھی نظر آئی ہو۔ ۔ رانا صاحب آف جل مچھندر ہمارے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے ۔ اپنی گول آنکھیں مٹکے بغیر ہمیں گھورتے رہتے تھے۔ مجال ہے کہ جو ایک بھی لفظ وہ مُنہ سے نکالیں۔ پھر وہ ایک لمبی جست لگاتے ، اُچھلتے اور ہم اُن کے پیچھے بھاگ پڑتے۔ بچپن میں کھیلی پکڑن پکڑائی کا یہ سب سے خوبصورت سین ہوا کرتا تھا ۔رانا صاحب ہمارے آگے آگے ہوتے اور ہم اُن کے پیچھے ۔ فکروں سے پاک کمال کی پُرسکون دُنیا تھی وہ۔ ہمارے گاؤں کا ایک چھوٹا سا بلکہ بے نام سا چھپر ۔شائد چاچا بخشو تھے کہ جنہوں نے ہمیں وہاں مچھلیاں ہونے کا یقین دلا رکھا تھا۔مگر ہم ترستے رہے ۔ ا س کاٹے کشٹ سے مگر ہماری رانا صاحب سے چنگی دوستی ہوگئی ۔رانا صاحب نے آتےہی ہمکو جملہ کہا وہ یہ تھا۔ " رُکے ہوئے گندے پانی میں نِکلے ہم تو پھر بھی اپنا پیٹ پھاڑ کر تمہارے کِسی کام آتے ہیں اور اس وقت تُم جِن کے بارے میں سوچ رہے اور جسے تُم چلتا ہوا جمہوری جل سمجھ رہے وہ رُکا ہوا گند ا پانی حقیقت میں تُمہارے ہی پیٹ کاٹ کر بڑے بڑے سیٹھ پال رہا ہے"یہ جملہ جِس کے مُنہ سے نِکلا اُسے بیالوجی کی زبان میں رانا ٹائگرینا کہا جاتا ہے اور پیار کی زبان میں ہم نے اُنہیں رانا آف جل مچھندر کا نام دے رکھا تھا۔ یہ وہی رانا ہیں جوپیٹ اپنا پیٹ پھاڑ کر ہمارے لئے ڈاکٹروں کی ایک کھیپ تیار کرتے ہیں ۔ہمار ا معصوم سا بچپن بھی خوش بختیوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب جب ہم گاؤں جاتے چاچا بخشو ہمیں ایسا گول مول کی کہانی میں پھنساتے کہ بس۔۔۔ چاچا بخشو کی باتوں میں آکر ہی ایک چھوٹے سے پانی کے جوہڑ کو ہم جل مچھی اندر یعنی مچھلیوں کا گھر سمجھ بیٹھے تھے۔وہاں ملے ڈڈو کو بعد میں ہم نے رانا آف جل مچھی اندر کا خطاب دے ڈالا تھا۔
سُنائی گئی اس کہانی کا ہرگِزمقصد یہ نہیں کہ ہم جمہوریت کے" چلنے د و "کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارا یقین ایمان کی حدوں کو چھو کر گُزرتا ہے کہ جمہوریت کا تسلسل اور چلتے رہنا ہی بہتری کی راہیں نکالنے کا سبب بنے گا۔ جمہوریت کے فلسفے کو سمجھتے ہوئئے ایک بات ذہن میں فِٹ کر کے بٹھا لینی چاہئے کہ انسانی دماغ کو جیٹ جہاز کا انجن لگانے کا کوئی فارمولہ آج تک نہیں بن پایا ہے اسی طرح جمہوریت کو فیراری کا انجن لگائے فی سیکنڈ کے حساب سے آر پی ایم نہیں بڑھائی نہیں جاسکتی ۔ ۔ جمہوریت کی مثال بیل گاڑی کی طرح ہے ۔ جسے ہم اپنی زبان میں گڈا کہتے ہیں۔ اس گڈے سے جُڑی گاڑی میں ہم عوام بیٹھے ہیں اور یہ گاڑی آئین کے پہیوں پر نا ہموار رستوں سے گزرتی جاتی ہے ۔ اس گاڑی سے بندھے بیل کو ہم سیاسی پارٹیوں کا نام دے لیتے ہیں ۔جِنہیں قانون کی نتھ ڈالی گئی ہے ۔اور یوں یہ سفر خراماں خرامان آگے کی سِمت جاری رہتا ہے ۔اس محفوظ سفر کی دی گئی مثال کو ہم جمہوریت کے بہترین نظام کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ مگر آخری بات جو کہنی رہ گئی ۔ ہر ممکن طور پر محفوظ ہونے کے باوجود بھی بیل کےلئے ایک عدد ڈنڈے کی ضرورت بھی پڑتی ہے بحرحال ونس اِن آ بلیو مون اس کو استعمال بھی کرنا پڑتا ہے ۔آج کی تاریخ میں ہمارے منہ زور ہوئے جمہوری بیل کے لئے پانامہ کیس بھی اِس ڈنڈے کا استعمال ہی تو ہے ۔

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply