ملوکیّت یا جمہوریت

کہا جاتاہے کہ ایک کسان کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ قریب ہی کھڑا ایک آدمی اسے دیکھ رہا تھا جس نے ہل چلانے والے کی توجہ دلائی کہ فلاں جگہ رہ گئی ہے جہاں تم نے ہل نہیں چلایا۔ اپنی کوتاہی ماننے اور اصلاح کرنے کی بجائے کسان نے اسے جواب دیا کہ تو نے کونسا ماں کی موت پر کھانا پکایا تھا ‘آدمی اس جواب پر ششدر رہ گیا اور پوچھا یہ کیسا جواب ہے ؟کسان بولا کہ تو نے میری غلطی کی نشاندہی کی، لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ تمہیں بھی تمہاری غلطی اور غفلت یاد دلاؤں۔
انسان خطاؤں کا پتلا ہے جس سے ہزار کوشش کے باوجود کوتاہی ‘ نافرمانی اور گناہ سر زد ہو جاتے ہیں اور انبیاء ؑ کے علاوہ کوئی بھی انسان معصوم ہو نے کا دعوٰی نہیں کر سکتا۔ مٹی کا یہ کمزور سا پتلا ،بیک وقت اپنے دو دشمنوں اندرونی و بیرونی سے نبرد آزما ہو تا ہے جو اسے اپنی طرف کھینچنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں‘ ہر وقت خواہشات و لذائذکی طرف جھکنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ ایک مومن کی پوری زندگی ان دونوں سے جہاد کرتے ہوئے گزرتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں فرشتے ہر قسم کی خواہشات سے مبرّاء ہوتے ہیں اگر فرشتوں کو بھی ان دو دشمنوں سے نبردآزما ہو نا پڑے تو شاید کئی ہاروت و ماروت کے رستے پر چل پڑیں۔ اسی لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے‘
؂ فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
بنانے والے سے زیادہ اس خاکی کی فطرت و طبیعت سے کون واقف ہو سکتا ہے، لہٰذا اس نے اس کے مرتے دم تک کے لیے سچی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور بار بار تلقین کرتا ہے کہ حزب الشیطان کو چھوڑ کر حزب اللہ کی طرف واپس مڑ آ‘
؂ بازآ ‘ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
این درگہ ما درگہ نو میدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
بنی نوع انسان سے اس جہان فانی میں معصیت و خطا کا واقع ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں‘ ہم دن میں کئی بار کو تاہیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بہادر و بہترین انسان وہ ہے جو غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کا ممنون ہو اور ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل میں ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ مخلص دوست وہی ہے جو آپ کو ،آپ کے عیبوں پر مطلع کرے نہ کہ وہ جو خوشامدی و مداح سراح ہو۔ دوسری صورت میں انسان ضد و انا کو اپناتے ہوئے اپنی غلطی پر اڑ جاتا ہے اور نشاندہی کرنے والے کی خامیاں تلاش کرنے کی کھوج میں لگ جاتا ہے‘ بجائے کہ اپنی خامیوں پر نادم ہو کر ان کی اصلاح کی کوشش کرے الٹا بتانے والے یا کسی اور شریک کار کے عیب بیان کر کے اپنی خطا کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سارے رشوت لیتے ہیں میں نے لے لی تو کیا گناہ کرلیا‘ سارے سود کھاتے ہیں میں نے لے کر کیا برا کر لیا‘ زیادہ تر سیاستدان و جرنیل ٹیکس نہیں دیتے میں بھی ٹیکس چوری کروں گا‘ فلاں آفس دیر سے آتا اور جلدی جاتا ہے میں اگر ایسا کر لوں تو کیا برا ہے وغیرہ وغیرہ۔مثل مشہور ہے کہ عذر گناہ بد تر از گناہ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ غلطیاں اس وقت قابلِ معافی ہیں جب کسی میں ان کو قبول کرنے کی جراٗت ہو۔
روز مرہ کے ٹی وی ٹاک شوز کو دیکھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے کہ اپنی کوتاہی کو قبول کر کے اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں کوویسا ثابت کرنے کی کوشش کی جائے ،ہماری پارٹی میں اگر ٹیکس چور ہیں تو آپ کی پارٹی میں بھی تو سارے دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ فلاں بھی تو ایسا ہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حمام میں سب ننگے ہیں، لہٰذا چپ رہو‘لگے رہو منا بھائی اور سٹیٹس کو سے لطف اندوز ہو۔اگر ہماری پگڑی اچھالی جائے گی تو ہم آپ کی پگڑی اچھالیں گے۔ تبدیلی کے نعرے صرف انتخابی جلسوں تک محدود ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے سیاستدان ملکی ترقی کے لیے نئے آئیڈیاز پر بحث کرنے کی بجائے ایکدوسرے پر بحث کرتے ہیں اور میڈیا کو تو صرف اپنی ریٹنگ سے غرض ہے نہ کہ عوامی مسائل کو اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کر نے اور ان کے حل کے لیے کوشاں ہونے سے۔ دوسری طرف شخصیت پرست عوام کا بھی یہی حال ہے جو اپنازیادہ تر وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی غلطیوں کے دفاع میں گزارتے ہیں۔
تعصب اور شخصیت پرستی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کے لوگ اپنے من پسند لیڈر سے سر زد ہونے والی کوتاہی کو، کوتاہی کہنے کی بجائے اس کے دفاع میں کود پڑتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی بحث میں صرف عام افراد نہیں بلکہ اپنے آپ کو دانشور کہلوانے اور سمجھنے والے بھی شامل ہوتے ہیں۔ کیا کسی بھی پارٹی کارکن کا کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اپنے لیڈر کے جائز و ناجائز امور کا دفاع بدترین غلامی اور مفادات کی سیاست نہیں؟کیا ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جے آئی ٹی کے سامنے وزیر اعظم کی بیٹی کی پیشی کے موقع پر رونما ہونے والے مناظر میں بادشاہت کی جھلک ہے‘ لیڈی پولیس آفیسر کا سیلوٹ کرنا غلامانہ سوچ اور ملوکیت پسندی کا مظہر ہے‘ مملکت پاکستان میں رائج جمہوریت اور سیاسی پارٹیاں جمہوری نہیں بلکہ ملوکیت زدہ ہیں؟ کاش کہ وہ وقت آئے جب ہم تعصب‘ شخصیت پرستی اور مفادات سے بالاتر ہو کر غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی جراٗت کریں اور جھو ٹے و فریبی لوگوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دیں اسی وقت معاشرے میں حقیقی تبدیلی رونما ہو گی۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply