جشنِ آزادی اور مولانا۔۔۔۔ آصف محمود

ارشاد ہوا ہم 14اگست کو جشن آزادی نہیں منائیں گے ، جان کی امان پائوں تو عرض کروں اس سے پہلے آپ نے کب جشن آزادی منایا؟ جس ’’ گناہ‘‘ میں شریک نہ ہونے پر آپ کے بزرگ نازاں تھے اس پر آپ جشن منا بھی کیسے سکتے ہیں؟ وصل لیلائے اقتدار کی آس میں تڑپتے قائدین انقلاب کاتو ایک ہجوم ہے، اس کے ہجر میں یوں برہم بزرگ پہلی بار دیکھ رہے ہیں ۔ جب تک کشمیر کمیٹی کی سربراہی تھی ، وفاق میں وزارتیں تھیں ، ریاستی وسائل تھے ، سرکاری رہائش تھی، گاڑی تھی ، پٹرول تھا ، نوکر چاکر اور ملازم تھے تب تک سب ٹھیک تھا ، جیسے ہی مراعات کا یہ بحرلکاہل خشک ہوا صاحب نے ریاست ہی کو نشانے پر لے لیا ۔ تہتر کے آئین کے تناظر میں کل تک جو اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا اب وہ نہ اسلامی رہا نہ جمہوریہ نہ ہی آزاد۔ خلق خدا نے جب دستر خوان ہی لپیٹ دیا تو کاہے کا جشن؟ حیرت ہے مولانا نے کس رسان سے فرما دیا کہ چودہ اگست کو جشن آزادی نہیں منائیں گے؟ گویا اس سے پہلے تو چودہ اگست کا سب سے بڑا جشن تو ڈی آئی خان سے مولانا کے مدرسے میں ہوتا ہو جہاں مولانا فضل الرحمن رات گئے تک ملک کی سلامتی کی دعائیں کراتے ہوں اور تہجد کے نوافل کے بعد بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ اور ان کے رفقائے کار کی بلندی درجات کی دعائیں کی جاتی ہوں۔کیا مولانا بتا سکتے ہیں اپنی پوری زندگی میں انہوں نے کب چودہ اگست کا جشن اہتمام سے منایا تھا؟کتنی مرتبہ چشم فلک کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے مولانا کے سینے پر قومی پرچم لگا دیکھا ہو؟ حب الوطنی پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی کسی کو کسی کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کا حق ہے۔لیکن جب کوئی جشن آزادی کی نفی کر کے قوم کے شعور کی توہین کر تا ہے تو پھر سوالات اٹھتے ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ مولانا کی جمعیت علمائے اسلام نے آج تک کتنی بار چودہ اگست کو جشن آزادی منایا؟اس کے مرکزی دفتر میں آج تک کتنی بار جشن آزادی کی تقاریب ہوئیں؟ اہل علم نے کتنی بار کسی دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا؟ کتنی بار یہ ہوا کہ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی اور صوبائی دفاتر میں چودہ اگست کو قومی پرچم لہرایا گیا اور پاکستان کی سربلندی اور بانی پاکستان کے لیے دعائیں کی گئیں؟ کیا کبھی مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں ڈی آئی خان میں یا مولانا شیرانی کی صدارت میں کوئٹہ میں ایسی کوئی تقریب ہوئی ہو؟ پاکستان میں کتنے مدارس ہیں جو جمعیت علمائے اسلام سے کسی نہ کسی صورت میں وابستہ ہیں۔ان میں سے کتنے مدارس ایسے ہیں جہاں چودہ اگست کو کوئی جشن منایا جاتا ہو؟ کیا مولانا فضل الرحمن ہماری رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ ان میں سے کتنے مدارس چودہ اگست کو قومی پرچم لہرانے کا تکلف کرتے ہیں؟ کیا کوئی ایک مدرسہ بھی ایسا ہے جہاں دن ، مہینے یا ہفتے میں نہیں سال بھر میں کبھی قومی ترانہ پڑھا جاتا ہو؟ کتنے مدرسے ہیں جن کے درودیوار نے کبھی ’’ پاک سر زمین شاد باد ‘‘ اور ’’ سایہ خدائے ذو الجلال‘‘ کی آواز سنی ہو؟ جے یو آئی جمعیت علمائے ہند کی نسبت سے صد سالہ تقریبات تو کر لیتی ہے کیا کبھی اس نے پاکستان کے حوالے سے بھی کوئی تقاریب کیں؟ پاکستان کے پچاس سال پورے ہونے ملک بھر میں جشن کا سا سماں رہا کیا اس موقع پر جے یو آئی نے کوئی ایک تقریب بھی منعقد کی؟ آپ کا ارشاد بجا کہ آپ چودہ اگست کو جشن نہیں منائیں گے لیکن اتنا تو بتا دیجیے آپ پہلے کب یہ جشن مناتے تھے؟ جمعیت علمائے ہند کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں بھارت کا ترنگا بھی لہرایا جاتا ہے ۔ بہت سے دیگر مدارس میں بھی۔ دارالعلوم کے ترجمان مولانا اشرف عثمانی کا کہنا ہے کہ بھارت بھر میں ہمارے مدارس پر ترنگا لہراتا ہے۔ بھارت کے قومی پرچم کے بیجز بھی لگائے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ طلباء تک سے کہا گیا وہ اپنے گھروں پر بھی ترنگا لہرائیں۔عثمانی صاحب فرماتے ہیں بھارت ہماری دھرتی ہے سب مسلمان گھروں پر ترنگا لہرائیں۔بھارت کے شہری کے طور پر ان کا رویہ بالکل درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا ہی رویہ ہمارے ہاں کیوں نہ پنپ سکا؟ ہمارے ہاں مدارس پر سبز ہلالی پرچم کیوں نہیں لہراتا؟جے یو آئی کے کسی رہنما نے کبھی قائد اعظم ؒ کے بارے میں کلمہ خیر کہا ہو تو بتائیے؟ بغض کی حکایات تو بہت سی ہیں اور عینی شاہدین بھی درجنوں۔اس کے باوجود پاکستانی سماج نے انہیں کھلے دل سے قبول کیا۔ اہم ترین عہدوں پر وہ فائز رہے۔ کیا اب یہ مناسب طرز عمل ہے کہ ایک دفعہ اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا اور سرکاری رہائش خالی کرنا پڑی تو آپ اگست کے مہینے میں قوم کی شعوری توہین کریں کہ ہم جشن آزادی نہیں منائیں گے؟ سیاست میں اختلاف بھی ہوتے ہیں اور یہ اختلاف گاہے تلخ ترین سطح پر بھی پہنچ جاتے ہیں ۔لیکن دھرتی تو ماں ہوتی ہے۔ایک نشست ہارنے کا ایسا بھی کیا صدمہ کہ بندہ اس حد تک اتر آئے کہ ریاست کی کنپٹی پر پستول رکھ کر سیاست کرنے لگے۔پاکستان کے علاوہ ایسا تماشا کہیں اور نہیں لگتا۔ یہ آزادی صرف پاکستان میں ہے کہ اسے کھائو، پیو ، نچوڑو اور پھراسے گالی بھی دو۔ یہاں جس کا مزاج برہم ہوتا ہے وہ پاکستان کو سینگوں پر لے لیتا ہے۔ بلیک میلنگ کی سیاست کا کلچر عام ہو چکا۔ ایک چلاتا ہے ؛ کالاباغ ڈیم بنایا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔دوسرا چیختا ہے : مجھے کیوں نکالا ایسے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔تیسرا دہائی دیتا ہے میں کیسے ہار گیا اس طرح تو پھر تصادم ہو گا۔پیغام واضح ہے : ہمارے مفاد ، ہمارے مزاج اور تجوری کا خیال رکھا گیا تو پاکستان زندہ باد ورنہ ہم جشن آزادی نہیں منائیں گے۔ باہمی اختلافات سے قطع نظر قوم کے کچھ اجتماعی دن ہوتے ہیں۔ ان کاا حترام کیا جاتا ہے۔ چودہ اگست ہماری اجتماعی خوشیوں کا دن ہے۔ مولانا فضل الرحمن کسی طفل مکتب کا نہیں سیاست کے گرگ باراں دیدہ کا نام ہے۔انہوں نے جو بات کہی ہے اس کے آزار سے وہ خوب آگاہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ ایک طویل عرصہ وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ۔ خوب مراعات انجوائے کیں۔اس وقت اسی کشمیر میں آ گ لگی ہے اور لاشے گر رہے ہیں۔یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ اس موقع پر کشمیر کے حوالے سے ایک رسمی سا بیان بھی جاری نہیں فرما سکے ۔ ارشاد فرمایا بھی تو کیا : جشن آزادی نہیں منائیں گے۔ سنتے تھے اقتدار آدمی کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ آج معلوم ہوا اقتدار سے محرومی بھی یہی کام کر گزرتی ہے۔ دیکھیے اب داغ دہلوی یاد آ گئے: ہو گئی بارِ گراں بندہ نوازی تیری تو نہ کرتا اگر احسان تو احساں ہوتا

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply