بم دھماکوں پر ایک نظم

بم دھماکوں پر ایک نظم

لفظ نہیں پاس اب احساس بھی نہیں
باتیں ہیں کہنے کو بہت ہزار مگر اب
بات پھر بھی کچھ کہنے کوہے نہیں
لاشیں،جنازے اور یہ دھماکے ہیں
جی تو کرتا ہے
پکڑلوں تم لوگ کے گریباں
مگر کیا کروں،میں اہل قلم ہوں
کوئی تشدد پسند تو تم سا نہیں
تم حاکم، تم غاصب،تم اہل عقل کُل
یہ معصوم جنازے،یہ سوال کچھ بھی نہیں
تم اور اہل ِڈی ایچ اے رہے خوشحال
یہ عوام کیڑے مکوڑے، اور کچھ بھی نہیں
کراچی،لاہور،پشاور،کوئیٹہ،یا قبائل
یہ سب فقط ہیں شہیدہونے کو
مگر میرے یہ محافظ کے سالار
یہ اہل زبان ہیں فقط،اور کچھ بھی نہیں
جنازے میرے لوگ اٹھاتے ہیں روز
تم کو ہو غور وفگر کا شوق تو یہ چند شرپسند
تمھارے آگے پھر کچھ بھی نہیں
کبھی ڈالر،کبھی ریال تو سی پیک
مگر ان انسانوں کی جانیں
تمھارے لئے کچھ بھی تو نہیں
سوال اٹھاؤں گا تو مارا جاؤنگا
میں تمھارے اگر عقیدے پر نہیں
تو میں کچھ بھی تو نہیں
آگ لگادوں میں الفاظ سے اگر
مگر تم پر اثر کیا ہوگا بھلا کچھ بھی تو نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر:محسن علی

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply