آزادی یا غلامی ؟

فرد خود ہی سماج اور اس کے ادارے تخلیق کرتا ہے اور پھر انہی سے برسرپیکار ہو جاتا ہے۔ فرد اور سماج کی یہ کشمکش انسانی تاریخ کے ایک ایک صفحے پر رقم ہے۔ اس کشمکش میں فرد کا پلڑا بھاری ہو جائے تو اس کے اندر موجود تخلیقیت کا جوالا مکھی ابل پڑتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں نت نئی اختراعات سامنے آتی ہیں۔ غیر معمولی افراد کی آمد کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو انسانیت پر طاری جمود توڑ دیتے ہیں۔ ایک شاندار تہذیب جنم لیتی ہے جسے دیگر اقوام عالم حسرت سے دیکھتی ہیں۔ اسی طرح اگر سماج کو غلبہ حاصل ہو جائے تو اخلاقی اقدار، مذاہب اور اجتماعی فلسفے جنم لیتے ہیں جو ایک الگ طرز کی عالیشان تہذیب تخلیق کرتے ہیں تاہم شخصی آزادی ہو یا سماج کی بالادستی، دونوں کی تعمیر میں خرابی کی ایک صورت مضمر رہتی ہے۔

فرد کو جب آزادی کا تحفہ ملتا ہے تو صرف اس کی عقل و دانش کے خشک چشمے ہی رواں نہیں ہوتے بلکہ اخلاقی زنجیروں میں مقید تخریبی جبلتوں کو بھی آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ خاموش مگر منفی قوتیں نت نئے فلسفوں اور سائنسی ایجادات کے شور وغوغا میں خاموشی سے اپنی آزادی کی حدود بڑھاتی رہتی ہیں اور آخرکار اس قدر طاقت حاصل کر لیتی ہیں کہ خود عقل ان کی غلام بن جاتی ہے۔ نتیجتاً فرد کی آزادی تخلیقی عمل کا نصاب تحریر کرنے کے بجائے انتشار کا دیباچہ لکھنے بیٹھ جاتی ہے۔

تاریخ کے اس موڑ پر قدرت اشارے دینا شروع کر تی ہے کہ اب انسانیت کو انتشار سے بچنے کے لیے پھر سے اخلاقی و سماجی پابندیوں کے دائرے میں آ جانا چاہیے۔ تاہم فرد اس آزادی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا اور سماج اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ بوتل سے باہر نکلے اس جن کو واپس بھیجنے پر قادر نہیں ہوتا۔ چنانچہ قدرت انسانوں کی سیادت کا فریضہ اس تہذیب سے واپس لے کر دوسری تہذیب کو سونپ دیتی ہے جہاں ابھی تک فرد پر سماج کا غلبہ قائم ہوتا ہے۔

اس سارے معاملے کو تاریخ کی تازہ ترین مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب یورپ میں تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا تو اسلامی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ مغربی معاشرے کی اشرافیہ اور دانشوروں کا ایک طبقہ اسلامی تہذیب، خصوصاً ترکی سے متاثر تھا اور انہیں ایک مثالی معاشرے کی حیثیت سے دیکھتا تھا۔ یورپ میں فرد کی آزادی کا آغاز ہو چکا تھا اس لیے سماجی اقدار تیزی سے بکھر رہی تھیں۔ وہاں کی عورت خود سر ہو چکی تھی جس پر بہت اضطراب پایا جاتا تھا۔ اس کے برعکس ترک معاشرے میں مرد کی حکمرانی برقرا ر تھی اور دیگر سماجی اقدار بھی پوری طرح قائم و دائم تھیں۔ فرد پر سماج کا غلبہ حتمی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اس دور کے یورپ میں ہمیں بہت سی ایسی تحریریں ملتی ہیں جن میں اپنے معاشرے کے اخلاقی زوال کا ماتم کیا گیا ہے اور ترکی کو ایک بہترین ثقافتی مظہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس وقت کی اشرافیہ بھی ترکی لباس اور معاشرت کی نقالی اپنے لیے ایسے ہی اعزاز سمجھتی تھی جس طرح ہماری اشرافیہ آج مغربی اقدار کو اپنانے پر محسوس کرتی ہے۔

تاریخ کے اس نئے موڑ کو یہ مغربی دانشور نہ سمجھ پائے۔ انہیں اندازہ نہ ہو سکا کہ ترکی معاشرہ اپنی ظاہری شان و شوکت کے باوجود تخلیقی طور پر بانجھ ہو چکا ہے کیونکہ سماج کے بھاری بھر کم پتھر تلے کچلا ہوا فرد اپنی فطری آزادی سے محروم ہو چکا تھا۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ فرد کو اس ملبے سے نکالا جائے تاکہ تخلیقیت کا سفر پھر سے شروع ہو سکے۔ یہ مغربی دانشور فرد کی جس آزادی کا ماتم کر رہے تھے، اسی کی وجہ سے قدرت نے مغرب کو علم و حکمت کی نئی سرزمین کے طور پر منتخب کیا ۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ فرد کی آزادی نے صدیوں تک نابغہ روزگار افراد کی ایک مسلسل کھیپ پیدا کی جنہوں نے نہ صرف کائنات کے راز افشا کیے بلکہ فرد سے لے کر معاشرت تک کے تمام پہلوؤں پر نئے سرے سے غور کیا اور ایک ایسی تہذیب کی عمارت کھڑی کی جس نے ہر اس سرزمین کو اپنا غلام بنا لیا جہاں فرد سماج کی غلامی میں پھنسا ہوا تھا۔

صدیوں پر پھیلے اس تاریخی عمل میں جہاں تخلیقیت اپنی خوشبو بکھیرتی رہی، وہیں انسان کی تخریبی جبلتیں بھی اخلاقی غلبے سے آزاد ہوتی رہیں۔ آخر کار وہ وقت آن پہنچا جب فرد کی آزادی کے منفی پہلو اس کے مثبت پہلوؤں پر غالب آ گئے۔ وہ تمام اقدار اور ادارے جنہوں نے انفرادی آزادی کے تصور سے جنم لیا تھا اور جنہوں نے مغرب کے تخلیقی وجود کو مسلسل مہمیز دیے رکھی، اب منفی جبلتوں کے غلام بن کر انتشار پھیلانے کا باعث بن گئے۔ جمہوریت آج بھی ہمارے ہاں ایک مثالی نظام حکومت سمجھا جاتا ہے لیکن جب عوام نفرت اور خوف جیسی جبلتوں کے زیر اثر ہوں گے تو وہ دانشمند حکمرانوں کے بجائے ایسے رہنما منتخب کریں گے جن کی سیاست نفرتوں پر مبنی ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نظام جو کہ شخصی آزادی کے تصور پر قائم ہوا تھا، آج ریاستوں سے بھی طاقتور ہو چکا ہے۔ نفع کے پیچھے بھاگتا یہ بے رحم دیو دنیا کے امن کے لیے ایک مہیب خطرہ بن چکا ہے۔ اب شاید سوشلزم سے ملتے جلتے نظام کو رائج کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

تاریخی عمل ایک روڈ رولر کی طرح تمام رکاوٹیں دور کر کے اپنا رستہ خود بنا لیتا ہے۔ چونکہ اب سماج کی برتری کا دور وقت کی ضرورت ہے اس لیے فرد کی آزادی خودبخود محدود ہوتی جار ہی ہے۔ کیمرہ اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے انسان کی پرائیویسی پر ایسا شب خون مارا ہے کہ جلد ہی یہ تاریخ کے صفحات تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اس وقت جس قدر سائنسی ترقی مصنوعی ذہانت اور جینیٹکس میں ہو رہی ہے، اس کی بدولت یا تو انسان خود ایک فوق البشر قسم کی مخلوق بن جائے گا یا پھر ایسی مخلوقات تخلیق کرنے پر قادر ہو جائے گا جن کی تباہ کاری کی غیرمعمولی قوتیں انسانیت کے لیے خطرہ بن جائیں گی۔ اسی طرح اگلی چند دہائیوں میں موت کو پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ انسانوں کی عمریں کئی صدیوں پر محیط ہو جائیں گی۔ اس کی وجہ سے آبادی اس قدر تیزی سے بڑھے گی کہ ریاست بچوں کی پیدائش اور بوڑھوں کی اموات کے فیصلے خود کرے گی۔ یہ صرف چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ورنہ موجودہ صدی میں بہت کچھ ایسا ہونا ہے جو شخصی آزادی کو روند کر رکھ دے گا۔

اسی طرح اب مختلف شعبہ ہائے جات میں جینئس لوگوں کی پیدائش کا دور بھی ختم ہو رہا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط سے فرد کے بجائے گروہی تحقیق کا رجحان غالب ہے۔ سائنسدانوں کی جس ٹیم نے گریوی ٹیشنل ویوز دریافت کیں وہ ایک ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل تھی۔ سرن کی تجربہ گاہ میں ہزاروں سائنسدان پارٹیکلز پر تجربے کر کے کائنات کے راز افشا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اسی طرح جینیٹک انجینیرنگ میں بھی سارا کام گروہ کی صورت میں جاری ہے۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ اب فرد کی بجائے پراسیس زیادہ اہم ہو گیا ہے جسے ریاست ایک نظام کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے اور جس میں گروہی شکل میں کام ہوتا ہے۔

امریکہ شخصی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اس کی تخلیقیت کے دور میں ابراہیم لنکن جیسے صدور پیدا ہوئے جبکہ منفی جبلتوں کی حکمرانی نے جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں کے ہاتھ میں زمام اختیار تھما دی ہے۔ اس وقت یورپ میں نفرتوں کی سیاست کرنے والے لوگ مقبول ہو رہے ہیں جبکہ امریکا میں ٹرمپ کی فتح نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ معاشرے فرد کی آزادی کے تخریبی دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ خود غرض جبلتوں کی عقل پر مکمل فتح کی علامت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے یہ معاشرے خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن فرد کی لامحدود آزادی آخرکار ایک بلیک ہول کی طرح انہیں ہڑپ کر جائے گی۔

اس وقت مشرق سے نئی صبح کے اشارے مل رہے ہیں۔ چین میں شخصی آزادی اور جمہوریت کے بغیر ہی کامیابی کا ایک ماڈل پیش کر دیا گیا ہے۔ مسلمان معاشروں میں ابھی تک سماج کا غلبہ برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہب کی مضبوط گرفت کی وجہ سے فرد کی آزادی پر اخلاقی قدغن موجود ہے۔ یہ دونوں اجزا ایک نئی، طاقتور تہذیب کے طور پر انہیں سامنے لا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے ایک نئی سوچ اختیار کرنا پڑے گی جس میں نہ ہی مغرب کی غلامی ہو اور نہ ہی اپنے پرانے ورثے کی اسیری۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت اسلامی معاشروں کو جو سب سے بنیادی کام کرنا ہے، وہ اظہار رائے کی غیر مشروط اجازت ہے۔ ایسی اجازت جس میں اگر مگر کے پردے میں کوئی قدغن نہ لگایا جائے۔ اسی سے ذہنی جمود ٹوٹے گا اور تخلیقیت کے رستے کھلیں گے۔ چونکہ فرد کی لامحدود آزادی کا دور گزر چکا اس لیے مسلمان معاشروں کو یہ خطرہ درپیش نہیں ہے کہ وہ مغرب کی روش پر چل نکلیں گے۔ اگر مسلمان ممالک میں اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنا دیا گیا تو انہیں ایک عظیم الشان تہذیب بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور اگر یہ رستہ اختیار نہ کیا گیا تو پھر کوئی دوسرا خطہ یا تہذیب یہ اعزاز حاصل کر لے گا اور ہم بس دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply