دیکھیے زخمی اونٹ کل کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

قطری شہزادے کے بیان کے علاوہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ تقریباً مکمل کر چکی ہے، اور کل اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی۔ جے آئی ٹی کا مطالبہ تھا کہ قطری شہزادہ یا پاکستان میں آ کر اسکے سامنے پیش ہو یا پھر قطر میں موجود پاکستان ہائی کمیشن میں اسکے ممبران کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروائے۔ تاہم اپنے تازہ بیان میں ریاستِ پاکستان کے سرکاری پرمٹ پر تلور کا شکار کھیلنے والے قطری شہزادے نے دستور پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی حدود ماننے سے انکار کیا ہے (عجب بیچارگی ہے ایٹمی ریاست اور اسکی اعلی عدلیہ کی بھی، جو عدالتی فیصلہ خلاف آنے کے باوجود قطری شہزادوں کے پاکستان میں تلور کے شکار سے روک نہیں پاتی)۔ شاید جے آئی ٹی کو بھی قطری شہزادے کے محل میں پیش ہونے پر اسی نوعیت کے تحفظات تھے کہ اگر اسکے ممبران کو وہاں خریدنے کی کوشش کی گئی یا انکار کی صورت گرفتار کر لیا گیا، تو دو ریاستوں کے بیچ ایک الگ سفارتی بحران پیدا ہو جائے گا۔ نواز لیگ کے وزرا نے قطری شہزادے کے بیان کے بغیر جے آئی ٹی رپورٹ کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم ’’نواز لیگ شریف خاندان کے دفاع میں جو کچھ کر سکتی تھی اسنے کر لیا، اب اس سے آگے کاروبار کا نقصان ہوگا‘‘۔ یہ جملہ تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ تاجر برادری سے عوامی مزاحمت کی اُمید کوئی احمق ہی رکھ سکتا ہے۔ اور اگر کوئی بالی وڈ فلم گجنی کا عامر خان نہیں ہے تو اسے میاں صاحبان کی ملک بدری اور اس پر عوامی ردعمل اچھی طرح یاد ہوگا۔ دراصل میاں صاحب اور انکی جماعت وہ حریت پسند ہیں جو محض اقتدار میں ہی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ البتہ وزرا اور ظافر صحافیوں کی ایک لمبی قطار یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جیسے انکے خلاف فیصلہ آنے پر قیامت آ جائے گی، آسمان سر پر گر جائے گا یا پھر پاکستان کے گلی کوچوں میں احتجاجی تحریکیں شروع ہو جائیں گی۔ یہ الگ بات کہ کل جب دھرنے کے وقت تحریک انصاف کے علاوہ متحدہ اپوزیشن بھی میاں صاحب کیساتھ کھڑی تھی، اگر اسوقت بھی کوئی غیر آئینی قدم اٹھا کر فوج مداخلت کر کے حکومت گھر بھیج دیتی تو شاید آسمان سر پر نہ گرتا اور دو چار مہینے کے اندر ہی نئے انتخابات کا مطالبہ سامنے آ جاتا۔ مگر آج تو خورشید شاہ صاحب نے بھی میاں صاحب سے سازشیوں کا نام پوچھ لیا ہے۔ اور سپریم کورٹ کی قائم کردی جے آئی ٹی پر میاں صاحب سازشی کسے قرار دیں گے؟ شاہ جی نے بھی دوسرے لفظوں میں وہ بات کہہ دی کہ ’’ساڈے ولوں نہ ہی سمجھو‘‘۔ مطلب پیپلز پارٹی بھی ساتھ نہیں اور مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور اسفندیار صاحب کا بھی ابھی تک انکی حمایت میں کوئی خاص بیان سامنے نہیں آیا۔ اگر کسی کو دھرنوں کے دوران اسمبلی میں بیٹھی عمران مخالف جماعتوں کی قومی اسمبلی میں جارحانہ تقریں یاد ہوں تو وہ حکومت کی کل اور آج کی سپورٹ اور پوزیشن کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ نواز لیگ اسوقت اپنے چند وزرا، پی ٹی وی، جیو اور نوازے ہوئے صحافیوں کے سوا تقریباً تنہا کھڑی ہے۔ اس صورتحال پر بیرون دریا کچھ نہیں کا حوالہ بھی نہیں دیا جا سکتا، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہاں موج ہے بالٹی میں اور بیرون بالٹی کچھ نہیں‘‘۔
بلا شبہ قطری شہزادے کے بیان کے بغیر طرفین کیجانب سے کچھ سوال تشنہ رہ گئے یا انکے تشنہ رہنے کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ ہمارے علم میں نہیں کہ جے آئی ٹی نے شہزادے کے وڈیو بیان پر زور کیوں نہیں دیا؟ تاہم سپریم کورٹ میں بنیادی سوال منی ٹریل کا ہی تھا، جو بہر حال بیان کے بغیر بھی بھیجی جا سکتی تھی اور اگر اس کے بعد کوئی سوال اٹھتا تو اس پر جرح کے لیے شہزادے کے بیان کا ضروری ہونا ہم عام فہموں کو بھی سمجھ آتا۔ قانون کا طالب علم نہیں ہوں لیکن پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب منی ٹریل ہی نہیں تو شہزادے نے بے گناہی کی شہادت کیا کسی قتل کے چشم دید گواہ کے طور پر دینی تھی؟ یہاں تو پہلے دن سے طرفین سے دستاویزی ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ اگر میں خاموشی سے پیسہ باہر لے جاوں اور وہاں کسی کو برسوں بعد حصہ دار بنا کر اس سے یہ بیان دلوا دو کہ ہاں اس نے میرے باپ یا بھائی سے کاروباری شراکت کی تھی اور اسکے بدلے انھوں نے اسے لندن فلیٹس دئیے تھے تو کیا اسکا اتنا کہہ دینا قابل قبول اور کافی سمجھا جائے گا؟ میرا خیال ہے عدالت عالیہ کسی عام شہری کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس سے آدھا وقت بھی نہیں دے گی جو محترم وزیر اعظم کے خاندان کو دیا گیا۔ جب طے ہو چکا تھا کہ بار ثبوت میاں صاحبان پر ہے اب انھیں ہی اپنی بے گناہی کے ثبوت جے آئی ٹی کے سامنے رکھنے ہیں تو پھر قطری شہزادے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر جے آئی ٹی کا اسکے دربار میں پیش ہونا کیونکر لازم سمجھا جائے؟
انٹرنیشنل سکینڈل پر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگایا جا رہا ہے، درست کہتے ہیں کہ ملک میں جب بھی کوئی سازش ہوئی اعلی عدالتیں فوجی آمروں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں۔ مگر اسی عدلیہ کو فون کر کے سیاسی مخالفین کو زیادہ سے زیادہ سزائیں دلوانے کے مطالبے کون کرتا رہا؟ تصویر کے معاملے میں بندوق آئی ایس آئی افسران کے کندھے پر رکھ کر چلانے کی کوشش کی گئی۔ جے آئی ٹی کی ساخت پر سوال اٹھائے گئے کہ اس منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں انکی کیا مہارت تھی، یہ جے آئی ٹی ٹیم کا حصہ کیوں بنے؟ جبکہ متحدہ اپوزیشن اور خاص طور پر تحریک انصاف کا یہ پرانہ مطالبہ تھا کہ فوج اور اسکے ماتحت اداروں کے افراد کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی جے آئی ٹی ٹیم سٹنگ وزیراعظم اور اسکے خاندان کے خلاف دباو کی بنیاد پر آزادانہ اور صاف شفاف تحقیات نہیں کر پائے گی۔ طرفین کے اعتراضات میں وزن تھا۔ ایک طرف ہمارا ماضی تھا کہ جس میں یقیناً جمہوری حکومتوں کیخلاف سازشوں میں آئی ایس آئی کا ہاتھ رہا، جو اصغر خان کیس کی صورت سب کے سامنے ہے اور جسکے نامزد ملزمان میں میاں صاحب خود بھی نامزد مجرم تھے (بلکہ ہیں) اور دوسری طرف میاں صاحبان کا ہی بیورو کریسی کو دبانے، اسکے خلاف انتقامی کاروائیاں کرنے، اسے خریدنے اور عدالتوں پر حملوں سے لیکر ججوں تک کو خریدنے کا ٹریک ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ اب ہزار سازشیں کرنے اور ہزار کا حصہ رہنے کے بعد انکے منہ سے سازش کا لفظ بھی چور بھی کہے چور چور کے مصداق ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت حال ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے چئیرمین ایس ای سی پی کو میاں صاحبان کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا ذمہ دار قرار دے کر اسکے خلاف قانونی کاروائی کی درخواست کر دی ہے۔ اور ایجنسیوں میں ایف آئی اے پر سب سے زیادہ بھروسہ بھی غالباً حکومت کو ہی تھا۔ یعنی جن پتوں پر کیا تھا تکیہ وہی پتے ہوا دینے لگے۔ ٹیمپرنگ جے آئی ٹی ممبران نے پکڑی اور تابوت میں آخری کیل ایف آئی اے کی ٹیم نے ٹھونک دیا۔ اگر چئیر مین ایس ای سی پی کے کہنے پر ملازمین نے ٹیمپرنگ کی تو اس نے بھی تو کسی کے کہنے پر ہی یہ حکم دیا ہوگا؟ بہر حال کل رپورٹ پیش ہوگی اور غالباً اس پر جرح کے بعد ہی عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ اونٹ کی ایک سائڈ تو شیدی زخمی ہی نظر آ رہی ہے اب دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
عمار کاظمی

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply