تماشائی کی ڈفلی اورغیرت کا تقاضا

چند روز قبل کسی دوست کی وال پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سوالنامہ پر اعتراض دیکھا.جس سطح کے دانشور ہماری دانش گاہوں میں شعبہ امتحانات میں رکھے جاتے ہیں اور جس تندہی سے وہ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں وہ ہم میں سے کسی سے مخفی نہیں ہیں (اور ہماری غیرت اس معاملے میں کبھی جوش نہیں کھاتی)۔ آپ کسی بھی ادارے کے کسی بھی لیول کے پچھلے پندرہ سال کے امتحانی پرچہ جات اٹھا لیں ایک ہی قسم کے سوالات ترتیب بدل کر دے دیے جاتے ہیں۔ نصاب میں سے نئے سوالات منتخب کرنے کی بجائے سابقہ پانچ سالہ پرچہ جات سے سوالات چن لیے جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو الفاظ بھی نہیں بدلے جاتے۔ جو زیادہ فرض شناس ہوں وہ ایک آدھ لفظ بدل دیتے ہیں۔ مذکورہ سوالنامے کو میں نے ایسے ہی کسی فرض شناس کی مہارت پہ محمول کرکے انا للہ پڑھا اور آگے بڑھ گیا۔

سفر کی وجہ سے دو تین روز فیس بک کو زیادہ وقت نہ دے پایا۔ سفر سے واپسی پہ دوستوں کو بریگیڈ اور پلاٹون کی صورت صف آرا پایا۔ میری طرح کے کئی دوست جو فیصلہ نہ کر پائے کہ کس فوج میں خود کو شامل کریں وہ قاری صاحب کی اپیل کے باوجود بیٹھنے پہ تیار نہ تھے کہ پیچھے آنے والوں کو معرکہ آرائی سے حظ اٹھانے کا موقع دیں۔گھن گرج میں ذرا سا وقفہ محسوس کیا تو سوچا کہ طبل تو بجانے سے رہے سو کچھ دیر کو ہلکی ڈفلی ہی بجا لیں کہ شاید کسی کے کان میں پڑ جائے۔

عرض ہے کہ سوال کے بیہودہ ہونے پر کچھ شبہ نہیں۔ انسان بے شک سب برابر ہیں مگر مراتب کے لحاظ سے نہیں۔مرد قوام ہے مگر بیوی کے لیے، ماں کے لیے نہیں۔ جس لب و لہجے میں ہم چھوٹے بھائی کو مخاطب کرتے ہیں، اس لب ولہجے میں بڑے بھائی یا بڑی بہن کو مخاطب کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہم اپنے دوست کو تو کہہ سکتے ہیں کہ مجھے تم سے پیار ہے مگر اس کی بیوی کو نہیں۔ لیڈیز فرسٹ کا اصول ساری دنیا میں احترام سے اپنایا جاتا ہے کیونکہ مردوں کیلیے خواتین کا اُن کے مقابل زیادہ لائقِ احترام ہونا مسلم ہے۔ یہی سوال مردوں کے بارے میں کیا جاتا رہا، اعتراض نہ ہوا، بہن کیا کسی بھی زنانہ رشتے کے بارے میں ہوتا تو اعتراض جائز تھا۔

غیرت کا معاملہ بھی ہمارے ہاں عجیب ہے۔ ایک غلط سوال پہ جاگ جاتی ہے مگر سالوں سے مسلط غلط امتحانی نظام پہ سوئی رہتی ہے۔ بہن بیٹی کی مرضی کی شادی پہ جاگ جاتی ہے مگر زبردستی کی شادی پہ سوئی رہتی ہے۔ قندیلوں کے معاملے میں جاگ جاتی ہے مگر گھمنوں کے معاملے میں سوئی رہتی ہے۔ بیوی کا حصہ نہ ملنے پر جاگ جاتی ہے مگر بہن بیٹی کا حصہ کھا جانے پر سوئی رہتی ہے۔بیٹی کے دوپٹہ سرکنے پہ جاگ جاتی ہے مگر بیٹے کی اوباش حرکتوں پہ سوئی رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

غیرت کی بنیاد پر صف آرا دوستوں سے عرض ہے کہ جذبات کے خالق نے کتابِ ہدایت میں غیرت کا ایک تقاضا یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مخالف اگر آپ کی پاکباز بیٹی پہ لگے الزام کو پھیلانے کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو آپ کے حسنِ سلوک میں فرق نہیں آنا چاہیے۔

Facebook Comments

فاروق امام
پسماندہ کہلائے اور رکھے جانے والے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام پاکستانی. ہر پاکستانی کی طرح ویلا مصروف اور نویلا " دانشگرد"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply