تیسری صنف سے امتیازی سلوک معاشرے کا تاریک پہلو

خواجہ سرا پیدا ہونا کوئی جرم تو نہیں قدرت نے جیسا چاہا انہیں ویسا پیدا کر دیا لیکن ان خواجہ سراوں کے ساتھ سب سے پہلے ان کے ماں باپ امتیازی سلوک کرتے ہیں ، اکتاہٹ،نفرت،شرمندگی کیوں طاری رہتی ہے ماں باپ پر، گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں گھر سے نکلتے ہی پھبتیوں اور ہتک آمیز جملوں کا سامنا جتنی استقامت سے یہ ٹرانس جنڈر لوگ کرتے ہیں وہ کسی اور انسان کے بس کی بات نہیں۔

انسان ہونے کے ناطے یہ لوگ بھی اس گھٹن کو برداشت نہیں کر پاتے اور آخر کار ایک روز گھر کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ انہیں اگر کہیں سے پیار ملتا ہے تو وہ گرو سے ملتا ہے۔ محبت کی ایک چھینٹ کو ترستے اس انسان پر جب گرو کی محبت کی برکھا برستی ہے تو یہ زیر بار احسان ہو کر خود کو گرو کے حوالے کر دیتا ہے ۔پھر جنسی استحصال کی ایک داستان شروع ہوتی ہے روز کوئی نہ کوئی گدھ ان کو نوچتا ہے ۔

اگر کسی کی شکل و صورت اچھی ہو تو کوئی مل اونر، کوئی تھانیدار، کوئی بدمعاش، یا معاشرے کا کوئی معزز فرد ان کو “رکھ” لیتا ہے جس کے عوض اسے ماہانہ کچھ پیسے ، کچھ کپڑے اور میک اپ کا سامان ملتا ہے ۔ یہ وہ بے نکاہی بیوی ہوتی ہے جسے کسی اور سے تعلق کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر یہ اس دوران کسی اور سے تعلق بنا لیں یا تعلق کا شک پڑ جائے تو پھر اس “ججے” کو اختیار ہوتا ہے کہ اسے چارپائی پر الٹا لٹا کر برہنہ کر کے مارے،سر کے بال اور بھنویں مونڈ دے، چہرے پر تیزاب پھینک دے یا سر عام گولیاں مار کے اس کی زندگی چھین لے، اسے یہ حق خواجہ سرا نہیں دیتا بلکہ ہمارا اندھا قانون دیتا ہے ہمارے معاشرے کا غیر متوازن نظام دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کسی کی شکل واجبی ہو تو وہ ٹرک ڈرائیوروں، ریڑھی والوں اور نچلے درجے کے دکانداروں کی ہوس کا نشانہ بنتا ہے۔ جس کے عوض زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے کچھ روپے ملتے ہیں۔ اور بالآخر جنسی استحصال کی اس داستان کا انجام ایڈز یا دیگرمہلک بیماریوں کی صورت میں ہوتا ہے۔سسک سسک کے مرنا وہ نصیب ہے جو ان کی پیدائیش سے پہلے ہی کہیں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply