• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جذبہ حریت اور امت کی بیٹیاں۔۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

جذبہ حریت اور امت کی بیٹیاں۔۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں جذبہ اور عشق سے چلتی ہیں اور اسی وجہ سے کامیاب ہوتی ہیں۔ زمینی حقائق، وسائل، مدمقابل کا طاقتور ہونا، اپنوں کے طعنے اور جانے کیا کیا مسائل بھی آزادی پسندوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ جب حکمت عملی قومی مفاد کے خلاف ہوتی تو وہ غداری کہلاتی ہے۔ سترہویں صدی میں جب استعمار اس دنیا پر قدم جما رہا، اس وقت مزاحمت کی جو تحریکیں برپا ہوئیں، انہوں نے حیران کن طور پر مقامی سرکاری افواج سے زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ انگریزوں کے خلاف بنگال سے شروع ہونے والی مزاحمتی تاریخ میں بڑی بڑی ریاستوں کی افواج انگریزی فوج کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں۔ اسی لئے سوائے ٹیپو سلطان کے انگریزوں کو کہیں کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، وہیں عوامی سطح 1857ء کی جنگ آزادی نے انگریزی راج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ موجودہ پاکستان میں مختلف جگہوں سے مزاحمت ہوئی، مگر گوگیرہ سے رائے احمد علی خان کی زیر قیادت ہونے والی مزاحمت بے مثال تھی، جس نے بڑے علاقے سے انگریزوں کو بے دخل کر دیا۔ جب مزاحمت میں وقتی کامیابی کی بجائے قومی بیداری بھی مطمع نظر ہو تو انسان بہت بڑے بڑے کام کر جاتا ہے۔

انگریز استعمار کے خلاف عوام بیدار ہوچکی تھی، تحریک پاکستان پورے زور و شور سے جاری تھی، مسلم لیگ دن دگنی رات چگنی کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی۔ خواتین، طلبہ، جوان غرض بچہ لیگ تک وجود میں آچکی تھی، ایسے لگتا تھا کہ قیام پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کو انگریزوں سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا ہے۔”لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان” کے نعروں سے فضا میں دہشت سی پیدا ہو جاتی تھی۔ اسی طرح کا ایک جلوس مسلم لیگ کی خواتین کی طرف سے لاہور میں نکالا گیا۔ لاہور جو ہندوستان کا ثقافتی مرکز تھا اور جس میں سے اٹھی آواز پورے ہندوستان میں سنی جاتی تھی۔ یہ جلوس مال روڑ پر نعرہ بازی کر رہا تھا، جلوس میں شریک ہر خاتون آزادی کے جذبے سے سرشار تھی۔

یہ جلوس چلتے چلتے پنجاب سول سیکٹریٹ کے سامنے پہنچ گیا۔ اب صورتحال ایسی تھی کہ مال روڑ پر ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم لئے مسلم خواتین آزادی کے حق میں نعرے لگا رہی تھیں اور سامنے سیکٹریٹ پر استعمار کی علامت یونین جیک لہرا رہا تھا۔ ایک فاطمہ نامی قوم کی بیٹی سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ استعمار کا یہ نشان یوں لہرائے، وہ بڑی دلیری سے آگے بڑھی اور تیزی کے ساتھ سول سیکٹریٹ پر چڑھ کر یونین جیک کو اتارا اور پولیس کے آنے سے پہلے ہی مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا۔ دیکھنے والے حیران و پریشان تھے کہ کیسے ہوگیا؟ وہ جذبہ جو استعمار کی تمام تر طاقت سے بے خوف کرکے ایک بہن اور بیٹی کو یہ طاقت دے کہ وہ اس وقت کی دنیا کی سپر پاور کا جھنڈا ان کی حکومت میں زمین پر پھینک کر اپنی قوم کی عزت کا نشان بلند کر دے، یہ بے مثال ہوتا ہے، اسے خریدا نہیں جا سکتا، اسے غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ انہی پاکیزہ جذبات کے نتیجے میں وطن عزیز معرض وجود میں آیا۔

مذکورہ بالا واقعہ مجھے کل سے بار بار یاد آ رہا ہے، کیونکہ میں نے فلسطین کی بیٹی، فلسطین کی آواز، فلسطین کی نوجوان نسل کی ہیرو، دنیا بھر میں فلسطینی مظلوموں سے ہمدردی رکھنے والوں کے لئے امید کی کرن عھد تمیمی کا واقعہ پڑھا۔ عھد تمیمی کئی ماہ سے بین الاقوامی میڈیا میں ڈسکس ہو رہی ہے۔ آزادی کی تحریکوں کو دہشتگردی کا نام دینے والے استعمار کے خدمت گزار اسے انتہا پسند اور جانے کیا کیا نام دے رہے ہیں، مگر تحریک آزادی فلسطین کے لوگ اسے آزادی کی طلب گار ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ عھد تمیمی کی آزادی کی جدوجہد نئی نہیں ہے، کہا جاتا ہے جب وہ صرف گیارہ سال کی تھی، اس کی ایک تصویر بہت معروف ہوئی تھی، جس میں وہ ایک اسرائیلی فوجی کے سامنے مکا لہرا کر جوانمردی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ دو سال پہلے اس وقت ایک اسرائیلی فوج کے ہاتھ کو اپنے دانتوں سے کاٹ کر ظالم سے نفرت کا ثبوت دیا تھا کہ ہم کسی صورت میں قابض قوت کو برداشت نہیں کریں گے۔

ابھی سترہ سال کی عمر میں اس نے اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے اپنے کزن کو ربڑ کی گولی سے نشانہ بنائے جانے پر ایک اسرائیلی قابض فوجی کو تھپڑ دے مارا۔ تھپڑ کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئی۔ ہر فلسطینی کو یہ تھپڑ ہر اس تھپڑ کا بدلہ لگا جو اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فلسطینیوں کو مارے گئے تھے۔ یہ جذبہ؟ یہ بے خوفی؟ یہ دلیری؟ یقیناً فلسطین کی جدوجہد آزادی کے لئے اساس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس تھپڑ پر اسے آٹھ ماہ کی قید ہوئی، اس کی ماں کو ویڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر سزا ہوئی۔ اب جب وہ آزاد ہوئی تو اس کا جذبہ حریت پہلے کی طرح جوان تھا، اس کی قابض قوتوں سے نفرت اپنے عروج پر تھی، بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اس فلسطین کی چوتھی نسل کی خوب ترجمانی کی اور وہ آواز جسے انسانیت کے دشمن نہیں سننا چاہتے، اسے بیابانگ دہل سنا کر رہی کہ فلسطینوں کو بموں سے مارا جا سکتا ہے۔

ان کے ورک پرمٹ منسوخ کئے جا سکتے ہیں، ان پر گولیوں کی برسات کرکے انہیں جان سے مارا جا سکتا ہے، مگر انہیں کسی صورت میں تحریک آزادی فلسطین سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت دسیوں فلسطینی خواتین اور بچے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید ہیں، کیا اس طرح کے ہتھکنڈوں سے اسرائیل فلسطینیوں کے جذبہ حریت پسندی کو قید کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ کیا اس طرح اہل فلسطین اپنی آزادی کی تحریک کو بھلا دیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ عھد تمیمی جیسی بچیوں کا بے خوف ہو کر ڈٹ جانا، اس واہمے کو دور کر دیتا ہے۔ کسی عرب حکمران نے کہا تھا کہ ہم اسرائیل سے لڑ نہیں سکتے، کیونکہ اب عرب مائیں بہادروں کو جنم نہیں دیتیں، جو قائد بنیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس حکمران کی بات شائد اس حد تک درست ہو کہ وہ عرب قیادت کو حکمرانوں کے محلات میں تلاش کر رہا تھا، وہاں اسے دلیر قیادت کی بجائے بزدل قیادت ہی نظر آئے گی، جو ہر مسئلے میں بین الاقومی استعمار کے سامنے جھک جاتی ہے، جو ان کے ایک اشارے پر اپنے لوگوں کو گولیوں سے چھنی کر دیتے ہیں، جو ان کے حکم پر فرقہ واریت کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ آو فلسطین کی سرزمین پر ہی عھد تمیمی اور اس جیسی سینکڑوں بچیاں مل جائیں گی، جو بے خوف ہو کر اپنے وطن کی آزادی کے لئے کوشاں ہیں۔ یہی قیادت تمہیں محلات سے نکالے گی اور یہ جذبہ حریت ایک آزاد فلسطین کے خواب کو حقیقت کا روپ دے گا، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہوگا اور دنیا بھر کے تمام مسلمان، مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اسی طرح اس شہر کی زیارت کے لئے آئیں گے، جیسے وہ سابقہ ادوار میں آتے تھے اور فلسطین امن، محبت اور سلامتی کا گہوارہ ہوگا۔ان شاء اللہ

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply