راجہ ملندا۔۔۔داؤد ظفر ندیم

یہ 150 سال قبل مسیح میں گزرا ہے۔۔۔۔
راجہ ملندا کی پاکستان کی تاریخ میں وہی حیثیث ہے جو بھارت کی تاریخ میں اشوک اعظم کی ہے مہاراجہ ملندا کی پیدائش کے بارے مختلف روایات ہیں مگر قرین قیاس یہی ہے کہ وہ سکالا یعنی سیالکوٹ میں پیدا ہوا تھا۔۔ملندا نے سیالکوٹ کو اپنا دارلحکومت بنایا تھا۔

یہ شہر اس زمانے میں نہایت زرخیز اور شاداب تھا۔ اس کے چاروں طرف باغات، تالاب اور جھیلیں تھیں۔ گھنے درخت تھے اور مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے تھے جو پہاڑیوں کی شکل اختیار کئے  ہوئے تھے۔ جن پر سبزہ اگا ہوا تھا۔ ساتھ دریا بہتا تھا اور ندی نالے بھی رواں تھے۔ اس کی شہر پناہ بہت مضبوط اور آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی تھی۔ جابجا حفاظتی برج بنے ہوئے تھے، جہاں دفاع کے لئے ایک طاقت ور سپاہ موجود تھی جو شہر کا عمدگی سے دفاع کر سکتی تھی۔ شہر پناہ کے شاندار بیرونی دروازے، ان کی محرابیں اور زبردست طریقے سے بنی ڈیوڑھیاں تھیں۔ شہر کے وسط میں شاہی قیام گاہ تھی جس کا رنگ سفید تھا۔ بازار اور منڈیاں قیمتی سامان سے سجی رہتی تھیں، شہر میں رفاع عامہ کے بیسوں منصوبے چل رہے تھے اور ہزاروں رہائشی مکانات بلکہ بعض حوالوں میں رہائشی مکانات کی تعداد لاکھ سے زائد بتلائی گئی ہے بازار میں ہاتھی، گھوڑے، خچر اور گدھے نظر آتے جبکہ ان کی گاڑیاں الگ تھیں شہر ایک پر ہجوم علاقہ تھا اور یہاں ہر طبقے کے لوگ رہتے تھے
ملندا ایک اعلی درجے کا جنگجو تھا مگر اس کی اصل صلاحیت اس کی علم دوستی تھی۔ اپنی دانائی، ہوشمندی، راست بازی، عدل پروری راست بازی اور بے پناہ جرات کی وجہ سے اپنی مثال تھا۔ ملندا نے ایک طاقت ور فوج ترتیب دے رکھی تھی اور اس کے پاس ایک کثیر خزانہ جمع ہو چکا تھا۔

راجہ ملندا کے دور میں مگدہ کی سلطنت پر پشامترا کی حکومت تھی پشا مترا ایک بڑا بادشاہ تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ راجہ ملندا کی سلطنت پر قبضہ کرے۔ اس کی چھیڑ خوانی نے راجہ ملندا کو مجبور کیا کہ وہ پشا مترا کو سبق سکھائے راجہ ملندا کی افواج نے نہ صرف حملہ آوروں کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ اس کے علاقے میں گھس کر اس کے مقدس گھوڑے کو بھی پکڑ لیا جو بادشاہ پشامترا نے قربانی کے لئے مخصوص کئے ہوئے تھا۔ بالاآخر پشا مترا کو جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔
ملندا کی فتوحات کا سلسلہ بہت وسیع تھا۔ اس نے دریائے بیاس کو عبور کرکے اسامس تک رسائی پائی تھی اس سے آگے پٹیلے تک گیا تھا۔ اور سراشتر یا کاٹھیاوار کو فتح کر لیا تھا۔ راجہ ملندہ کے سکے کابل سے یوپی تک کے علاقے میں ملے ہیں۔ راجہ ملندا کی سلطنت میں وسطی افغانستان کے اضلاع، خیبر پختون خواہ، تقسیم سے پہلے کا سارا پنجاب، راجھستان، سندھ اور گجرات حتی کہ یو پی کا بھی کچھ علاقہ شامل تھا۔ اس سلطنت کا دارالحکومت سیالکوٹ تھا۔ اس نے تجارتی راستوں کو محفوظ اور مضبوط بنایا تھا۔ ٹیکسلا اور پشکلاوتی کی تزہین نو کی اور ان شہروں کو خوبصورت بنایا۔ پاٹلی پتر سے سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے مغرب کی طرف راستے تعمیر کروائے۔ جنڈ پال کا مندر تعمیر کروایا۔
راجہ ملندا کے عہد میں مختلف اقسام کے سکوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ جن میں زیادہ تر چاندی اور تانبے کے سکے تھے۔ جن پر مختلف طرح کی شبیہیں بنی ہوئی تھیں اور خروشی رسم الخظ میں عبارت لکھی ہوئی تھی۔

رجہ ملندا ملکی اور سیاسی معاملات میں برہمنوں کی رائے کو خاص اہمیت دیتا تھا وہ ان کے افکار اور مباحث کو بڑی دلچسپی سے سنتا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ ان برہمنوں اور مذہبی عالموں سے بیزار ہو گیا اس نے ان سے باقاعدہ علمی سوالات پوچھنے شروع کئے اور اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ ان کا علم الفاظ کی گردان اور سطحی مباحث کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کسی تخلیقی اور علمی گہرائی سے محروم ہیں۔ اس نے ان کی علمی کج بحثیوں اور کج حجتیوں کی وجہ سے شہر میں مذہبی اور علمی مباحث پر پابندی لگادی۔۔
بارہ سال سیالکوٹ میں علمی اور مذہبی مباحث پر پابندی رہی۔ بارہ سال بعد شہر میں بدھ عالم ناگ سینا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیالکوٹ میں داخل ہوا انہوں نے زرد رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے زرد رنگ کے لباس شہر میں عجیب روشنی دیتے تھے۔ راجہ ملندہ اور اس کے پانچ قابل اعتماد وزراء ناگ سینا کی شہرت سن کر اس کے پاس حاضر ہوئے اور یہاں اس نے ناگ سینا کو درخواست کی کہ وہ دربار میں راجہ سے ملاقات کرے اور اس کے سوالوں کا جواب دے۔ انھیں سوالوں جوابوں سے بدھ مت کی وہ تاریخی کتاب تیار ہوئی جسے اب تک بدھ مت کی ایک مقدس کتاب سمجھا جاتا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سوال جواب کے نتیجے  میں راجہ ملندہ نے بدھ مت قبول کیا۔
راجہ ملندا کے عہد میں بدھ مت کی ایک مشہور کتاب تصنیف کی گئی جسے بدھ مت کی مقدس کتابوں میں شامل کیا جاتا ہے یہ کتاب راجہ ملندا اور مشہور بدھ راہب ناگ سینا کے سوال جواب پر مشتمل ہے۔ملندا کی ہردلعزیزی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ مرا تو اس کی مقدس راکھ سے حصہ پانے کے لئے شہریوں نے بہت جدوجہد کی تھی۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”راجہ ملندا۔۔۔داؤد ظفر ندیم

  1. بہت دلچسپ اور معلوماتی تحریر ہے. اگر برادر داؤد ظفر ندیم بدھ مت کی مقدس کتاب سے چند اقتباسات اور سیالکوٹ کی تاریخی تصاویر کا اضافہ کر دیں تو یہ مضمون بچوں کے تعلیمی نصاب یا کسی درسی کتاب میں شامل کیا جا سکتا ہے. اس وقت مملکت الله داد میں شائد ہی کوئی بندہ اسلام کی آمد سے پہلے کی شاندار تاریخ سے واقف ہو. نیز ہماری تاریخی کتابوں کو پڑھ کر یہی تاثر ملتا ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی.

Leave a Reply