کیا ہمیں خانہ جنگی میں جھونکنے کی سازش کی جا رہی ہے؟

ڈاکٹر عابد الرحمن

تتھا گتا رائے تیریپورا کے گورنر ہیں ۔اصلاًسویم سیوک ہیں بلکہ گورنر سے زیادہ سویم سیوک ہیں ۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر اپنے تعارف میں گورنر تریپورا سے پہلے سویم سیوک لکھا ہے ۔مودی سرکار آ نے کے بعد سے وہ ہندو مسلم فرقہ ورانہ بیان بازیوں کے لئے خبروں میں ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ٹویٹ کیا کہ ’سیاما پرساد مکرجی نے 10/01/1946کو اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ ’ہندو مسلم پرابلم خانہ جنگی کے بغیر حل نہیں ہو سکتا ۔‘ان کے اس بیان کے بعد کافی لوگوں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اپنے اندازاور الفاظ کے ساتھ انہیں جواب دیا جس کے بعد انہوں نے صفائی دیتے ہوئے بھی بڑی ڈھٹائی سے ان لوگوں کو بے وقوف لکھا کہ (میرے مذکورہ ٹویٹ کے بعد) کچھ درجن بے وقوفوں نے مجھے ٹرول کرنا شروع کردیا کہ میں خانہ جنگی کی وکالت کر رہا ہوں ،کوئی بھی یہ غور کر نے کے لئے نہیں رکا کہ میں نے حوالہ دیا ہے ،وکالت نہیں کی۔‘سیاما پرساد مکر جی جن سنگھ کے بانی ہیں ،ان کی مذکورہ بات آ زادی سے پہلے کی ہے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ رائے صاحب خانہ جنگی کی وکالت نہیں کر رہے ہیں تو بھی یہ سوال اہم ہے کہ اب آزادی کے ستر سال بعد انہیں یہ بات کیوں سوجھی،خاص طور سے ملک کے موجودہ حالات میں جوسماجی ہم آہنگی کے اعتبار سے بالکل نارمل نہیں ہیں ؟

انہوں نے اپنے ٹویٹس میں یہ بھی کہا کہ مکر جی کی بات صحیح ثابت ہوئی کیونکہ اس کے سات مہینے بعد ہی جناح نے خانہ جنگی شروع کردی تھی اور جیت کر اپنا پاکستان حاصل کر لیا تھا ۔تو اب ان کا مطلب کیا ہے ؟دراصل ملک کی تقسیم کا ٹھیکرہ مسلمانوں کے سر پھوڑ کر تقسیم کی مخالفت کر کے پاکستان جانے سے انکار کر نے والے اور انڈیا کو اپنی پسند خواہش اور محبت سے اپنا مادر وطن چننے والے مسلمانوں کے گلے کا پھندہ بنا دیا گیا اورمسلمانوں کواذیت پہنچانے، ہراساں کرنے اور تاریخ سے نا بلدہماری نئی نسل کو مجرم بنانے نیز ملک کے دوسرے طبقات کے سامنے ہمیں ملک کی تقسیم کا ذمہ داربالفاظ دیگر ملک کا دشمن بنا کر پیش کر نے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اکسانے اور سیاسی و سماجی طور پر متحرک کر نے کے لئے بار بار اس پھندے کو تنگ کرنا مسلم دشمنوں کا سیاسی اسٹنٹ بن گیا ہے جس کے ذریعہ وہ موقع بہ موقع سیاسی و سماجی فوائد بٹورتے رہتے ہیں ۔سو یہاں بھی، لگتا ہے کہ گورنر محترم کا مذکورہ ٹویٹ بھی کسی مطلب سے خالی نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ گورنر صاحب نے اپنی مذکورہ بات ملک کے موجودہ بی جے پی موافق اورمسلم مخالف حالات کے تناظر خاص طور سے گائے کے نام پرمسلمانوں کے خلاف ہورہی اکثریت کی دہشت گردی کے تناظر میں کہی ۔اور یہ صرف رائے صاحب کی سوچ ہے یعنی یہ سنگھ پریوار اور خاص طور سے بر سر اقتدار بی جے پی کی سوچ نہیں ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ملک کے جو حالات آج ہیں وہ حادثاتی طور پر ایسے نہیں ہو گئے انہیں اس سانچے میں ڈھالا گیا ہے اور شایدان حالات کے انجام کے طور پر خانہ جنگی کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔

بی جے پی کے اقتدار میں آ نے کے بعد ان حالات میں غیر معمولی خرابی پیدا ہوئی جس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اضافہ کیوں نہ ہو کہ اس خرابی کو دور کرنے اور اسے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش حکومتی سطح سے نہیں کی گئی ،مودی جی ان معاملات پر پہلے تو لمبے عرصہ تک خاموش رہے اور پھر بولے بھی تو صرف بولے،کیا کچھ نہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ خرابیء حالات لفاظی اور اشتعال انگیز بیانات سے بڑھ کر عملی طور پر فساد اور ٹارگیٹڈ کلنگ میں تبدیل ہو گئی ۔اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا منشاء بھی یہی تھا۔ گائے کے نام پر دادری سے شروع ہونے والی دہشت گردی اب تقریباً پورے ملک میں پھیل گئی ہے صرف اس لئے کہ دادری معاملے میں حکومت نے اتنی سخت کارروائی نہیں کی کہ وہ دوسروں کے لئے تازیانہء عبرت بن سکے۔الٹ اس وقت بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں ،قاتلوں سے زیادہ مقتول کو ہی خود اس کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ۔مرحوم اخلاق کے قتل کا ایک ملزم جب جیل میں بیماری کی وجہ سے مرا تو اسے ملک پر جان نچھاور کر نے والے شہید کی طرح ترنگے میں کفنا کر رکھا گیا اور مرکزی حکومت کے ایک محترم وزیر خود اسے شردھانجلی دینے پہنچے،اس کے لواحقین کو معاوضہ دیا گیا ۔

گؤ رکشا کے نام ہونے والی دہشت گردی کی شروعات میں ہی حکومت اور ذمہ داراداروں اور افراد کی ان سب باتوں کی وجہ سے اس طرح کی وارداتوں میں اضافہ ہونا تھا سو ہوا،بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب اس طرح کی وارداتوں کو بڑھاوا دینے کے لئے ہی کیا گیا ۔دادری معاملہ میں ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ گاؤں کے ایک ہوم گارڈ کا اخلاق کے ساتھ کچھ تنازعہ تھا اور اس نے اپنی ذاتی چپقلش نکالنے کے لئے ہی سارا کھڑاک رچایا تھالیکن اس معاملہ کی کیا تفتیش ہوئی اور اس کا نتیجہ کیا نکلا اس کی کوئی خبر نہیں ۔لیکن اب گؤ رکشا کے بہانے دہشت گردی کے لئے گائے کے ذبیحہ کی ،یا ایسی افواہ کی یا کسی کے پاس گوشت کی موجودگی کی ضرورت نہیں رہی اب اس کے لئے صرف مسلمان ہونا ہی کافی ہو گیا ہے ۔ حال ہی میں بلبھ گڑھ میں ٹرین میں حافظ جنیدشہید کے ساتھ سیٹ کی ’تو تو میں میں ،‘کٹلے‘اور’گائے کھانے والے‘ کے نعرے کے تحت گؤ رکشا اورقتل تک پہنچا دی گئی ۔کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے معاملات کا نہ رکنا حکومت کی نا اہلی ہے ۔لیکن ہمیں تو لگتا ہے کہ ان معاملات کا نہ رکنا دراصل حکومت کی نااہلی نہیں بلکہ پختہ اور کامیاب منصوبہ بندی کی اہلیت کا ثبوت ہے،اور خاص طور سے بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ہی ان معاملات کا ہونا ہمارے اس خدشہ کی تائید کرتا ہے ۔

اسی طرح مودی جی نے اب تک دو بار گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کی مذمت کی لیکن صاحب نے بھی ان کے خلاف کسی اسپیشل کارروائی کا کوئی حکم اپنے وزراء اعلیٰ کو نہیں دیابلکہ اپنے دوسرے بیان میں گائے کے نام پر قتل کو’ نا قابل برداشت‘ قراردیتے ہوئے گائے کی عظمت جتانے والا ایک واقعہ سنا کر گویا اس کی حفاظت کو بھی ضروری قرار دیا۔اور شاید اسی لئے جس دن وہ مذکورہ بیان دے رہے تھے اسی دن جھارکھنڈ میں ایک مسلم شخص کو گائے کے نام پر بھیڑ نے مار مار کر ہلاک کردیا۔ اس سب سے اور اس تناظر میں تریپورہ کے محترم گورنر کے مذکورہ ٹویٹس سے ایسا لگتا ہے کہ ہندوؤں کو ذہنی اور جسمانی طور سے مسلمانوں کے خلاف خانہ جنگی کے لئے تیار کیا جارہا ہے ساتھ ہی ساتھ ہم مسلمانوں کو ستا ستا کر مشتعل کر نے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ہم ذرا مشتعل ہوں ،قانون توڑیں یا اس دہشت گردی کے خلاف کوئی خاص یا اجتماعی دفاعی اقدام کریں اور ان کا کام آسان ہو جائے، وہ ملک گیر پیمانے پر خانہ جنگی شروع کردیں اور اس کا الزام بھی ہمارے ہی سر منڈھ دیں اورہندوتوا وادیوں کی بھیڑ کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کر نے والے اور سلامتی اداروں کو بھی ہمارے خلاف میدان میں اتاردیں ۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس صورت حال کو واقع ہو نے سے روکنے کی حتی المقدور کوشش کریں ،اپنی انااورذاتی مفادات کو چھوڑ کر متحد ہوں ،سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی تیر بہ حدف لائحہء عمل ترتیب دیں اور سب من حیث القوم بنیان مرصوص بن کر اس پر عمل پیرا ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے اقدام ایسے نہ ہوں کہ وہ ہندو ؤں کو ہمارے خلاف متحد اور متحرک کردیں اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے دشمنوں اور ملک کی گوناگوں تہذیب کے دشمنوں کے حق میں ہوگا ۔ اسی طرح ہمارے اقدام ایسے بھی نہ ہوں کہ اس سے ہم ہی آسان نشانہ بن جائیں ۔ اس ضمن میں زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر بلکہ اسے آگے کر کے چلیں ،حافظ جنید کے قتل نے سول سوسائٹی کو جھنجوڑا ہے اور وہ جو Not in my name کے نعرے کے ساتھ احتجاج کے لئے نکلی ہے اس میں بھرپور شرکت کی اور اس کے ذریعہ اپنا حق حاصل کر نے اور نفرت کے پرچارکوں سے خود کو اور ملک کو بچانے کی سعی کر نی چاہیے کہ اسی احتجاج نے اور انٹرنیشنل میڈیا میں اس کے کوریج نے مودی جی کی زبان کھلوائی ہے ہم نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر اس احتجاج کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کر نی چاہیے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply