الیکشن 2018 اور تبدیلی۔۔۔۔عمیرفاروق

الیکشن ۲۰۱۸ پاکستان کی تاریخ کے رخ کا دھارا موڑ دینے والا الیکشن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی سیاسی اشرافیہ خوف اور غم کی شدت سے بے حال ہے، ایسا پہلے کبھی کسی الیکشن کے نتیجہ میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کی تہہ میں دو بڑی تبدیلیاں موجود ہیں۔پہلی تبدیلی کا تعلق روایتی سیاست اور اس کی اجارہ دار سیاسی اشرافیہ سے ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اور عملی سیاست کی بنیادیں پچاس کی دہائی میں ڈالی گئیں اس کے بعد عملی اور نظریاتی جمود ہی رہا سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر سے عہد کے۔

ہمارے آج موجود تمام سیاسی نظریات، مذہبی، لسانی یا دیگر اسی دہائی میں مدون ہوئے اس کے سیاسی نعرہ جات، سلوگن ، چورن ، پھکیاں سبھی اسی عہد کی پیداوار ہیں اس کے بعد دانشور بھی کاپی پیسٹ کرکے ہی کام چلاتے رہے پرانے چورن نئے لیبل سے بیچتے رہے۔عوامی مسائل یا قومی مفادات اس نظریاتی سیاست کے نزدیک فضول اور قابل استہزا موضوع تھا یہ اپنے خودساختہ نظریات کی دنیا میں جی رہے تھے۔

دوسری طرف نواز کی ن لیگ ایک مختلف سیاسی ماڈل تھا انکا نظریہ طاقت اور بذریعہ طاقت ذاتی مفادات کا حصول تھا۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے وہ کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار تھے اور ایسا کرتے بھی رہے وقت پڑنے پہ اسٹیبلشمنٹ یا عالمی اسٹیبلشمنٹ ، دایاں یا بایاں بازو سبھی سے حسب توفیق ہاتھ ملایا۔لیکن تمام روایتی سیاسی اشرافیہ ایک نکتے پہ متحد تھی کہ عوامی مسائل اور قومی مفادات فضول موضوع ہے اور عوام کی حیثیت ان کے نزدیک ایک بےوقوف جانور سے زیادہ نہ تھی جسے زیادہ سے زیادہ بےوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنا ہی سیاست کی معراج ٹھہری۔الیکشن ۲۰۱۸ کے نتائج نے اس روایتی سیاست اور سیاسی اشرافیہ کو بستر مرگ پہ آ لٹایا ہے اور یہی انکی ہذیان کی حد تک پہنچی کوئی تلخی کا باعث ہے۔

مزیدبراں کے پی کے نتائج نے ان پہ لرزہ طاری کیا ہوا ہے۔ یہ وہ صوبہ تھا جہاں کی عوام حکمران پارٹی کو روایتی طور پہ مسترد کرتی آئی لیکن اس دفعہ حکمران جماعت کلین سوئیپ کرگئی
تو کیا اس کا مطلب ہے کہ روایتی سیاست اپنی تدفین کی تیاری کرلے؟ اس کا دور ہی بیت چکا، کیا اگلے الیکشن میں یہ نتائج ملک گیر پیمانہ پہ دہرائے جائیں گے ؟ اگر ایسا ہے تو روایتی سیاست واقعی دفن ہوچکی اس کے دن گنے جاچکے۔

لیکن خطرہ صرف یہاں تک محدود نہیں، عمران بے لاگ احتساب کا نعرہ لگا کر حکومت میں آیا ہے یہاں کوئی ایسی وجہ موجود نہیں کہ اب وہ اس پہ عمل کیوں نہ کرے کیونکہ روایتی سیاسی اشرافیہ پورے طور سے کرپشن میں لتھڑی ہونے کے ساتھ ساتھ عمران کی بدترین مخالف بھی تھی تو انکے بے رحم احتساب سے وہ نہ صرف عوام کی نظر میں توقیر حاصل کرتا ہے بلکہ اپنے بدترین مخالفین سے بھی نجات حاصل کرتا ہے۔ آنے والے دنوں کا یہ منظرنامہ ان کے خوف اور غم و غصہ کی بنیاد ہے۔
رونما ہونے والی دوسری اہم تبدیلی امریکی رویہ کی ہے۔ ان کے غم و غصہ کی وجوہات سمجھنا مشکل نہیں۔ وہ مشرف کے آخری ایام میں ایک سٹریٹیجک فیصلہ کرچکے تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کونڈا لیزا رائس اور ڈک چینی اس منصوبہ کے خالق تھے بش جونیئر کے عہد میں کہ امریکہ کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو خیرباد کہہ کر پاکستانی سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ ہماری موقع پرست سیاسی اشرافیہ نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور امریکیوں نے میڈیا میں بھی اپنے ترجمان بھرتی کئے تب سے نت نئے بیانیہ جات سننے کا ملے جنکو سن کر اب تو کان پک گئے ہیں۔

یہ امریکی فیصلہ اس مفروضہ پہ قائم تھا کہ پاکستانی سیاست میں دو مین سٹریم پارٹیاں ہی حکومت کرتی رہیں گی لہذا ان میں سے ہی باری باری جیتنے والے گھوڑے پہ شرط لگائی جائے اور اس کے ذریعے سسٹم کے اندر رہ کر اپنی مرضی کے فیصلہ جات مسلط کرائے جائیں۔ انہیں مقامی سطح پہ صرف اسٹیبلشمنٹ اپنے راستے کی رکاوٹ نظر آتی تھی لہذا ان کے کرائے کے دانشور زور و شور سے ڈھول پیٹتے رہے کہ سیاست کا مقصد عوامی مسائل اور قومی مفادات نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی ہر سطح پہ مخالفت ہی ہے۔

امریکی پریشانی کا منبع یہ ہے کہ انکے سٹریٹجک فیصلہ کو شہ مات ہوچکی اور ان کے ایجاد کردہ بیانیہ جات بھی دفن جمہوریت یا سسٹم کے اندر ایسے مقامی گماشتے ہی موجود نہیں جو ان کے آلہ کار بن سکیں تو جمہوریت کی غیر مشروط حمایت چہ معنی دارد؟؟۔۔۔۔۔۔ کم سے کم پاکستان کی حد تک۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا آنے والے دنوں میں وہ پاکستانی جمہوریت کو بھی اسی بندوق کی نال سے دیکھیں گے جس بندوق کی نال سے پہلے صرف اسٹیبلشمنٹ کو دیکھ رہے تھے۔
امریکی رویہ اپنے جلو میں نئے چیلنجز لے کر آنے والا ہے۔ کرپٹ پاکستانی سیاسی اشرافیہ اپنے آخری دور میں مکمل طور پہ مقامی امریکی گماشتہ کا کردار ادا کررہی تھی وہ اپنے بچاؤ کے لئے ہر حد پھلانگ لے گی اپنے غیرملکی سرپرستوں کی طرف بھی یتیمانہ نظروں سے دیکھے گی۔ لیکن خود امریکی کیا سٹریٹیجی اختیار کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
ایک بات طے ہے کہ خود اپنی صفائی کے عمل سے گزر کر سسٹم اور جمہوریت مزید طاقتور ہوکر نکلے گی اور عوامی حمایت اس کی پشت پہ ہوگی تو ہر چیلنج سے نمٹنا نسبتاً آسان ہوجائے گا۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply